محمد حسین ساحل
ممبٸی
”خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے“ مبارک صدیقی
یاسین ڈاورے ”فنا“ وہ بات کہہ جاتے ہیں جو عام آدمی کی سوچ و فکر سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ تخلص ”فنا“ ہے بات بقا کی کرتے ہیں۔ محمد صلى الله عليه واله وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی سعی ان کے نیک ہونے کی واضع علامت ہے۔ ماں کا ادب اور بیٹی سے محبت کرنا یہ اُن کا مشغلہ ہے۔اپنی سوچ و فکر میں اپنی شاعری میں ماں اور بیٹی کے گرد ہی ان کے اشعار طواف کرتے ہیں۔
یاسین ڈاورے ”فنا“ کا تعلق ضلع راٸےگڑھ، تعلقہ مانگاٶں سے متصل دہیولی گاٶں سے ہے۔تلاش معاش میں انھوں نے کویت کا رُخ کیا ، تلاش گھر بار میں وہ راٸے گڑھ کا رُخ کرتے ہیں اور تلاش رب میں وہ قبلہ کا رُخ کرتے ہیں اس طرح اُن کی شخصیت متلاشی بھی ہے۔
اُن سےچند منٹوں کی گفتگو نے میرے دل پر وہ نقوش بنا دیے کہ میرے اندر ان کے لٸے ادب کا جذبہ پیدا ہوا۔کمال ہے ! تعجب ہے ! کہ جب ان کے گھر پہلی اولاد کی آمد ہونے والی تھی تو انھوں نے اللہ سے اپنے چشم تر کرکے ایک نیک بیٹی کی دعا ٩ ماہ تک کرتے رہے ۔( عموماً لوگ رو رو کر بیٹے کے لیے دعا کرتے ہیں ) اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی پہلی بیٹی کا نام بی بی فاطمہ بھی رکھنا چاہتے تھے کیونکہ محمد صلى الله عليه واله وسلم اپنی بیٹی کو دل وجان سے چاہتے تھے۔مجھے ایسا لگتا ہے یاسین ڈاورے ”فنا“ اپنی کا بیٹی کا نام بی بی فاطمہ رکھ کر اور اپنی بیٹی سے محبت کرکے نہ صرف اپنے باپ ہونے کا حق ادا کرنے کا سوچ رہے تھے بلکہ محمد صلى الله عليه واله وسلم کی سنت پر چلنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔یہ وہ سنت جس پر لوگ عمل تو کرتے ہیں مگر بیٹی پیدا ہونے کے بعد !مگر یاسین ڈاورے ”فنا“ نے اس سنت پر چلنے کے لیے بیٹی کے پیداٸش سے قبل ہی نیت کرلی تھی جس کی مثال ماضی میں شاذ و نادر ہی ملتی ہو۔
اب یاسین ڈاورے ”فنا“ کے یہاں چاند جیسی بیٹی تو پیدا ہوٸی مگر بیٹی کا نام دینے کا حق گھر کے افراد کو بھی ہوتا ہے اور گھر کے معزز افراد نے پہلی بیٹی کا نام عنایہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور یاسین ڈاورے ”فنا“ نے اس نام کا دل و جان سے استقبال کیا۔ مگر اپنی دوسری بیٹی کا نام بی بی فاطمہ ہی رکھا۔
یاسین ڈاورے ”فنا“ کی اپنی بیٹیوں کے تٸیں جو محبت کا جذبہ ہے وہ اُن کے اپنے چار مصروع میں اُبھر کر سامنے آتا ہے۔یہ وہ چار مصرعے ہیں جو عظیم نازاں قوال اور دیگر قوالوں نے اپنے قوالی کے اسٹیج سے لوگوں تک پہنچاٸے ہیں اور بیٹی کی خوشی ، اہمیت اور محبت لوگوں کے دلوں میں بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔
بیٹی خوش رنگ نظاروں کی طرح ہوتی ہے
اندھیرے میں چراغوں کی طرح ہوتی ہے
باپ کے واسطے ہوتی ہے گلستاں جیسی
وہ خزاں میں بھی بہاروں کی طرح ہوتی ہے
( شاعر : یاسین ڈاورے ”فنا“)
آج ان دونوں بیٹیوں کی وجہ سے گھر میں رونق ہے چہل پہل ہے اور واقعی پہلے یہ مکان تھا اب یہ گھر بن گیا۔ اللہ یاسین ڈاورے ”فنا“ کی اولاد کی دُنیا اور آخرت کو سنوار دے اور دین پر چلنے والا بناٸے۔
منور رانا کی طرح یاسین ڈاورے ”فنا“ کے اشعار میں بھی” ماں “ بھی نظر آتی ہے ، گھر والے اور رشتہ دار بھی نظر آتے ہیں۔ ورنہ دوسرے شعرا کی نظر گاٶں کی پگڈنڈی سے گزرنے والی چنچل حسینہ پر ہوتی ہے ، کبھی ان کے اشعار میں بیوفا حسینہ کے لب و رخسار کی بات ہوتی ہے یا پھر کسی طواٸف کے رقص و سرور کی باتیں ہوتی ہے۔
یاسین ڈاورے ”فنا“ نے ماں کے لیے اپنے قلم کو جنبش دی ہے جیسے :
ماں کی خدمت سے فنا تجھ کو ملے گی جنت
اس کی خدمت میں سدا خود کو لگایا کرنا
اے طوفاں میرا تو بگارے گا کیا اب
میرے ساتھ ہر پل جو ماں کی دعا ہے
ہے میری ماں کی دعا سے ہی زندگی میری
فنا کو باپ نے جینا سکھا دیا ہے بہت
( شاعر : یاسین ڈاورے ”فنا“)
یاسین ڈاورے ”فنا“ کی اپنے بیٹیوں سے محبت کا یہ عالم ہے کے شعر پر شعر تحریر کرتے جارہے ہیں اور اپنی سوچ و فکر کو اشعار میں محفوظ کرنے کا فن انھوں نے سیکھ لیا ہے :
بیٹیوں کی بدولت فنا
گھر ہے جنت نما ہو گیا
بیٹیاں جب سے ہے آئی فنا گھر میں
گھر میں میرے بھی آئی کتنی رحمت ہے
غریب ہو کے بھی کرتا ہو شکر ہر پل میں
مرے خدا نے بیٹی ہے کی عطا مجھ کو
جب یاسین ڈاورے ”فنا“ کے مندرجہ چار مصروع پر میری نظر گٸی تو میں نے پوچھا کہ کون سے عزیز و اقارب تھے جو تمھیں ہر پل دعا سے سے نوازتے تھے؟ میرے اس سوال پر یاسین ڈاورے ”فنا“
کی آواز کپکپاٸی پلکوں پر آنسوں جگمگانے لگے کہ میرے نانی، ماموں ، خالہ اور دادی ہیں جو مجھے داغ مفارقت دے گٸے۔انھیں میں آج بھی اپنی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔
ان کی قبروں کو کرنا تو روشن
اپنے رحموں کرم سے تو یارب
میرے اپنے ہے جو اس جہاں سے
مجھ کو ہر پل دعا دے گئے ہیں
یاسین ڈاورے ”فنا“ کو میرے دو مشورے ہیں :
١۔ ایک کلام صرف اپنے والد محترم کے تعلق سے تحریر کریں اور آنے والی نسل کو باپ کی حیثیت سے آگاہ کریں۔دیگر شعرا نے ماں پر بھرپور لکھا مگر باپ پر ایک شعر بھی نہیں ! مولانا ، خطیب اور واعظ ماں کی اہمیت بچوں کے سامنے اُجاگر تو کرتے ہیں مگر وہ یہ بتانا بھول جاتے کہ باپ جنت کا دروازہ ہے۔
٢۔ ایک اپنی سوانح حیات تحریر کریں جس میں اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب کے ساتھ اپنے اساتذہ کا بھی ذکر ہو۔
آخر میں یاسین ڈاورے ”فنا“ کی خدمت میں مبارک صدیقی کے دو اشعار پیش کرتا ہوں :
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے