محمد اعظم شاہد
ریاست کرناٹک کے شہر گلستان بنگلور سے تعلق رکھنے والے اُردو کے ممتاز شاعر، ادیب و مترجم جناب خلیل مامون نے اپنے ادبی خدمات کے حوالے سے برصغیر میں اپنی منفرد شناخت قائم کر لی تھی۔ سابق آئی پی ایس آفیسر خلیل مامون (خلیل الرحمن) خاکی وردی میں اپنے اندر شاعر کا دھڑکتا ہوا دل رکھتے تھے۔ آپ کی غزلیں اور نظمیں ہندو پاک کے ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ نظم آپ کا محبوب وسیلہ اظہار رہا۔ نظم گوئی میں عام روش سے جدا گانہ لب ولہجہ کے لیے اپنی خاص پہچان بنانے والے خلیل مامون پوری اُردو دُنیا میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ مدیرـ’’ سوغات‘‘ محمود ایاز کے بعد بنگلور کو ادبی اُفق پر اپنے شعری خدمات کے توسط سے عالمی شہرت عطا کرنے میں خلیل مامون کو یاد رکھا جائے گا۔ عصری ادب کی تاریخ میں خلیل مامون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بھی کہ وہ عصری ادبی منظر نامے میں متحرک اور بے باک شاعر کے طور پر امتیازی وصف کے وہ حامل رہے۔ سال 2008 میں انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے آپ کی دو نثری تصنیفات ’تاثرات‘ اور’ لسان فلسفے کے آئینے میں ‘اور دو شعری مجموعے ’نشاط غم‘، اور’ آفاق کی طرف‘، منظر عام پر آچکے تھے۔ پھر آپ مستقل طور پر لکھتے رہے، گو کہ آپ کی نظمیں طوالت سے بھری رہیں، جو کہ پڑھنے پر فوری طور پر تاثر قائم نہیں کرتی تھیں، بلکہ انہماک اور سنجیدہ مطالعہ ان کے کلام کے پنہاں رموز و نکات کو آشکار کیا کرتا تھا۔ خیالات کا ایک بہتا دریا آپ کی نظموں میں تسلسل لیے ہوتا تھا۔ آپ کی غزلیں بتدریج روایتی لہجے کے ساتھ ساتھ عصری معنی آفرینی سے بھی معمور ہوا کرتی تھیں۔ ’جسم و جان سے دور‘،’ بن باس کا جھوٹ‘، ’سرسوتی کے کنارے‘،’ سانسوں کے پار‘، ’لا اِلہ‘ اور ’اندھیرے اُجالے میں‘، یہ شعری مجموعے خلیل مامون کو شعر و ادب میں تابندہ رکھیں گے۔ شہر زار رکھی کے انگریزی نعتیہ کلام کو آپ نے قالب اُردو میں اُنیس للہی نظمیں، کے طور پر پیش کیا۔ انگریزی اور عالمی ادب پر آپ کی گہری نظر تھی۔ فارسی میں مولانا رومی اور بیدل سے بے حد متاثر تھے۔ غالب اور علامہ اقبال آپ کے پسندیدہ شعرا میں سے رہے ہیں۔
پولیس کی اعلیٰ منصبی ملازمت سے وظیفہ یابی کے بعد آپ کو کرنا ٹک اُردوا کا دمی کا صدر نامزد کیا گیا۔ اپنی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی پہلی بار اُردو اکادمی کو تحلیل کر دیا گیا۔ وہ اس لیے کہ خلیل مامون جہاں اپنی انتظامی صلاحیتوں اور ادبی وقار کے ساتھ کسی بھی طرح کا سمجھوتہ اور سیاسی گلیاروں میں خوشامد کے خواہاں نہیں تھے۔ ان کا موقف ان کے گہرے مشاہدے اور بصیرت سے معمور ہوا کرتا تھا۔ مگر تقریبا ڈیڑھ سال کے مختصر دورانیہ میں آپ نے کرنا ٹک اُردو اکادمی کو ملک کی ممتاز اور فعال اکادمی میں تبدیل کر دیا تھا۔ قومی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر آپ نے اکادمی کے سہ ماہی مجلہ ’اذکار‘ کو محبوب جریدہ بنا دیا تھا۔ 76 سالہ خلیل مامون 21 ْ؍ جون 2024 اپنی ادبی روایات اور وراثت کی لائق تحسین اور باعث تقلید خدمات اور بے شمار یادوں کا کارواں چھوڑ کر ہم سب سے رُخصت ہو گئے۔ وجیہہ اور خوش باش، خوش فکر مامون صاحب کا جسد خاکی دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا ،جیسے وہ گہری نیند میں ہیں۔ چہرہ پرُ نور تھا۔ بنگلور کے قدیم یتیم خانہ اہل اسلام کے احاطہ میں واقع خوبصورت مسجد نور میں بعد نماز عشاء آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور قبرستان قدوس صاحب میں آپ سپر دلحد ہوئے۔
خلیل مامون صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات و انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ریاست کرناٹک کا باوقار امتیازی اعزاز’ راجیہ اتسوا ایوارڈ‘ کے علاوہ مرکزی ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ برائے شعری مجموعہ’ آفاق کی طرف‘ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے ’غالب ایوارڈ ‘برائے شعری خدمات حال ہی میں آپ کو تفویض کیا گیا تھا۔ سہ ماہی ادبی جریدہ ’نیا ادب‘ کو انھوں نے اپنی ادارت میں ادبی دُنیا میں توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ اور اسی جریدہ کے تحت تقریباً تین سال تک ہر ماہ بلا ناغہ آپ ادبی اجلاس کا اہتمام کیا کرتے رہے، جس میں اُردو کے علاوہ کنڑا، ہندی اور انگریزی کے شعرا اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے۔ آپ ہمہ لسانی ہم آہنگی کے مشتاق رہے۔ آپ نے ہندوستانی زبانوں کے ادب اور عصری منظرنامے پر سلسلہ وار ماہانہ پروگرام منعقد کرواتے رہے۔ اُردو حلقوں میں دوغلے معیار، اور گروہ بندی، سرد مہری اور بے نیازی پر نالاں تھے، مگر اپنی ایک ٹیم، جس میں میری بھی شمولیت تھی، کے ذریعہ زبان وادب کے تئیںواقع جمود کو تحلیل کرنے ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ رواں رکھتے تھے۔ اپنے کھرے کھرے موقف اور ذہنی تحفظات کے باعث آپ کا حلقہ احباب انتہائی محدود تھا۔ تجارتی نوعیت کے مشاعروں کے بازار سے آپ خفا رہتے تھے ، مگر مشق سخن ہی ان کی مصروفیات کا اہم جز رہی۔
اپنے گھر کے آنگن میں پودوں کی باغبانی اور خوشنما رنگین، مچھلیوں کی افزائش آپ کا محبوب مشغلہ رہا۔ آپ کے شب و روز آپ کی ذات تک گھر کے چار دیواری تک سمٹ کر رہ گئے تھے، حالات کی ستم ظریفی، سیاست کی عیاری، اقدار حیات کی پامالی، لا حاصل کا اظہار اور سب کے درمیان رہتے ہوئے تنہائی کا کرب ان کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔
آپ مجھے بیحد عزیز رکھتے تھے۔ آپ کی ادبی سرگرمیوں میں آپ کے ساتھ مجھے کام کرنے کے کئی مواقع میسر آئے۔ آپ کے دور ِصدارت میں اُردو اکادمی کی تحلیل ہونے کے بعد بغیر سرکاری اعانت کے آپ نے اُردو منچ کے زیر اہتمام ’عالمی اُردو کا نفرنس‘ کا بنگلور میں کامیاب انعقاد کیا تھا۔ آپ کا یہ کارنامہ یاد رکھا جائے گا۔ اپنی دُھن کے دھنی خلیل مامون سے میں بیحد متاثر رہا ہوں۔ گھنٹوں آپ سے گفتگو کے دوران آپ کی فکر و نظر سے استفادہ ہوتا رہا۔ 35 سال سے زائد عرصہ آپ سے وابستگی رہی۔ آپ سے جڑی بہت سی باتیں اور یادیں ہیں۔
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر لہر ٹہرجائے گی
azamshahid1786@gmailcom cell:9986831777