عدالت عظمیٰ میں دفعہ 370 کی شنوائی میں حصہ لینے والے وکیلوں کا شکر گذار ہوں
یواین آئی
سری نگر؍؍نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’ ہمیں ہر ایک مقام پر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جہاں ہم اْمید بھی نہیں کررہے تھے وہاں بھی ہمیں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے، حکمران جماعت ہم سے اتنی گھبرائی ہوئی ہے کہ ہمارے سامنے مختلف نوعیت کی اڑچنیں پیدا کی جارہی ہیں۔‘‘ان باتوں کا اظہار موصوف نے نوائے صبح کمپلیکس میں یوتھ نیشنل کانفرنس کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’حد تو یہ ہے کہ کرگل کے کونسل انتخابات میں انتظامیہ پورا ضرور لگائے ہوئے ہے کہ ہم اپنا چنائو نشان ’’ہل‘‘ استعمال نہ کرسکیں جبکہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ہم بنا کسی روک ٹوک کے اپنا چنائونشان کسی بھی ریاست کے انتخابات میں استعمال کرسکتے ہیں۔ہم نے اس معاملے میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں جج صاحب نے ہمارے حق میںفیصلہ سناتے ہوئے لداخ انتظامیہ کو ہمیں ہل کا نشان فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ ہم نے سوچا شائد ہمیں اب نشان مل جائیگا لیکن انتظامیہ نے سنگل بینچ کا فیصلہ ڈویڑن بینج کے سامنے چیلنج کردیا اور 300صفحات پر مشتمل اعتراضات داخل کئے لیکن وہاں سے بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی اور سنگل بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا اور ہم کو تسلی ہوگئی کہ بس اب ہم آسانی سے اپنا چنائونشان استعمال کرسکتے ہیں لیکن حد تو تب ہوگئی جب لداخ انتظامیہ حکومت کا پورا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈویڑن بینچ کے فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی اور وہاں سے حکم امتناع لانے کی کوشش کی لیکن وہاں آنریبل جج صاحب نے حکم امتناع دینے سے انکار کردیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ 2019کے بعد لداخ سے نیشنل کانفرنس کا نشان ہٹ جائیگا او ر صرف اس بات کو ثابت کرنے کیلئے عدالت کا وقت بھی ضائع کیا جارہاہے اور ہمارے تھوڑے پیسے بھی ضائع کروائے جارہے ہیں۔لیکن یہ لوگ شائد بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ انشاء اللہ یہ والا الیکشن بھی ہم جت جائیں گے اور مستقبل کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرینگے کیونکہ ہم دھوکے کی سیاست نہیں کرتے، ہم وقت کے ساتھ دائیں بائیں نہیں جاتے،ہم ہوا کے ساتھ رْخ نہیں بدلاتے ہیں، ہم جو بات کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور آج سے30سال پہلے جو ہمارا مؤقف تھا آج بھی ہمارا موقف وہی ہے۔عمرعبداللہ نے کہا کہ ’’دفعہ370کے معاملے پر شروع میںہمیں بہت طعنے دیئے گئے اور ہم سے کہا گیا کہ آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں ، آپ سڑکوں پر احتجاج کیوںنہیںکرتے لیکن ہم نے اْس وقت صاف صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہم احتجاج کا راستہ نہیں اپنائیں گے ہم قانون اور آئین کے مطابق اپنی جنگ لڑیں گے، یہاں حالات بگڑنے میں وقت نہیںلگتا ہے، ہم یہاں کے نوجوانوں کو احتجاج کیلئے استعمال نہیں کریں گے اور ہم یہاں نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر نہیں دیں گے، ہم اپنے لڑائی پْرامن طریقے سے آئینی اور قانونی طور لڑیں گے اور ہم انصاف کی اْمید رکھتے ہیں۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ حکومت سے دفعہ370 واپس ملنے کی کوئی اْمید نہیں تھی کیونکہ جنہو نے لیا وہ کیا واپس دیں گے ، اس لئے ہم نے کہاکہ ہم وہی دروازے کھٹکھٹائیں گے جہاں سے ہمیں کچھ مل سکتا ہے اور ہم نے وہی کیا اور آج معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کئی لوگ جو پہلے اس معاملے میں سپریم کورٹ سے دور ہی رہے اور کہا کہ یہاں کچھ نہیںملنے والا ہے اور یہ تک کہہ ڈالا کہ جو لوگ دفعہ370کی باتیں کرتے ہیں وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔آج انہوں نے بھی کروٹ لی ہے اور کہتے ہیں کہ جو دفعہ370کی بات نہیں کرتے وہ جموںوکشمیر کو نہیں سمجھتے ہیں۔جن لوگوں کو اس کیس کیساتھ دور کا بھی واستہ نہیں تھا کل وہی لوگ سپریم کورٹ میں کس طرح وہ جھگڑ رہے تھے اور ایک وکیل کو ہٹاکر دوسرے وکیل سے بات کررہے تھے ،صرف یہ دکھانے کے لئے وہ بھی اس معاملے میں شامل ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اس تبدیلی سے میں حیران اور مطمئن بھی ہوں۔ مجھے اپنی جگہ یہ تسلی ہے کہ نیشنل کانفرنس نے لوگوں کیساتھ جو وعدے کئے اْس پر ہم برابر اترے، ہم نے کہا تھا کہ کیس لڑنے میں ہم کوئی کثر باقی نہیں رکھیں گے اور ہم نے بالکل وہی کیا اور ملک کے سب سے بہترین وکیلوں میں سے 2وکیلوں نے نیشنل کانفرنس کی نمائندگی کی۔آج ہماری دلیل اختتام کو پہنچ جائیں گی اور اب حکومت کی طرف سے اس کا جواب آئے گا۔اب ہم انصاف کی اْمید کرسکتے ہیں اور دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرسکیں۔