’’ یا اللہ اس قوم کا کیا بنے گا ،جس قوم کے رہنما ایسے ہوں ؟‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ،کولکاتا ۔۵۸
mOB: 6291697668

 

 

اللہ کی زمین فسق و فجور سے بھر چکی ہے، ہر سو گناہوں کا طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا ، بالخصوس باغیانہ صورت، بے پر دگی ، بے حیائی اور فحاشی و عریانی کا سیلاب تو تمام بند توڑ چکا ہے ۔ طرفہ یہ ہے کہ بُرائی کا احساس تک دلوں سے محو ہوچکا ہے،بہت سے گناہوں کو آج کے مسلمانوں نے گناہوں کی فہرست ہی سے نکال ڈالا ہے ۔ یہ دیکھ دیکھ کر دل میں ٹیس سی اُٹھ رہی ہے ، سینے میں درد اُٹھتا ہے کہ یا اللہ اس قوم کا کیا بنے گا جس قوم کے رہنما ایسے ہوں؟
آج دیکھ لیں دنیا بھر میں مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے؟ مصائب کے کیا کیا پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ؟ مسلمان کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہیں ۔ پھر اس اجتماعی بحران سے قطعی نظر نا فرمان لوگوں کے ذاتی حالات کا ایک نظر سے جائزہ لیں ، گھر گھر میں لڑائی اور گلی گلی میں دنگا فساد بر پا ہے ،بھائی ، بہن ، میا ں ، بیوی ، اولاد ، والدین باہم دست و گر یباں ہیں ، کہیں چین نہیں ، اطمینا ن نہیں ، ہر سو شور و غل کا سماں ہے ، پوری دنیا گناہوں کی نحوست سے جہنم کدہ بن چکی ہے ، نفسا نفسی کا عالم ہے ، ہر شخص حیران و پریشان ہے اورسرگرداں ہے ۔ ہمارے معاشرے کی تباہی اور قوم مسلم کی بر بادی کا سبب یہ ہے کہ اول تو ہم برائی کو برائی نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کوئی بات نہیں ، معمولی بات ہے پھر اس کے نتائج جب بُری صورت میں ہمارے سامنے نمودار ہو تے ہیں تو اس پر ہم پریشان ہو جا تے ہیں ۔
لوگو!آج بنیادی طور پر ہمارے اندر جو نقص پیدا ہوا ہے وہ اس لئے کہ ہمیں اللہ کی ذات پر اعتماد نہیں رہا ، یقین نہیں رہا ، وہ لوگ جن کو یقین تھا وہ جان کی بازی ہار دیتے تھے تو حید کی بازی نہیںہارتے تھے ، وہ اپنے جسم کی بازی ہار جا تے تھے اللہ کی وحدانیت کی بازی نہیں ہار تے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا دنیا ادھر کی اُدھر ہو جا ئے اللہ کی توحید میں خلل نہیں آسکتا اور اللہ موجود ہے تو دنیا کی کوئی طاقت نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتی ، لیکن آج نہ صرف یہ کہ برائی ہم کو گوار ا ہو چکی ہے بلکہ ہم برائی کا اظہار کر تے ہو ئے اور اپنی طرف برائی کو منسوب کر تے ہو ئے کوئی حیا محسوس نہیں کر تے ، شرم اس معاشرے سے اس اس طرح مٹ گئی ہے ، حیا اس طرح اس معاشرے سے ختم ہو گئی ہے ، فحاش اس طرح اس معاشرے میں پھیل گئی ہے کہ کیا عرض کروں کون سی برائی ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جا رہی ہے ، خوشی کی تقریبات ہو یا رنج و غم کا وقت ، ہر جگہ کھُلے عام احکام خداوندی کو پیرو ںتلے روندھا جا رہا ہے اور سچے رسول ﷺ کے طریقوں کے جنازے نکل رہے ہیں ۔ اسلامی طور طریقے اور سنت کے مطابق کام کر نے کو دقیانوسیت اور تر قی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے ۔ ساری اسلامی تعلیمات و ہدایات کو چھوڑ کر مغرب کی اندھی تقلید کو روشن خیالی ، تر قی پسندی اور فیشن تصور کیا جا رہا ہے ، حد تو یہ ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے ان سے بھی غفلت بر تی جا رہی ہے ۔ اور یہ سب کچھ جو آج کل ہو رہا ہے۔ امت جو دین سے روز بروز دور ہو تی جا رہی ہے ان سب کا ذمہ دار ہیں آج کل کے مسلکی امام ۔
قارئین محترم ! مسلکی امام کے مسلکی گروہ نے قرآن و حدیث پر ، خدا پر ، رسول ﷺ پر ، کعبے پر اور جنت پر قبضہ جما رکھا ہے، ہر گروہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول ﷺ ہمارے ہیں ، قرآن ہمارا ہے ، حدیث ہماری ہے ، مکہ اور مدینہ ہمارا ہے ، صحابہ کرام ہمارے ہیں ،اولیا کرام ہمارے ہیں ، مغفرت اور شفاعت صرف اور صرف ہمارے لئے ہے، تمہارے پاس کیا ہے بد عقیدو اور مشرکو ؟ لہذا اگر جنت میں جا ناچاہتے ہو تو بریلوی بن جا ئو ، دیو بندی بن جا ئو ، اہل حدیث بن جا ئو ، شیعہ بن جا ئو ، سنی بن جائو ، اس کے بغیر جنت میں جا نا محال ہے ۔ گویا نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جہاد ، حقوق اللہ اور حقوق العباد ہمیں جنت میں لے کر نہیں جا ئے گی بلکہ مسلکی ٹھپہ لے کر جا ئے گا۔ یہ نا اہل مذہبی رہنما ، امت کی باگ ڈور سنبھالے ہو ئے ہیں ، ان میں سے کچھ مسلکی مولوی ، مفاد پر ست مولوی اور جاہل مولوی جو جاح و طلب و منصب کے دلدادہ اور مادی مراعات کے خواہاں ہو تے ہیں عوام کو مسلک کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں ، امت کو گمراہ کر کے ان سے مالی فوائد حاصل کر تے ہیں اور ایک دوسرے مسلمانوں کے خلاف نفرت ، بغض اور عداوت کا بیج بو تے ہیں ، آخرت کے دن سے غفلت ، دوسری قوموں کی طرح دنیا کی چند روزہ مال و دولت اور عزت و جاہ کی ہوس، کبھی سیاسی اقتدار کے لئے کشمکش ، عہدوں اور منصوبوں کی خاطر ان لوگوں نے دین اسلام کو اسقدر بد نام کر دیا ہے کہ آج غیر اقوام ہمارے دین پر کیچڑ اُچھا ل رہی ہے ۔ ہمارا مقدس کتاب قرآن مجید کو کبھی نذر آتش اور کبھی پھاڑا جا رہا ہے ۔ ہمارے نبی پاک ﷺ کی کبھی کارٹون بنا کرتضحیک اُڑا ئی جا رہی ہے اور کبھی آپ ﷺ کی شان میں ناز یبا کلمات بو لے جا رہے ہیں ،ا ٓپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے اور ہمارے یہ دین کے رہنما ، قوم کے امام اپنی مطلب کے لئے ، اپنے اعلیٰ مقام سے اس قدر گر تے چلے جا رہے کیا کیا بتائوں۔
قارئین محترم ! گذشتہ چند دن پہلے کی بات ہے کہ مغربی بنگال میں موذن اور اماموں کی ا یک میٹنگ نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں بلائی گئی جہاں تقریبا ً مغربی بنگال کے ہر علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں امام و موذن کی آمدہو ئی ، اماموں نے امامت چھوڑ کر اور موذن نے اذان چھوڑ کر حکومت کے بلاوے پر حاضر ہو ئے محض چند سو روپئے کہ لئے ۔جی ہاں جب سے بنگال کی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی ہو ئی ہیں وہ بھولے بھالے مسلمانوں کے مذہبی پیشوا کے ساتھ کافی نرم دلی کھائی دے رہی ہیں ۔ حکومت میں آتے ہی انہوں نے وقف بورڈ سے اماموں کے لئے۲۵۰۰ سو روپئے اور موذنوں کے لئے ۱۰۰۰ روپئے کا وظیفہ مقرر کیا تھا۔ وقف کیا ہوا مال پر غریبوں ، مسکینوں ، ضرورت مندو، بیوائوں کا حق ہو تا ہے مگر موجودہ حکومت نے نہ تو اپنی حکومت کے خزانے سے اور نہ ہی اپنی جیب خاص سے بلکہ مسلمانوں کا ہی پیسہ جو غریبوں کے لئے ہے اُسے اماموں اور موذنوں میں بانٹ رہی ہیں ، چلئے اچھی بات ہے امام اور موذن کا کچھ بھلا ہو جا تا ہے ، کیونکہ ہمارے یہاں کے مخیر حضرات مسجد میں سمینٹ کے لئے لاکھوں ، راڈ کے لئے ہزاروں ، ماربل اور ٹائلس کے لئے سینکڑوں کی رقم دے دینگے لیکن امام اور موذن کو واجب تنخواہ دیتے وقت ان کی جان نکل جا تی ہے۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب جو کہ نائب رسول کہلاتے ہیں ہمارے موذن صاحب جو دن بھر میںپانچ مر تبہ لوگوں کوکامیابی کی طرف بلاتے ہیں ، چند پیسوں کی خاطر امیرو کے درو ں پہ حاضری آخر کیوں دیتے ہیں ؟ حکومت کے تلوے آخر کیوں چاٹتے ہیں ؟ یہی وجہہ ہے کہ ہمارے اماموں کا وقار دن بدن گھٹتا جا رہا ہے اور اس بات کا بر ملا اظہار میٹنگ کے ختم ہو تے ہی چند اماموں نے میڈیا کے چینل سے کیا۔کہا گیا کہ ہم لوگ اس امید پر تھے کہ اماموں کا وظیفہ ڈھائی ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار کیا جا ئے گا اور موذنوں کا وظیفہ ایک ہزار سے ڈھائی ہزار کیا جا ئے گا لیکن حکومت نے صرف پانچ سو کا اضافی اعلان کر کے ہم لوگوں کے امید وں کا خون کیااور ہمارے وقار کو پا مال کیا ۔
قارئین حضرات! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عزت اور ذلت دینے والی صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے ، کسی انسان کی نہیں ۔ ہاں اگر کوئی اپنا وقار خود ہی پا ما ل کر ے تو اس میں کسی کا کیا قصور ؟ ہمارے اماموں کا مقام اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ بڑے بڑے وقت کے بادشاہ بھی ان کے پیچھے ہاتھ باندھے صف میں کھڑے ہو جا تے ہیں ۔ مگر انہیں شاید اپنے مقام اور مر تبے کی اہمیت کا اندازہ نہیں تبھی تو یہ چند پیسوں کے لئے کبھی امیروں کے در پر حاضری دیتے ہیں اور کبھی حکومت کی پکار پر حکومت کے تلوئے چاٹتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی اردو کو سرکاری زبان دی جا ئیگی مگر کئی سال بیت گئے نہ تو اردو کو سرکاری زبان ملی اور نہ ہی اردو کے لئے ہمارے علماء کرام اتنی تعداد میں حکومت کے ایوانوں میں پہنچے مگر چند ہزار روپئے کے لئے اسٹیڈیم پہنچ گئے جہاں اماموں اور موذنوں کی اتنی جم غفیر ہو ئی کہ اسٹیڈیم کے بھر جا نے کے باجود بھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں اسٹیڈیم کے باہر کھڑے تھے ۔ جن کے پیچھے بادشاہ وقت اور شہنشاہ وقت ہاتھ باندھے کھڑے ہو تے ہیں وہ چند دن پہلے نیتا جی اسٹیڈیم میں حکومت کے سامنے چند سو روپئے کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے ۔ حضرات! ایک اور راز کی بات بتائوں آپ حضرات کو ، ان ائمہ حضرات نے اگر پچاس فیصد علماء اکرام ضرورت مند تھے تو پچاس فیصد علماء اکرام ایک ماہ میں لاکھوں کی آمدنی کر نے والے بھی تھے وہ بھی وہاں ہاتھ پھیلائے ہو ئے کھڑے تھے ۔ جی ہاں ! یہ بات بالکل سولہ آنہ سچ ہے ، آپ اپنے ارد گر د نظر دوڑائیں تو آُ بھی جان جائینگے کہ اگر علاقے میں جلسہ ہوا تو پانچ ہزار اور کہیں دوسرے شہر میں جلسہ ہوا تو آب و طعام ، آمد و رفت کا کرائے کے ساتھ ساتھ ایک آدھ گھنٹہ کی تقریر کا نذرانہ دس سے پچیس ہزار تک لیتے ہیں یہ علماء کرام ۔
قارئین محترم ! میں جب بھی کوئی آرٹیکل مولویوں کی مخالفت میں لکھتا ہوں اور جب میرا وہ آرٹیکل کسی اخبار میں شائع ہو تا ہے تو بہت سے قارئین مجھے فون کر کے کہتے ہیں کہ عراقی صاحب علماء انبیاء کے وارث اور نائب رسول ہو تے ہیں اور آپ ہیں کہ ان کی شان میں گستاخانہ تحریر لکھتے ہیں تو آج میں اس مضمون کے ذریعہ اپنے ان قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرے عزیز قارئین حضرات ! اگر آپ کی نظروں کے سامنے کوئی آپ کے والدین کو بے وجہہ بد نام کر ے تو آپ کیا کرینگے ؟ اگر آپ کے سامنے کوئی قرآن پاک پھاڑ دے یا جلا دے اور آپ ہی کے سامنے کوئی نبی پاک ﷺ کی کارٹون بنا کر تضحیک اڑائے یا پھر ان کی شان میں گستاخی کرے (نعوذ باللہ) تو پھر آپ کیا کرینگے ۔ یقینا آپ مرنے اور مارنے کے لئے تیار ہو جائینگے ، آخر ایسا آپ کیوں کرینگے ؟ وہ اس لئے کہ آپ کو آپ کے والدین عزیز ہیں ، آپ کو قرآن پاک سے پیار ہے ، آپ کو نبی پاک ﷺ سے محبت ہے تو پھر جس دین اسلام کو اللہ نے پسند فرمایا ، جس دین کے لئے حضور اکرم ﷺ نے طرح طرح کے مصائب و آلام سہے آج اس دین اسلام کو اگر کوئی بدنام کر رہا ہے تو یہ مولوی حضرات ہیں تو پھر کیوں نہ میں ان پر انگشت نمائی کروں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اپنے دین کے لئے جہاد بھی کر نا پڑے تو دین کے دشمنوں سے لڑ جا ئو ، یہی وجہہ ہے کہ مسلک کے نام پر دین کو بدنام کر نے والوں کے خلاف میں قلمی جہاد کر تا ہو ۔
آج ان ہی فرقہ پرست ، مفاد پر ست اور مسلکی مولویوں کی وجہہ سے ہم مسلمان اپنے اختلافات و تنازعات کی زنجیر جکڑے ہو ئے ہیں ، ہمارے سینے اتنے تنگ ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جماعت دوسری جماعت کو بر داشت کر نے کے لئے تیار نہیں ، جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان متحد و متفق رہے ملکوں پر حکمرانی کر تے رہے لیکن جب مسلمانوں نے قرآن مجید کو پسِ پشت ڈال دیا اور فرقوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے ، ایک دوسرے پر کفر کے فتوئے لگانے شروع کئے تو اندلس جہاں پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک انتہائی شان و شوکت سے حکمرانی کی تھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور آج بھی اندلس کی نہریں ، باغات ، محلات ، کوٹھیاں ، مساجد و مدارس اپنے معماروں کو یاد کر تی ہے ۔ اسی طرح بغداد بھی مسلمانوں کا ایک بڑا علمی مرکز رہا ہے ، وہاں بڑے بڑے فقہااور محدثین پیدا ہو ئے ، وہاں بھی مسلمانوں کی بڑی مضبوط حکومت قائم کی ، لیکن جب اقتدار کی ہوس و حرص نے مسلمانوں کو باہم جنگ و جدال میں مبتلا کر دیا اور دوسری طرف بغداد کے چو راہوں پر فروعی مسائل پر نام نہاد مذہبی دعودار وں کی مار دھاڑ ہو نے لگی ، جس وقت بغداد کے گلی کوچے مناظروں کی آوازوں سے گونج رہے تھے اور مختلف فرقوںسے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سعی کر رہے تھے اس وقت ہلاکو خان اور چنگیز خان کا خونی لشکر بغداد کو تاراج کر نے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا ۔ اس وقت حق پر ست علماء ربانی چیخ چیخ کر لوگوں کو متوجہ کر رہے تھے کہ خدارا یہ بحث و مباحثہ بند کرو اور اپنے دفاع کی فکر کرو لیکن ان ظالم ، مفاد پرست، موقع پر ست اور مسلکی علماء نے ایک نہ سنی اور اپنا دھندا جاری رکھا ۔ بآلا خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، ہلاکو خان کی فوج نے حملہ کیا اور ایک کڑور چھ لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ، شاہی کتب خانے کی تمام کتابیں دجلہ میں پھینک دیں ، کتابیں اس قدر تھیں کہ دجلہ میں ایک بند ھ سا بن گیا اور دجلہ کا پانی کئی دن تک اتنا سیاہ رہا کہ دواتوں میں سیاہی ڈالنے کی ضرورت نہ رہی ۔
قارئین محترم! آج جس طرح مسلک کے نام پر ہماری ٹوپی الگ ہے، ہمارے مساجد الگ ہیں اور ہمارا عقیدہ الگ ہے کاس کہ ،پیسوں کے لئے بھی لالچ الگ الگ ہو تی مگر نہیں ،پیسوں کے لئے اسٹیڈیم کے اندر اور باہر دیو بندی ، بریلوی ، اہلِ حدیث ، شعیہ اور سنی سبھی مسلک کے امام کو ایک ساتھ دیکھا گیا ۔ جس طرح تمام مسلکی اماموں کی نتیا جی اسٹیڈیم کے اندر اور باہر ایکتا دیکھی گئی کاش و ایکتا تمام مسلکی اماموں کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہو جا ئے اور ایک پلیٹ فارم سے تمام مسلکی علماء امت کو للکارے تو آج دنیا ادھر کی اُدھر ہو جا ئے اور دشمنانان اسلام راہ ِ فرار اختیار کر نے پر مجبور ہو جا ئے ۔ لیکن نہیں ، ایسا کچھ بھی نہیں ہو نے والا ، امت اگر ایک بھی ہو جا ئے تو علماء کبھی ایک نہیں ہو نگے ۔
بہر حال مذہبی منافرت کو ختم کر نے اور اتفاق اور اتحاد کی فضا قائم کر نے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان سلکی علما ء سے دور رہیں اور حق پر ست علماء کی صحبت اختیار کریں ، اپنی علمی اور عملی صلاحیت اور زبان و قلم کے زور کو اختلافی و فروعی مسائل میں صرف کر نے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں مسلمانوں کو متحد اور منظم کر نے میں صرف کریں ، ہر مسلمان کو چاہیئے کہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر خلوص دل کے ساتھ گناہوں سے توبہ و استغفار کرے ، اپنی بد اعمالیوں پر نادم ہو ، اپنی زندگی اور زندگی کے تمام تقاضوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے اور ان مسلکی مولویوں کے چکر میں نہ پڑے بلکہ اسلام کی سچی تصویر مسلمانوں کے سامنے رکھے ، اگر مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرینگے تو آج جو حالات ہم مسلمانوں کے دگر گوں ہیں کل کو انشا ء حالات اچھے ہو جائینگے اور اگر خدا نخواستہ موجودہ حالات و مشکلات کے حقیقی اسباب کو نظر آنداز کیا جا تا رہا اور ان مولویوں کے ورغلانے اور بہکاوے میں آکر دین سے دوری اختیار کی اور مسلکی جنجال الجھے رہے اور غفلت کا رویہ اخیتا ر کیا تو تنہا ظاہری اسباب کا اختیار کر نا کچھ کام نہ دیگا اور حالات تیزی سے بگڑتے رہینگے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا