شازیہ چوہدری
ویسے تو ہند و پاک بٹوارے کے خونی کھیل سے لے کر آج تک کئی محاذوں پر جنگ لڑتے آ رہے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی مدعے کو لے کر آمنے سامنے ہیں لیکن آج کل جو خطرناک جنگ دونوں ملکوں میں چھڑی ہوء ہے وہ جنگ ہے ٹماٹر اور پیاز کی۔۔۔اور یہ جنگ سب سے زیادہ میڈیا میں زور پکڑے ہوئے ہے۔ان دونوں ملکوں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ان ملکوں کا میڈیا جنگ کے لیے ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس رہتا ہے آج کل ٹماٹر کی اور پیاز کی قیمتیں کیا بڑھ گء ہیں دونوں ملکوں کے میڈیا ایک دوسرے ملک کو نیچا دکھانے کی کوء کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔سب سے بڑی خبر ہر نیوز چینل پہ ہوتی ہے پاکستان میں ٹماٹر کے بم !پاکستان میں ٹماٹر کی قیمت 400 روپے کلو سے اوپر دوسری طرف پاکستانی میڈیا ہندوستان پر پیاز کے بم گراتی ہے !ان کی سب سے بڑی خبر ہوتی ہے ہندوستان میں پیاز کی قیمت 100روپے کلو سے اوپر۔۔۔!کیا ان دونوں ملکوں کے پاس ایک دوسرے کی کمزوریوں کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا ہے اگر تجزیہ دکھانا ہی ہے تو پاکستانی میڈیا کو اپنے ملکی بحران پہ دکھانا چاہیے جہاں بے روزگاری ہے جہاں بھوک مری ہے جہاں قرضداری ہے جہاں کی معیشت بری طرح سے متاثر ہے لیکن ان کا ملک ان سب بحرانوں سے نکلنے کے لیے کیا کر رہاہے۔کچھ نہیں صرف عوام کو گمراہ کر رہا ہے عوام کو نیوکلئیر طاقت ہونے کا لالی پاپ دے کر۔۔کیا عوام بھوک نیوکلیئر بم سے مٹائے گی ؟۔۔بیروزگاری بم بنانے سے ختم ہوگی؟،معیشت جنگ کی تیاریاں کرنے سے بہتر ہوگی… یہ سوال میڈیا کو اپنے پیارے وطن کے ٹھیکیداروں سے کرنے چاہیے جو ملک اپنے شہریوں کو 400روپے کلو ٹماٹر کھلا رہا ہے کیا اسکو نیوکلیئر پاور کہلانے کا حق ہے؟؟یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ہندوستانی میڈیا کو بھی ٹماٹر پیاز کی سیاست سے نکل کر ملک کی،معاشی حالت پر بحث و مباحثے اور سوالات و جوابات کا پٹارا کھولنا چاہیے۔ اپنے پیارے نیتاؤں سے جنہوں نے سرکار کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیتے وقت ملک کی سالمیت اور ترقی کا عوام سے عہد کیا تھا ۔آج ہمارے ملک کی GDPریٹ 7 سے گھٹ کے صرف 4.5 پہنچ گئی ہے کیا یہ ہے ہماری معاشی ترقی یہ ہیں اچھے دن جن کا عوام سے وعدہ کیا گیا تھا۔ہندوستانی معیشت بری طرح سے متاثر ہے لیکن ملک کے خیر خواہوں کو مذہبی ٹھیکیداری سے فرصت نہیں بے روزگاری ہے تو ہوتی رہے۔بھوکمری ہے تو ہوتی رہے۔غریبی ہے تو ہوتی رہے ماحولیاتی آلودگی ہے تو ہوتی رہے۔۔دیش کے ٹھیکیدار کون سے اس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہ تو ہر روز کسی دوسرے ملک کے دورے پہ ہوتے ہیں۔پتہ نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا۔۔کیا وہ اسی طرح دونوں ملکوں کے ٹماٹر پیاز یدھ کی بھینٹ چڑھیں گی کیا وہ اسی طرح اچھے دنوں کی آس میں مندر مسجد اور گردوارے کی سیاست میں پھنسی رہے گی۔۔ یا پھر دونوں ملکوں کے میڈیا کی طرح جنگی ہتھیار اور کپڑے پہن کر ہر وقت ٹماٹری اور پیازی بم کے قہر میں پھنسی رہیں گی یا پھر سچ مچ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے درد کو جھیلیں گی۔۔۔۔۔۔؟۔