۰۰۰۰
ریاض فردوسی
۔9968012976
۰۰۰۰
اللہ تعالی نے یہودیوں کے متعلق یہ پیشنگوئی کی کہ قیامت تک وہ ایسے ایسے بندوں کو پیدا کریگا جو سخت سے سخت عذاب یہودیوں کو دیگا (سورہ الاعراف،آیت نمبر 167 کے مطابق)
جدید دور میں ہٹلر اس کی مثال ہے، اس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتلِ عام کیا۔ قدیم دور میں وہ بخت نصر اور دیگر حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مار کھا چکے ہیں۔ دوسری پیشنگوئی یہ ہے کہ قیامت تک نصرانی یہودیوں پر غالب رہیگا کیونکہ ان لوگوں نے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کے نبوت اور رسالت کا انکار کیا(سورہ آل عمران،آیت نمبر 55) اور تیسری پیشنگوئی یہودیوں سے متعلق یہ ہے کہ یہ قوم ہمیشہ ذلت اور محکومی کے دن گزاریں گے لیکن ایک رخصت یہ بھی دی گئی کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام اور آخر نبی و رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے گے یا اس قوم کو کسی سپر پاور کی پشت پناہی حاصل ہو جائے گی تو پھر محکومانہ زندگی سے بچ جائے گے، یعنی اللہ تعالی یہودیوں کو عذاب دیتا رہیگا لیکن درمیان میں ان لوگوں کے لیے کچھ عرصہ ایسا بھی گزرے گا جب وہ امن امان اور اطمینان کی زندگی بسر کریں گے(سورہ آل عمران، آیت نمبر 112؛ اِلَّا بِحَبلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبلٍ مِّنَ النَّاسِ)۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح Persian king Cyrus نے یہودیوں کو جلاوطنی کے بعد ان کے وطن لوٹ جانے کی اجازت دی اور یہ بھی اجازت دی کہ وہ دوبارہ ہیکل سلیمانی کے بنیادوں پر ہیکلِ سلیمانی از سر نو تعمیر کر سکتے ہیں۔ جدید دور میں پہلے یہودیوں کو برطانیہ عظمیٰ کی پشت پناہی حاصل تھی اور ابھی امریکہ یہودیوں کے پشت پر کھڑا ہے۔ مسلمانوں کو یہی بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک کویی بھی سپر پاور یہودیوں کا حلیف ہے اس وقت تک ان کے ساتھ حکمت سے معاملہ کرے،جو آج سپر پاور ہے اگر کل وہ زیرو پاور ہو جائے یا دنیا میں کوئی سپر پاور یہودیوں کے پشت پر کھڑا نہیں ہو تب اس وقت مسلمانوں کو کوئی اور تدبیر اختیار کرنا چاہیے۔کیونکہ یہ خدایی فیصلہ ہے کہ جب تک یہودیوں کو کسی بڑی طاقت کا تعاون حاصل ہے اس کے لیے ذلت عارضی طور پر مؤخر کر دی جائے گی۔
جلاوطنی کے بعد یہودی قوم دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر آباد ہو گئی۔ انکی نہ اپنی کوئی مملکت رہی اور نہ ہی حکومت۔ جہاں کہیں بھی رہیں محکوم بن کر رہیں۔ رومن شہنشاہ قسطنطنیہ اعظم کے 337 AD میں قبولیت عیسائیت کے بعد یہودی عیسائیوں کے محکوم بن کر رہے اور محمد پرسول اللہ ﷺ کے بعثت کے بعد جب مسلمانوں کے عروج کا دور شروع ہوا تو یہودی مسلمانوں کے زیر اثر محکومی کی زندگی گزارنے لگے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر علاقوں پر دو الہامی قوموں کا قبضہ ہو گیا ہے، ایک عیسائی قوم کا اور دوسری مسلمان قوم کا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فلسطین فتح ہوا۔ بنو امیہ کے دور حکومت میں مشرق میں مسلمانوں کی مملکت وسط ایشیا، ماوراء النہر کے علاقے، خراسان، سندھ تک پھیل چکی تھی۔ مغرب میں شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے، سسلی، جزیرہ کریٹ، اسپین، پرتگال، اور جنوب فرانس کے بعض علاقوں پر مسلمان قابض ہو چکے تھے۔ اسپین جو مکمل طور پر ایک صلیبی ریاست تھی وہ ایک اسلامی ریاست بن گئی۔ اتنا ہی نہیں اسپین میں مسلمان عرب ممالک اور شمالی افریقہ سے آکر آباد ہو گیے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں نے شمشیر کے زور پر کیا۔ یہ زمانہ فاتحین اور مفتوحین کا زمانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگوں کے ذریعہ زمینیں فتح کرنے کے عمل کو درست اور جایز سمجھا جاتا تھا۔ زمینوں کا مالک وہی ہوتا جو زمینوں کو فتح کرتا۔ لیکن یہ کام صرف مسلمانوں نے ہی نہیں کیا بلکہ ماضی میں Assyrians, Babylonians,Persians,Greeks Romans اور ہندوستان میں ہندو راجاؤں اور یورپ ملکوں کے بادشاہوں نے بھی یہی کام کیے ہیں۔ وحشی قوموں میں شاک، ہون، ونڈال، گاتھ، بیکٹریا، چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی کر چکے ہیں۔ بہرکیف دیکھتے دیکھتے مسلمانوں کی حکومت تین براعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ کے بعض خطوں تک پھیل چکی تھی۔ بنو امیہ کے بعد بنو عباس کی حکومت قائم ہویی۔ عباسیوں کے دور حکومت میں اناتولیہ جہاں عیسائی باظنتنی حکومت قائم تھی کے بیشتر علاقے عباسی مملکت کے حصے بن گئے۔ جب عباسی خلافت تھوڑی کمزور ہویی تو اناتولیہ میں سلجوقیوں کی سلطنت آف روم قائم ہویی، ملک شام میں زنگی حکومت قائم ہویی؛ مصر میں فاطمیوں کی خلافت قائم ہویی۔ پھر صلیبی جنگ (Crusade) کا زمانہ شروع ہوا۔ 1096ء میں عیسائیوں نے فلسطین کو فتح کیا اور یروشلم میں صلیبی ریاست قائم کی۔ یروشلم تقریباً سو سال تک عیسائیوں کے قبضہ میں تھا۔ پھر سال 1187ء میں حطین کی جنگ میں مرد مجاہد صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو عیسائیوں سے واپس لے لیا اور اس کے بعد فلسطین ساڑھے سات سو سالوں تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔
کل ملاکر نو بار صلیبی جنگیں لڑی گئی اور ہر صلیبی جنگ کا مقصد یروشلم کو مسلمانوں کے قبضہ سے چھڑانا تھا لیکن اس مقصد کے حصول میں یورپ کے عیسائیوں کو کامیابی نہیں ملی اور تنگ آکر انہوں نے مسلمانوں سے تصادم اور ٹکرانے کا راستہ چھوڑ دیا اور اس طرح دو سو سالوں بعد 1291 میں صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ لیکن صلیبی جنگ کے اختتام سے پہلے مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان ہوا جب منگولوں کے ہاتھوں سال 1258 ء میں بغداد سے عباسی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ صلیبی جنگ سے ٹھیک دو سو سال بعد 1492ء میں اسپین سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہو گیا اور مسیحیوں نے دوبارہ اسپین فتح (Reconquista) کر لیا۔ لیکن اسپین سے عربوں کے اخراج سے پہلے سال 1453ء میں ترکوں نے قسطنطنیہ (Constantinople) کو فتح کیا اور اس طرح مغربی رومن ایمپائر کے زوال کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد مشرقی رومن ایمپائر (Byzantine Empire) کا خاتمہ ہو گیا اور ایک بار پھر مسلمانوں کا تین براعظموں پر قبضہ ہو گیا۔ ترکوں کی حکومت مسلمانوں کی آخری قوت تھی۔ قسطنطینہ کے زوال کے بعد یورپ میں دو تحریکیں جنم لیں، ایک اصلاح دین (Reformation) جس کے باعث چرچ کا اقتدار مملکت سے ختم ہو گیا اور دوسرا احیاء علوم (Renaissance) جس نے اہل علم کو کلاسیکی علوم کے طرف متوجہ کیا۔نئے نئے سائنسی نظریات دریافت ہونے لگے جس سے لوگوں کی دلچسپی سائنسی علوم میں بڑھنے لگی۔نئے نئے بحری راستے دریافت ہویے جس سے نئے ممالک و جزائر دریافت ہویے۔ نئی زمینی دریافت کے باعث یورپی ممالک جیسے اٹلی، فرانس، جرمنی، اسپین، پرتگال، برطانیہ وغیرہ ان جگہوں پر اپنی اپنی کالونیاں قایم کیے اور وہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا۔ سائنسی علوم کی ترقی، قدرتی وسائل سے لبریز نئی زمینوں کی دریافت اور ان پر قبضہ نے یورپی ممالک کو زیادہ طاقتور بنا دیا۔ پھر سال 1776ء میں امریکہ کو آزادی حاصل ہویی اور ازادی حاصل کرنے کے بعد امریکہ خاموشی کے ساتھ یورپ کی سیاست اور جنگ و جدال سے دور رہ کر اپنے گھر کی تعمیر میں لگا رہا اور پھر جاپان کے دو شہروں پر دو ایٹم بم گراکر اپنے آپ کو دنیا کو ایک سپر پاور کی حیثیت سے تعارف کروایا۔ پھر 1789ء میں فرانس کا انقلاب برپا ہوا جس نے یورپ کے عوام کے اندر قومیت کا جذبہ بھر دیا۔فرانسیسی انقلاب نے یورپ کے لوگوں کو نئے اقدار مثلاً آزادی (liberty) مساوات (Equality)، اور اخوت (Fraternity) سے تعارف کرایا۔ شخصی آزادی اور سیاسی خودمختاری ایک عالمگیر عقیدہ بن گیا۔ عوام شخصی حکومت کے بجائے عوامی حکومت کو ترجیح دینے لگے۔ اس لیے انیسویں صدی میں یورپ کے زیادہ تر ممالک میں پارلیمانی نظام قائم ہو گیا۔دوسرا بڑا نتیجہ فرانسیسی انقلاب کا یہ نکلا کہ پورے یورپ میں قومیت (Nationalism) کی لہر دور گئی۔ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ قوم کا حکمران اسی کے قوم کا ہونا چاہیے،وہ کسی دوسری قوم کے حکمران کے ماتحت محکوم بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہویے۔ قومیت کے اس جذبہ نے لوگوں کو جو الگ الگ چھوٹے چھوٹے صوبوں میں تقسیم ہو گیے تھے اور الگ الگ حکمران کے ماتحت تھے ان تمام لوگوں کو متحد کرکے ایک بڑی سیاسی ریاست قائم کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوئے۔ قومیت کے اس جزبہ نے اٹلی اور جرمنی کو متحد کیا۔ قومیت کے اسی جزبہ کے باعث کئی خود مختار آزاد ریاستیں وجود پزیر ہویی۔ 1831ء میں بیلجیم ہالینڈ سے الگ ہوکر ایک خودمختار مملکت بن گیا۔ وینا کانگریس(Congress of Vienna) نے بیلجیم کو ہالینڈ کے ساتھ جوڑ دیا تھا،بیلجیم نے اس الحاق کو پسند نہیں کیا کیونکہ ہالینڈ بیلجیم سے ایک علیحدہ اور متفرق قوم تھی، اس لیے بیلجیم نے اس الحاق کی مخالفت کی۔ سلطنت عثمانیہ کے ماتحتی سے کیی صوبے آزاد ہوکر نئے ممالک بن گئے۔ یونان سلطنت عثمانیہ سے 1829 ء میں آزادی حاصل کر لیا اور جنوبی مشرقی یورپ کے کئی ممالک سلطنت عثمانیہ سے الگ ہوکر آزاد ممالک بن گیے۔ 1877ء میں روس نے ترکوں کو شکست دی اور ایک سال بعد 1878ء میں برلن کا معاہدہ ہوا جس کے رو سے سربیا، رومانیہ اور مانٹی نیگرو کو ترکی سے آزادی دلادی گئی۔ 1908ء میں بلغاریہ ترکی سے آزاد ہو گیا۔ 1912ء میں بلقان کے چار ممالک سربیا، یونان، مانٹیگرو اور بلغاریہ نے متحدہ طور پر ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔یہ بلقان کی پہلی جنگ تھی۔ جنگ میں ترکی کو شکست ہوئی۔ لندن کا معاہدہ ہوا اور ترکی کو قسطنطنیہ اور تھراس کو چھوڑ کر تمام یورپی خطوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ تمام ریاستیں جو قومیت کے نام پر آزاد ہوئی،قومی ریاست (Nation states) کہلاتے ہیں۔جیسا کے اوپر مذکور ہوا کہ سلطنت عثمانیہ واحد مسلم طاقت تھی اب وہ کمزور پڑ گئی، اسے اب یورپ کا ضعیف آدمی (Sick man of Europe) کہا جانے لگا۔ سنت اللہ کے مطابق اقتدار مسلم طاقت کے ہاتھ سے نکل کر مسیحی طاقتوں کے ہاتھوں منتقل ہو گئی۔ یورپ کے سیاسی مسائل کا قضیہ برطانیہ، فرانس، روس، آسٹریا جیسی طاقتور ممالک کرنے لگیں۔ ان یورپی طاقتوں نے ایک پالیسی یہ بنایی کے ان کے جو حلیف ہوں گے ،جنگ جیتنے کے بعد انہیں انعام دیا جائے گا اور انکے بالمقابل جو حریف ہوں گے انہیں سزا دی جائے گی یعنی حریف ممالک کے زمین کے ٹکڑے حلیف ممالک کو دے دیے جائیں گے۔انیسویں صدی کے نصف میں یہودی قوم میں Theodor Herzl نامی ایک شخص کا نمودار ہوا ،جو ہنگری کا باشندہ اور پیشہ سے صحافی اور سیاسی کارکن تھا.۔
بقیہ صفحہ 9 پر 1
٭٭٭