ہندوستان کے ’’راسپوتین‘‘:دھریندر برہما چاری سے گرمیت تک

0
0

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
حیدرآباد؛9395381226

 

خودساختہ روحانی پیشوا گرمیت کے عبرتناک انجام پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور خود کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے تو اس کے مرنے سے پہلے وہ دنیا کو دکھادیتا ہے کہ سب کا خدا بس ایک ہے جو لافانی ہے۔ خودساختہ روحانی پیشوا گرمیت کے عبرتناک انجام پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے۔

Image result for BABA RAM RAHIM

قدرت کا قانون ہے کہ انسان جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور خود کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے تو اس کے مرنے سے پہلے وہ دنیا کو دکھادیتا ہے کہ سب کا خدا بس ایک ہے جو لافانی ہے۔ ہر دور میں گرمیت جیسے شیطان خود کو مذہبی پیشوائوں کے روپ میں پیش کرتے رہے ہیں۔ گرمیت کی گرفتار کے بعد سے سیاستدان اور میڈیا اس کے خلاف زبان کھولنے لگا ہے۔ یقینا بعض ہمت والے صحافیوں نے ایسے ڈھونگیوں کا پردہ فاش کرنے کیلئے اپنی جان کی قربانی بھی دی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تقریباً ہر ایک ٹی وی چیانل پر کوئی نہ کوئی بابا اسپانسرڈ پروگرام پیش کرتا ہے۔ چاہے وہ رام دیو ہو یا نرمل بابا یا کوئی اور۔ ہندوستان میں ہراس شخص کو بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے جس میں غیر معمولی صلاحیتیں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں لگ بھگ 33ملین دیوتائوں کی پوجا ہوتی ہے۔ دیوتائوں کا رول ادا کرنے والے اداکار بھی بھگوان سمجھے جاتے ہیں حتیٰ کہ سچن ٹنڈولکر، دھونی، امیتابھ بچن کو تک بھگوان کا درجہ دیا گیا۔ جیہ للیتا، رجنی کانت، ایم جی رامچندرن، شیواجی گنیشن کو بھی بھگوان یا دیوی کا درجہ دیا گیا ان کی باقاعدہ پوجا کی جاتی ہے۔ مندروں میں ان کی مورتیاں رکھی جاتی ہیں۔ ہندوستانیوں کی اس نفسیات کا ہر دور میں ڈھونگی بابائوں نے خوب فائدہ اٹھایا بلکہ ابھی تک اٹھارہے ہیں۔ یہ اچانک جنگلی پودے کی طرح پروان چڑھتے ہیں اور پھر سایہ دار درخت بن جاتے ہیں جن کی چھائوں میں پناہ لینے کے لئے مرد بھی آتے ہیں‘ ان کی بیویاں بھی، بہنیں اور بیٹیاں بھی۔ اور ان میں سے بیشتر اِن ڈھونگی بابائوں کے منظور نظر بن کر ان کے ہوس کا شکار بن جاتی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے اِن بابائوں کی جنگل کے کسی کونے میں چھوٹی سی کٹیا آشرم بن جاتی ہے اور یہ آشرم ایک امپائر یا مملکت میں بدل جاتی ہے جہاں  ان کی اپنی حکومت‘ ان کی اپنی سیکوریٹی‘ اور ان کا اپنا دربار‘ جہاں ماتھا ٹیکنے صدر جمہوریہ بھی آتے ہیں‘ وزیر اعظم بھی۔ چیف منسٹرس، بزنس مین جو اِن ڈھونگیوں کی مارکیٹنگ کا ذریعہ بنتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے جب یہ ڈھونگی ریاستی یا قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے لگتے ہیں۔ ہندوستان کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یوگی دھریندر برہما چاری کی یاد آتی ہے جنہیں ہندوستان کا ’’راسپوتین‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں راسپوتین کون تھا۔ روس کے آخری شاہی حکمران ژار نیکولس دوم کے دربار کا سب سے بااثر، بااختیار شخص جو ایک کاشتکار کا بیٹا تھا‘ راہب بننا چاہتا تھا مگر کسی طرح سے ژار کے دربار میں رسائی حاصل کرلی۔ اس میں بعض غیر معمولی صلاحیتیں بھی تھیں‘ وہ مختلف بیماریوں کا علاج کرتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت اور جنسی صلاحیت کی بناء پر نیکولس دوم کی ملکہ الیگزینڈر ریفیوزرنا کا مصاحب خاص بن گیا اور ایک طرح سے روس کی حکومت کا ریموٹ کنٹرول اس کے پاس آگیا۔ اُسے کئی بار قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آخرکار دسمبر 1916ء میں اُسے قتل کردیا گیا۔ دھریندر برہما چاری کو ہندوستان کا ’’راسپوتین‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اندرا گاندھی کے نورنظر تھے اور ان سے متعلق کئی کہانیاں عام تھیں۔ وہ اندرا گاندھی کے یوگا گرو تھے۔ مسٹر بھائو دین کانگ نے اپنی کتاب ’’Gurus‘‘ میں لکھا ہے کہ مسز ندرا گاندھی نے اپنی امریکن فوٹوگرافر دوست ڈروتھی نارمن کو لکھے گئے مکتوب میں دھریندر برہماچاری کے خدو خال اس کی پرکشش شخصیت کی تعریف کی تھی۔ خوشونت سنگھ نے دھریندر برہما چاری اور اندرا گاندھی کے روابط پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ برہما چاری ایک اونچاپورا بہاری یوگی ہیں‘ جو اندرا گاندھی کے ساتھ بند کمروں میں ایک گھنٹہ گذارتا ہے۔ اسکے یوگا کے کورس ۔۔۔۔کے سبق کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔ دھریندر برہما چاری سے اندرا گاندھی کی ہمدرتی بعض معاملات میں ضرورت سے زیادہ عنایتوں پر پنڈت نہرو بھی ناخوش تھے۔ انہیں پرائم منسٹر ہائوز اور اپنی قیام گاہ میں اس توگی کی آمد و رفت قطعی پسند نہیں تھی۔ پنڈت نہرو کی موت کے بعد یوگی کا عمل دخل بہت بڑھ گیا تھا۔ پاپل جئے کار کے مطابق ایمرجنسی کے دوران اس نے بہت زیادہ دولت بٹوری۔ اندرا گاندھی سے اپنے روابط، تعلقات کا خوب فائدہ اٹھایا۔ دھریندر برہما چاری سے لے کر بابا رام دیو تک، چندرا سوامی سے سوامی نتیانند تک، ستیہ سائی بابا سے گرمیت تک یوگیوں اور خود ساختہ روحانی پیشوائوں کے ہندوستانی سیاست پرگہرے اثرات و رسوخ رہے ہیں۔ چندرا سوامی، پی وی نرسمہا رائو سے قریب تھے۔ بارہ سال کی عمر میں تعلیم ترک کردینے والا یہ سوامی بن گیا۔ یہ انٹرنیشنل دلال کے نام سے مشہور رہے۔ راجیو گاندھی کے قتل کے بعد شک کی سوئی اس کی طرف بھی گھومی تھی۔ عدنان خشوگی سے دوستی رہی۔ اور عدنان خشوگی نے ایک ہندوستان ماڈل پامیلا کی دلالی کے لئے مشہور رہا۔ چندرا سوامی پر مالی خرد برد کے الزامات رہے۔ کانگریس کی سرپرستی رہی۔ حال ہی میں چندراسوامی گمنام موت مرگیا۔ 1960ء سے لے کر 1990ء تک اچاریہ رجنیش کا بڑا چرچا رہا۔ وہ ’’اوشو‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ پونہ میں اب بھی اس کا آشرم ہے جہاں مرد ہو کہ عورت قدرتی لباس یعنی مکمل برہنہ رہنا ہوتا ہے۔ کئی بڑے بڑے اداکار یہاں رہ چکے ہیں۔ اسے کئی سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہاں کی تمام کہانیاں منظر عام پر آنے کے باوجود کسی نے بھی اس کے خلاف کاروائی نہیں کی۔ 1990ء میں یہ ننگا خودساختہ بھگوان بھی مرگیا مگر اس کا آشرم اب بھی ہے۔ رام دیو یوگا گرو کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ 2007ء میں ان کے گرو شنکردیو اچانک لاپتہ ہوگئے۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا جس کے بعد سے رام دیو‘ شنکر دیو کے قائم کردہ ٹرسٹ کے مالک ہیں۔ نریندر مودی کی قربت‘ ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ ٹیلیویژن چیانلس کے ذریعہ یوگا سکھاتے ہیں۔ کنزیومر مارکٹ میں چھائے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کروڑ کی آمدنی اور جائیداد کے مالک ہیں۔ ملک کے اکثریتی طبقے پر بڑا اچھا اثر ہے۔ نریندر مودی کی سرپرستی‘ گرمیت کو بھی حاصل رہی۔ گرمیت اور اشوتوش کے درمیان ایک دوسرے پر برتری کی لڑائی ہوتی رہی۔ اشوتوش مہاراج نے دیویا جیوتی جاگرتی سنستھان قائم کیا۔ اس سنستھان اور ڈیرا سچا سودا کے حامیوں میں ہمیشہ مقابلہ رہا۔ اشوتوش مہاراج کو جنوری میں 2017ء میں مردہ قرار دیا گیا تاہم اب بھی اس کی نعش کو ڈیپ فریزر میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ اور اس نعش کی حفاظت کے لئے Z+ سیکوریٹی ہے۔ اس نعش کو حاصل کرنے کے لئے دلیپ جھا نامی ایک عقیدت مند دعویدار ہے۔ گرمیت اور اشوتوش میں ہمیشہ مقابلہ رہا۔ گرمیت کے ڈیرا کو ہمیشہ سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ پہلے کانگریس، پھر لوک دل کی سرپرستی رہی۔ تاہم اکتوبر 2014ء میں ڈیرا والوں سے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کیا اور ٹیوٹر پر اپنے پیغام میں گرمیت کی ستائش کی جس پر کافی تنقید بھی کی گئی۔ ہریانہ میں بی جے پی اقتدار کے لئے گرمیت اور اس کے ڈیرے کا بڑا اہم رول رہا۔ بڑے بڑے سیاستدان یہاں حاضری دیتے رہے۔ اس کے دربار میں سادھویوں کی کثیر تعداد ہے۔ گرمیت کے مملکت میں لیڈیز کالج، لیڈیز ہاسٹل بھی ہے۔ جہاں کی لڑکیوں کا وہ استحصال کرتا رہا اور اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ سیاستدانوں اور غیر ملکیوں کو بھی یہاں سے لڑکیوں کو سپلائی کیا جاتا رہا ہوگا۔ آسام رام باپو جو نوجوانی میں شراب کا بیوپاری تھا جانے کیسے مذہبی پیشوا بن گیا۔ کیسے آشرم کے لئے جگہ ملی اور کس طرح سے اس کے ہزاروں عقیدت مند پیدا ہوگئے۔ یقینا سرکاری سرپرستی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ آسا رام باپو اور اس کا بیٹا دونوں جیل میں ہیں۔ ایسے کئی اور نام ہیں جیسے سنت رام پال جسے 29؍اگست 2017ء کو ہریانہ کی عدالت نے دو فوجداری مقدمات میں بَری کردیا۔ سوامی سدا چاری جس نے اپنی بازیگری سے دولت بھی کمائی، ہزاروں عقیدت مند بھی پیدا کئے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ آنکھ کے اشارے سے درختوں کی شاخوں کو روشن کرسکتا ہے۔ تاہم 1985ء میں سنال ایڈاماراکو نامی شخص نے کیمیکل کے استعمال کے ذریعہ خود یہ کارنامہ انجام دے کر سوامی کی قلعی کھول دی۔ اسے عصمت فروشی کا اڈہ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سوامی پرمانند جس کے 15ممالک میں آشرم تھے‘ یہ اپنے جسم سے مختلف شیولنگ نکالنے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے بھی سیاستدان، فلمی اداکار عقیدت مند تھے۔ 13لڑکیوں کی عصمت دری کے الزام میں اسے گرفتار کیا گیا۔ سوامی نتیانند فلمی حلقوں میں مشہور تھا۔ فلمی اداکارائوں کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں اس کی ویڈیو کلیپنگ وائرل ہونے کے بعد اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ نرمل بابا کا ٹیلیویژن چیانل پر جو دربار لگتا ہے احمقانہ قسم کے سوالات، احمقانہ جوابات‘ سیکوریٹی گارڈ کی فوج کے درمیان یہ اپنی دنیا میں مگن ہے۔ خودساختہ مذہبی پیشوا صرف اکثریتی طبقہ ہی میں نہیں ہے‘ اگر ہم ایمانداری کے ساتھ اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں اور اگر ہم میں ذرا سی بھی غیرت ہے تو اپنی نظر سے خود گرجائیںگے۔ ہمارے درمیان بہت سارے ڈھونگی بابا موجود ہیں۔ جن کی باقاعدہ مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ ہاسپٹلس میں مریضوں کے رشتہ داروں کی شکل میں ان کے مارکیٹنگ ایجنٹ موجود رہتے ہیں جو ہر قسم کی بیماری کے علاج کے لئے ان بابائوں سے فیضیاب ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اکثر آستانوں میں بھی ایسی خواتین ملتی ہیں جو مختلف مقامات سے فیضیاب ہونے کے مشورہ دیتی ہیں۔ ٹرینوں، بس ڈپوز میں بھی باقاعدہ مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ گھریلو مسائل، بیروزگاری، اولاد سے محرومی اور مختلف امراض کے علاج کے لئے خود ساختہ روحانی پیشوائوں، عاملین اور ڈھونگی بابائوں کے پاس علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے۔ اکثر جنات اور آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لئے اِن بابائوں کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ جنات اور آسیب سے نجات ملے یا نہ ملے بابائوں سے نجات ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جانے کتنے خاندان ان کی وجہ سے اُجڑ جاتے ہیں۔ کتنے بابائوں نے کسی کو خزانے کا لالچ دے کر‘ کسی کو بانجھ پن سے نجات دلانے کی آس دلاکر انہیں لوٹ لیا۔ خود ہمارے اپنے شہر حیدرآباد میں تقریباً ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی ڈھونگی بابا موجود ہے۔ چوں کہ ہماری غیرت ختم ہوچکی ہے اس لئے ہم اپنے محلوں میں ایسے ایسے حرامیوں کو برداشت کرتے ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کو حرم سرا بنائے رکھا ہے جس میں بیک وقت تیس تیس بیویاں موجود ہیں۔ نہ سیاست دان، نہ پولیس نہ ہمارے بانکے جوان کچھ کرپاتے ہیں۔گرمیت جیسے عناصر ہمارے درمیان بھی موجود ہیں جن کے خلاف آواز اس لئے اٹھائی نہیں جاتی کہ انہیں بھی سرکاری اور سیاسی سرپرستی حاصل رہتی ہے جو ان کے سیاہ کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ ہم اصلاح معاشرہ کی بات کرتے ہیں۔ جہاد کی بات کرتے ہیں۔ اصل اصلاح معاشرہ تو یہی ہے کہ ہماری ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ایسی ڈھونگی بابائوں، روحانی پیشوائوں کے چنگل میں نہ آسکیں۔ اور اصل جہاد یہی ہے کہ  ان حرامی بابائوں سے معاشرہ کو پاک رکھا جائے۔

Image result for BABA RAM RAHIM WITH DAUGHTER

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا