یکساں سول کوڈ ۔۔۔خواتین کے حق میں نہیں ہے۔

0
0
عرشیہ شکیل
ناندیڑ
 مودی سرکار کا کہنا ہے کہ” ایک ملک میں ایک ہی قانون چلنا چاہیے۔ ایک گھر میں الگ الگ قانون ہو تو گھر نہیں چلتا تو ایک ملک میں الگ الگ قانون ہو تو ملک کا ایسا چلے گا؟”
 اس کا جواب یہ ہے کہ” ہم ہزاروں سال سے اس کے بغیر رہ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی رہ سکتے ہیں۔”
 ہندوستان ایک تکثیری ملک ہے۔ جہاں الگ الگ مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں ۔جن کے رسم رواج ،شادی بیاہ ،طلاق ،وراثت کا قانون الگ الگ ہے ۔
ارٹیکل/ 25 اور 29 کہتا ہے کہ "لوگوں کو یکساں طور پر مذہبی ازادی حاصل ہے ۔ اپنی پسند کے مذہب کواختیار کرنے ،اس پر عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کی پوری ازادی ہے اور تہذیبی اقلیت کو اپنی تہذیب کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔” جبکہ دفاع 44/ رہنما اصول میں سے ایک اصول ہے جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر عوام کا ہر طبقہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے راضی ہو تواسے نافذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قانون کو اس پر بالادستی حاصل ہے اور اس آرٹیکل پر 25/ 26 /29 آرٹیکل کی زد پڑتی ہیں ۔
۔ہم دیکھتے ہیں کہ ازادی کے پہلے بھی اس پر بہت بحث اور مباحثہ ہو چکا ہے۔ اس کی مخالفت میں مولانا ابوالکلام ازاد، شاما پرساد مکھرجی اور سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی تھے۔
 اور 1938 میں کانگرس نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ” اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی.”
 1972 میں سپریم کورٹ میں مذہبی طور طریقوں اور رواجات کا مسئلہ اٹھایا گیا تو عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ انہیں آرٹیکل 25 اور26 کا تحفظ حاصل ہے ۔جو صرف نظریہ  وعقیدے کے معاملے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں عبادات، تقریبات ،رسم و رواج سب کچھ شامل ہے اور یہ سب مذہبی عمل کا اٹوٹ حصہ ہیں ۔
یکساں سول کوڈ کا اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے تو یہ کسی طور پر بھی خواتین کے حق میں نہیں ہے۔
 مثال کے طور پر اگر مرد سے طلاق کا قانون چھین لیا جائے گا تو عورت پر ظلم کرنے والا شوہر جو شرابی، جوہاری ہو گھر میں بیوی بچوں کی کفالت نہیں کرتا ہو، مار پیٹ گالی گلوچ کرتا ہو تو کیا تو عورت کو اس ارٹیکل کی وجہ سے ظلم  سہنا ہوگا ۔
کیا یہ عورت کے حق میں صحیح ہوگا ؟
مانا کہ طلاق کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے۔لیکن چند وجوہات ایسی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے تو ایک عورت کے لیے ایک راستہ  کھلا ہے کہ وہ طلاق کے ذریعے ظلم سےچھٹکارا پا سکتی ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرسکتی ہے۔اور پرسکون زندگی گزارسکتی ہے۔
 تعداد ازواج ۔۔۔
 جس شخص کو اولاد نہ ہو یا پھر اس کی بیوی  اس حد تک بیمار ہو کے گھر بار نہیں سنبھال سکتی ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہیے یہ قانون اس پر بھی ضرب لگاتا ہے جو اگے چل کر بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ حکومت” تعداد  ازواج "پر پابندی لگاتی ہے لیکن
” لیو ان ریلیشن شب” کی پوری اجازت دیتی ہے جبکہ” لیو ان ریلیشن شپ” ایسارشتہ ہے جس میں فریقین  کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ سماج میں کہ کس طرح” لیو ان ریلیشن شپ "میں رہنے والے لڑکیوں کی دردناک موت کے منظر سامنے  آرہے ہیں
 وراثت کی تقسیم۔۔۔۔
 مرد عورت کو برابر حصہ ملنا یہ بظاہر خوش کن نعرہ ہے۔ لیکن گہرائی میں جانے کے بعد یہ پتہ لگتا ہے کہ مرد کے فرائض میں ماں باپ، بیوی، بچ،ے بھائی، بہن کی ذمہ داریاں ہیں۔رہائش،کھانا ،کپڑا،تعلیم،علاج و معالج وغیرہ اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جبکہ عورت پر مال کمانا اور خرچ کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ یہ قانون  بھی نقصان دہ  ہے۔
حکومت کو خواتین کی بھلائی کا اتنا ہی خیال ہے تو عورتیں سماج میں  کئ مسائل سے دوچار ہیں۔
 آئے دن زنا بالجبر کی واردات ہوتی ہیں۔ جہیز کا نام پر خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔
 بیواؤں کی کسمپرسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
 ہندو سماج میں دیوداسی نظام، پربھو نظام میں خواتین کا جنسی اسستحصال کیا جاتا ہے۔ مدھیہ پردیش اور گجرات میں لڑکیوں کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔
 بنارس، کاشی، متھرا بیواؤں کے شہر کہلانے لگے ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن   2024 کے "لوک سبھا” انتخابات جیتنے کے لیے حکومت "پولرائزیشن” کی سیاست کر رہی ہے۔
  یکساں سول کوڈ کو  میڈیا اور مختلف چینلوں کے ذریعے "ہندو بنام مسلم موضوع” بنا کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے ۔حالانکہ یہ بل مسلمانوں سے زیادہ قبائل ,ہندو, سکھ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔حکومت غیر جانبداری سے کام لے۔ارو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بجائےاپنے ملک کے شہریوں کے امن و سکون کا خیال رکھیے۔یہی ریاستوں کے لئے بہتر ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا