۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
ایک بار گاندھی مولانا محمد علی مونگیری سے ملنے مونگیر گئے۔گاندھی نے اپنے مطالعہ سیرت کا حوالہ دے کر پیغمبر اسلام اور قرآن حکیم کی تعریف و توصیف کی،مولانا مونگیری گاندھی کی ان باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے۔جب گاندھی اپنی بات کہ چکے تو مولانا نے پوچھا،مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیں جو آپ کو پسند نہیں آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پہلو سے آگاہ کیجئے ،جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا۔گاندھی جی اس سوال کے لیے تیار نہ تھے۔کچھ چونکے اور فوراَ َ َ بولے،ایسا تو کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا۔اس پر مولانا مونگیری نے سوال کیا۔تو پھر آپ نے ابھی تک اسلام کیوں قبول نہیں کیا؟گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔مولانا خفا ہوئے اور فرمایا،اپ نے جو کہا غلط کہا ہے،آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں،صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لیے انہیں کی بولیاں بولتا ہے (مسٹر احسان بی اے کی آپ بیتی،ص،273)
اللہ اس قوم پر رحم کرے جس قوم کا نوجوان اور سنجیدہ طبقہ لہو لعب میں گم ہو اور انہیں کل کی فکر ہی نہ ہو۔
’’ایک مضمون دلت وائس،31 مئی، 1999، میں شائع ہوا تھا، جس میں معروف صحافی وی ٹی راج شیکھر نے لکھا تھا ’’اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آناہے،اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکاہے‘‘
مسلمانوں نے اسپین پر ہزار سال تک حکومت کی۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمانوں کا وجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلام کے اثرات ہیں۔ اسپین کی زبان میں دیگر یوروپی زبانوں کی بنسبت عربی کے زیادہ الفاظ موجود ہیں، اس کی موسیقی پر عرب موسیقی کا اثرہے، اس کی ثقافت پر یوروپین تہذیب کے بجائے عرب ثقافت کی چھاپ ہے اور یہاں تک کے کہ عرب ناموں کی طرح یہاں ناموں کے شروع میں ’’ال‘‘ لگا ہوتاہے۔ 1942ء سے جب غرناطہ میں مسلم سیاست کا آخری قلعہ مسمار ہوا تھا، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی شروعات ہو گئی تھی اور 120 سال بعد 1612 ء میں یہ زوال یہاں سے با عمل مسلمانوں کے آخری قافلے کی روانگی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس سال کے بعد اسپین کے افق سے اسلام بالکل غائب ہو گیا۔
ایک قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام کی تنزلی کے اُس دور میں پوری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ترکی کی عثمانی خلافت قسطنطنیہ پر 1553 ء میں قبضہ کر چکی تھی اورجزیرہ نما بلقان کاتمام علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ مصرمیں طاقت ور مملوک حاکم تھے۔ عباسیوں کے زیر حکمرانی ایران اپنے عروج پر تھا اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اسپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ان عظیم افواج نے کچھ نہ کیا۔ اسپین میں اسلام کا خاتمہ کیسے ہوا؟ اس صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو فسطائیوں نے اس موضوع میں گہری دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا تھا تاکہ ہندوستان میں اس کی نقل کی جاسکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسپین کی کہانی دوہرائے جانے کو روکنے کیلئے مسلمانوں نیاپنے طور پر اس کا مطالعہ کیا تھا کیونکہ سب سے بڑی اقلیت ہونے کی وجہ سے(1981 ء کی مردم شماری کے مطابق ان کاتناسب 11.35 ہے) وہ اعلیٰ ذات کے ہندؤں کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئے ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اسپین کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تیار کی جانے والی سازشوں سے لا علم ہیں،اور بڑھ کر ستم ظریفی کے علماء کا طبقہ اس بات کو جمعہ یا عیدین کے خطبے میں بیان نہیں کرتا۔ہماری بڑی آبادی اس فتنے سے لاپرواہ ہے،تعجب ہے؟
ہمارے ملک ہندوستان کی طرح اسپین کے مسلمانوں کی بھی تین اقسام ہیں: (1)اصل عربوں کی اولادیں (2) عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی اولادیں (3) جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ سقوط غرناطہ کے بعد اپنی جانیں (دولت نہیں کیونکہ دولت لے جانے کی اجازت نہیں تھی) بچانے کیلئے اصل عرب تیونس اور مراکش چلے گئے۔ بہت سے عیسائی حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ عرب جنہوں نے اسپین میں رہنے کو ترجیح دی انہیں بالآخر ’’غیر ملکی‘‘اور اسپین کو برباد کرنے والے قرار دے دیا گیاِ، جیسا کہ ہندوستان میں کیا جارہاہے) دیگر مسلمان یعنی مسلمان باپوں اور عیسائی ماؤں کی اولادیں یا عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں نے مکمل مذہبی آزادی دئے جانے کے شاہ فرنیڈانڈ کے اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسپین میں رہتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندوستان میں بھی تو ہمیں یہ ہی بتایا جاتاہے کہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق حاصل ہیں)۔ شروع کے سالوں میں ان کی زندگی اور املاک پر حملوں کو عارضی رویہ قرار دے کر معاف کردیا جاتا تھا۔
اس کا موازنہ 1947 ء میں تقسیم کے حالات سے کیجئے۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملوں اور قاتلوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا موازنہ گجرات، مظفر نگراور مالیگاؤں میں مسلمانوں کے قاتلوں کی یکے بعد دیگرے رہائی اور حکومت وقت کے ذریعے انہیں نوازے جانے سے کیجئے )۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملے محض اُسی وقت شروع نہیں ہوئے بلکہ 50 سال بعد تک اس سے کم شدت کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ بالکل جس طرح آج ہندوستان میں ہو رہاہے۔ تقسیم کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے مزاحمت دکھائی اور حملہ آوروں کو جواب دیا۔ سڑکوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں مگر آہستہ آہستہ یہ یک طرفہ حملوں میں بدل گئیں اور شکست مسلمانوں کی ہوئی۔ اور اب تو ہندو پولیس کو مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔
اسپین میں جس وقت منظم عیسائی گروپ قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے تھیِ، فرنیڈانڈ کی حکومت مسلمانوں کا نوکریوں سے صفایا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل پیرا تھی:انتظامیہ سے عربی زبان کو خارج کردیا گیا۔ جو اسکول مساجد سے منسلک تھے ان پر پابندی لگادی گئی کہ غیر مذہبی مضامین، مثلاً سائنس، تاریخ، ریاضی، اور فلسفہ نہ پڑھائیں۔ وہ صرف مذہبی تعلیم دے سکتے تھے۔تاریخ کی تعلیم جھوٹے واقعات کی بنیاد پر دی جانے لگی جس میں مسلمان دور حکومت ظلم اور صفاکی کا دور بتایا گیا۔ اسپین کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کویکسر نظر انداز کردیا گیا۔ہتھیار جمع کرنے اور خفیہ میٹنگوں کے انعقاد کے الزام کے بہانے مسلمانوں کے گھروں کی آئے دن تلاشی ہوتی تھی۔ اصلی عربوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا تھا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور یہ کہ انھوں نے اسپین کو تباہ کیاہے۔
جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو یہ کہہ کر دوبارہ عیسائی بننے کی ترغیب دی گئی کہ ان کے اجداد کو زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا اور اب کیونکہ کوئی دباؤ موجود نہیں رہا، لہٰذا انہیں عیسائیت اختیار کر لینی چاہئے۔ جن مسلمانوں کے اجداد عیسائی اور مسلمان تھے انہیں حرامی قراردیا جاتا، ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر عیسائیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔اسلامی طریقے سے ہونے والی شادیوں کا عدالت میں جا کر رجسٹریشن کروانا لازمی کردیا گیا اوراسلامی قوانین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اسپین میں اختیار کیا گیا ہر طریقہ اِس وقت ہندوستان میں نہایت ہوشیاری اورمنظم طریقے کے ساتھ آزمایا جارہاہے۔
اسپین میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تذلیل کی گئی اوران پر مسلسل حملے کئے جاتے رہے۔ مسلمانوں کی معیشت برباد کرنے کیلئے ان کی دوکانوں اور مکانوں کو نذرآتش کرنے کیلئے اسپین کے لوگوں کو ترغیب دی گئی۔ مسلمانوں کے عیسائیت قبول کرنے کی علامتی تقریبات منعقد کر کے ان کی تشیہر کی گئی۔ ہندوستان میں ہر طرح کے ہندونازی— آریہ سماج، راما کرشنا مشن، وشوا ہندو پریشد وغیرہ —
بالکل یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ اسپین کے مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے اپنے بچوں کو گھروں اور مساجد میں عربی پڑھاکر اور زبانی طور پر انہیں حقیقت سے روشناس کروا کر اپنے مذہب کی حفاظت کا غیر فعال طریقہ اختیار کیا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کا جذبہ سرد پڑتا گیا۔ جب یہ حکم نافذ ہوا کہ شادی صرف سرکاری اداروں کے ذر یعے ہی کی جا سکے گی توشروع شروع میں مسلمان دو تقریبات منعقد کرتے رہے۔ ایک سرکاری ادارے میں اور دوسری اپنے گھروں پراسلامی طریقے سے،آہستہ آہستہ دوسری تقریب پر پابندی عائد کردی گئی اورگھروں میں منعقد کی جانے والی یہ تقاریب بھی غائب ہو گئیں۔
اس دوران مسلم قیادت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ ختم ہو گیا اورمسلم اشرافیہ نے بڑی تعداد میں ترکی، تیونس، مراکش اورمصرکی جانب ہجرت کرلی جہاں جذبہ ہمدردی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اسپین کے غریب مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ بالکل یہی سب کچھ ہندوستان میں ہورہاہے۔ امیراور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان برہمنی اثرقبول کرتا جاررہاہے۔ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی نقالی شروع کردی ہے کیونکہ وہ غریب مسلمان (جو 95% ہیں) بد حال بستیوں میں رہتے ہیں اور مراعت یافتہ طبقے کی بنسبت وہ اسلام پرزیادہ عمل کرتے ہیں۔ مسلم کش فسادات میں انہیں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔
اسپین میں جو بیج نصف صدی کے پہلے حصے میں بوئے گئے تھے، نصف صدی کے بعد ان کی فصل پوری طرح پک کر تیار ہو گئی تھی۔ اب مسلمانوں کی حفاظت کرنے کیلئے نہ کوئی قیادت باقی رہ گئی تھی اور نہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی با بصیرت شخصیت رہ گئی تھی۔ مذہبی قائدین، جنہیں دینیات کے علاوہ کسی اور چیز کا علم نہیں تھا، نے صورتحال سے نمٹنے کی بھر پور کوشش کی مگرحکومتی اداروں کے پروپیگنڈے، اس کی جانب سے دیا گیا لالچ،عیسائیت قبول کرنے کے عوض بڑی بڑی پیشکشوں، اسلامی اقدار سے عوام کی ناواقفیت، اوران کے ذہنوں میں منظم طریقے سے پیدا کی گئی احساس کمتری کے سامنے علماء کی کوششیں بہت کمزور تھیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت اور ایسی تنظیموں کی ضرورت تھی جن کے پاس حالات سے نمٹنے کیلئے وسا ئل دستیاب ہوں۔ جن مسلمانوں نے ترکی اور مصرکی مسلم حکومتوں سے مدد لینے کی بات کی مسلمانوں نے خود ان کی مخبری حکومت سے کی۔ مسلمانوں میں لڑنے کی خواہش کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی مسلم ملک ان کی مدد نہ کر سکا۔ جو مسلمان ترکی اور مصر میں ہجرت کر چکے تھے اُنہوں نے اِن حکومتوں کو اسپین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا خیال دل سے نکالنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کی سوچ کے مطابق اِس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں مزید شدت آجاتی۔ اُنہیں ایک احمد شاہ عبدالی کی ضرورت تھی مگر اس کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔
عام مسلمان اسپین کے قومی دہارے میں شامل ہو گئے اور بے روزگار ہوجانے کی وجہ سے مولوی طبقہ اسپین چھوڑ کر چلاگیا۔ جن مسلمانوں کواعتقاد کے لحاذ سے سخت سمجھا جاتا تھا ان کا آخری قافلہ اسپین کو الوداع کہہ کر 1612 ء میں وہاں سے روانہ ہوگیا۔
ہندوستان میں بھی سیاسی قیادت اُن پارٹیوں کی دم چھلّا بن گئی جن کی قیادت اعلیٰ ذات کے ہندؤں کے ہاتھ میں ہے۔ صرف چند عالم دین نے ہی ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان میں ’’تجربہ اسپین‘‘ پوری توانائی اور فعالیت کے ساتھ اپنایا جا رہاہے۔ اردو زبان، جو ہندوستان میں اُتنی ہی اسلامی ہے جتنا اسپین میں عربی اسلامی تھی، کو ختم کیا جارہاہے۔ اِس صورتحال کا مشاہدہ ہم نے بنگلور میں ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں کیا۔ (دلت وائس 15 مارچ 1985)۔ یہ لوگ عوام میں پہنچنے کے بجائے نفسیاتی اور جسمانی گوشہ نشینی کا سہارا لے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی غرض سے اٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کو فرقہ واریت کا نام دے دیا جاتاہے۔ کوئی مسلمان اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی تائید نہ بھی کر رہا ہو بلکہ ان کی محبت کا ڈھونگ کر رہا ہو تو اسے ’’نیشنلسٹ مسلم‘‘ سمجھا جاتاہے۔
مسلم عوام اور تعلیم یافتہ امیرمسلمانوں کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہاہے۔ مسلمان قیادت خود بھی مسلمانوں کے قتل عام کو فطری بات سمجھتی ہے۔ جب کبھی بھی اس قسم کے مسا ئل کوبین الاقوامی اسلامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا جاتاہے تو اسے ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب سے مسلم تاریخ خارج کردی گئی۔ نامورمسلمان جن کی اموات ہندوستان میں اور ہندوستان کیلئے ہوئیں ان کے نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان جس کی شہادت ہندوستان کیلئے ہوئی نئی نسل اُس تک کے نام سے نا آشناہے۔ اِس کے برعکس تاتیا ٹوپے، جس نے ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ اپنی پینشن کیلئے جنگ کی تھی اور جھانسی لکشمی بائی جو اپنے سوتیلے بیٹے کو اپنے تخت کا وارث بنانے کیلئے لڑی تھی، ان کے نام ہرہندوستانی کے لبوں پر ہیں۔ سائنس، طب، موسیقی، آرٹ کی خدمت یا بہادری کیلئے کسی مسلمان کو انعام نہیں دیا جاتا۔
انتہا تو یہ ہے کہ مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیروغیرہ جنہوں نے حکمراں پارٹی کانگریس کے پرچم تلے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی، ان کے ناموں پر کسی سڑک کا نام نہیں رکھا جاتا۔ تاریخ دوبارہ لکھی جارہی ہے، (Falsifying Indian History یعنی‘‘تاریخ ہند کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کا عمل’’دلت وائس 16 اپریل 1985) مسلمانوں کو روزانہ مارا جارہاہے اور ان کے مکان اور املاک جلائے جارہے ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے دروازے ان کیلئے بند ہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی حفاظت کی خاطرمسلم تنظیمیں خود رو گھاس کی طرح وجود میں آتی چلی جارہی ہیں۔
ہر کوئی اسلام کی حفاظت کیلئے فکرمندہے، کوئی بھی مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرنا چاہتا۔ ہم اس بارے میں واقعی فکرمند ہیں۔
حکمراں طبقے کی پالیسیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِس میں اور اسپین میں فرڈنانڈ اور ازابیل کی پالیسیوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ فرق صرف اتناہے کہ بیسوی صدی میں اقوام متحدہ کے منشوربرائے انسانی حقوق اور بین الاقوامی رائے عامہ کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے ہندو زیادہ تیزاورمکاری میں زیادہ سلیقہ مند ہیں۔آئے دن کے منظم مسلم کش فسادات میں جانی اورمالی نقصان، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت، دفاع، افواج اور پولیس میں مسلمانوں کا صفایا کر کے ان شعبوں میں برہمنی سوچ کا فروغ دیا جانا، سرکاری نوکریوں اور اداروں میں تقرری کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کردینا، تعلیم اور ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ میں برہمنی سوچ کا پھیلادیا جانا، 1947-48 میں، پنجاب، ہریانہ، یوپی، بہاراور مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، اور کرناٹک کے کچھ علاقوں سے اردو زبان کا خاتمہ، آہستہ آہستہ اردواسکولوں کا بند کیا جانا، یہ سب مسلم دشمن پالیسیوں کی واضح مثالیں ہیں۔
نفسیاتی جنگ کے محاذ پرمسلم پرسنل لائ، جسے اب یکساں سول کوڈ کا نام دے کر اسے تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہندو ثقافت کی بڑائی کا شور، ملک کی ترقی اور تعمیر میں مسلمانوں کی خدمات کو کم کرکے دکھانے کیلئے بدنام زمانہ مسلم دشمن شخصیات مثلاً ’’مہاتما‘‘ گاندھی، جی بی تلک، مدن موہن مالویہ، ویر ساورکر، لالا لاجپت رائے کو بطور ہیرو پیش کرنا، ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھنا
جو کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں مثلاً گوشت کا کاروبار، اسے گناہ بتا کر گائے کی حفاظت کی پالیسیوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو اسمگلنگ سے تعبیر کرنا، یہ وہ حرکتیں ہیں جن سے ہندوستان کے سادہ لو عوام کو گمراہ کیا جاتاہے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی حلقہ انتخاب کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا جاتاہے تاکہ مسلمانوں کے ووٹ بے وزن ہو جائیں اور ان علاقوں پرایسے انتہا پسند سیکولر مسلم لیڈروں کو مسلط کردیا جاتاہے جنہوں نے اب گائے کی پرستش شروع کردی ہے اوران مناظر کو باقاعدہ ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتاہے۔ بد قسمتی سے حکومت سے ناامید مسلم قائدین ہندؤں پر مزید انحصار کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہندو (دلت) عوام اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ اس وقت تو محض بیج بوئے جارہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آناہے۔ اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکاہے، الا یہ کہ مسلمان جلدی سے جوابی اقدامات کی تیاری کرلیں۔
یہی وقت ہے جب مسلمان یا ان میں دانشمند حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دوہرائے جانے کو روک دیں۔ اسلام کی حفاظت ہمیشہ عوام الناس نے کی ہے نہ کہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے۔ دولت مند مسلمانوں کا تناسب (کچھ استشناؤں کے علاوہ) پانچ فی صد بھی نہیں ہے ۔یہ طبقہ اسلام کی باتیں کرتا ہو مگر مسلمانوں کو بھول چکاہے۔ برائے مہربانی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مذہب اپنے ماننے والوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ مذہب کے ماننے والے مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان میں اسلام کو بچانے کیلئے مسلمانوں کو بچانا پڑے گا۔ہمارے اکابرین نے اپنے جان و مال کا نظرانہ دے کر جو قربانی دی اس کا پھل ہم نے کھایا اب پھل ختم ہو چکا ہے۔اب جب ہم قربانی دیگیں تو ہماری آنے والی نسلیں اس کا پھل کھائے گی۔ہمیں صرف دو کام کرنا ہے ۔پہلا رجوع الی اللہ دوسرا غیر مسلموں کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی لڑائی۔ان کو بتائے کہ ہم نئے برہمن کا ہندوستان کا خواب دیکھنے والوں کی راہ میں دیوار ہیں۔ جب وہ ہمیں سر کر لیں گے تووہ آپ کو کچلے گے۔واضح رہے کہ دلتوں کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات کو جانتا ہے،اور طاغوتی مقاصد سے اچھی طرح واقف ہے۔