ہل‘اور’قلم دوات‘والے کب کریں گے اپنے من کی بات؟

0
0

اپناوجودبنائے رکھنے کیلئے علاقائی جماعتوںکااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟،قیادت کشمکش میں
اشتیاق احمد دیو

ڈوڈہ؍؍پانچ اگست کو جب ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کرکے دو علٰحیدہ مرکزی زیر انتظام علاقوں ’یوٹی ‘کا درجہ دیا گیا اس کے ساتھ یہ بحث شروع ہوئی کہ ریاست کی دو اہم علاقائی سیاسی جماعتوں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا۔ مجموعی طور دونوں سیاسی جماعتوں کے علاوہ کانگریس و دوسری مین اسٹریم جماعتوں کے رہنماؤں کی گرفتاری و نظر بندی پر عوامی حلقوں کا رد عمل بہت محتاط رہا جہاں سطحی سطح پر سوچنے والے لوگ دونوں جماعتوں کو آنے والے وقت میں قصہ پارینہ قرار دیتے ہیں وہیں سنجیدہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوںجماعتیں ایک طویل تاریخ رکھتی ہیں گر چہ پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس کے مقابلہ میں کم عمر ہے مگر وہ بھی ایک سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو نیشنل کانفرنس کے 1939میں وجود میںآنے کے ساتھ ہی مختلف شکلوں میں ریاست میں موجود ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کو اپنا وجود بچانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے مفاہمت ، اقتدار کے بجائے مزاحمت کاراستہ اختیار کرنا ہوگا اور نیشنل کانفرنس جماعت میںگذشتہ لگ بھگ ایک دہائی سے ایسی آوازیں اُٹھتی تھیں کہ اس جماعت میں سیاسی کارکن کی گھٹتی تعداد ریٹائر ڈراشی ملازمین، ابن الوقت نام نہاد سیاسی کارکنان کی اجارہ داری نے اس جماعت کو اصل اساس سے بہت دور لے لیا ہے۔ مگر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی شاید یہ معلوم نہ تھا کہ ان پر ایسا وقت آنے والا ہے جب اُن کو پھر سے قدیم طرح کے سیاسی کارکن کی ضرورت ہوگی اور لگ بھگ یہی حال پی ڈی پی کا بھی تھا۔ اب جبکہ پانچ اگست کو حالات یکسر بدل گئے ایسے حالات کے بعد چار ماہ گذرنے کے باوجود بھی ابھی تک دونوں جماعتوں میں سے ایک بھی جماعت اب تک پالیسی پروگرام کے حوالہ سے کوئی بات کرنے میں ناکام نظر آئی ہے اور اب ان جماعتوں کا مطالبہ کیا ہوگا اور ان مطالبات کے لئے طریقہ کار راستہ کیا ہوگا۔ اس پر سب کی نظریں لگی ہیں ابھی تک نیشنل کانفرنس کی طرف سے سابقہ وزیر داخلہ و پارٹی کے اہم لیڈر خالد نجیب سہروردی کے علاوہ کسی بھی لیڈر کا ایسا بیان اخبارات یا ٹی وی میں نظر نہیں آیا جس سے بین السطور کچھ اندارہ لگایا جا سکے ، دویندر رانا ، محمداکبر لون کے بیانات انہام پر مبنی ہیں ریاستی سطح اور چناب ویلی و پیر پنچال میں نیشنل کانفرنس جماعت کے اندر ایک طبقہ انتخابی سیاست سے دور رہ کر 1952، دہلی ایگریمنٹ کی بحالی کے لئے خالصاً سیاسی جدوجہد چلانے کے حق میں ہے جبکہ کچھ حلقے دہلی ایگریمنٹ بحالی کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ یوٹی کوواپس State Hoodکا درجہ بحال ہونے پر انتخابی سیاست میں شامل ہونے کے نظریہ پیش کرتا ہے تو کچھ لوگ جن میں اکثریت ریٹائر بیوروکریٹ، تاجروں ، سرمایہ داروں کی ہے وہ کسی بھی مطالبہ کے لئے سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں بھی انتخابی سیاست میں شامل ہونے کی رائے رکھتے ہیں ۔ مگر سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ اب نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کے پاس انتخابات میں جاکر کانگریس و دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا ہے۔ اُدھرپی ڈی پی کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ محبوبہ مفتی بذات خود فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے مقابلہ میں زیادہ سخت جان ہیں اور سیاسی تحریک چلانے کی اہلیت رکھتی ہیں مگر ان کی جماعت میں بھی مرحوم مفتی محمد سعید کے زمانے کا رکنان جنہوں نے 1975سے 2002تک مسلسل نیشنل کانفرنس کے عتاب کا شکار ہونے کے باوجود سینہ سُپررہے ایسا ورکر موجود نہ ہے کیونکہ محبوبہ مفتی نے بھی گذشتہ بالخصوص ایک دہائی کے دوران میں سیاسی کارکنان کے بجائے ، راشی ابن الوقت ریٹائر ملازمین کی فوج جمع کر لی ہے جو کسی بھی طور کسی بھی سیاسی تحریک کو چلانے کے متحمل نہ ہوسکتے ہیں۔ بحر حال ابھی دونوں جماعتوں میں سے کسی نے بھی اپنے پتے نہیں کھولے ہیں اور یہ بھی حقیت ہے کہ دونوں علاقائی جماعتیں ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہوئے ہیں ایسے میں عوام بھی اور سیاسی حلقے بھی خاموشی سے اس انتظار میں ہیں کہ آنے والے وقت میں دونوں علاقائی جماعتوں کا اونٹ کون سی کروٹ لیتا ہے۔ ادھر اطلاعات کے مطابق جہاں NCکے صدر عمر عبداللہ نے UTنظا م میں کسی بھی انتخابات میں شرکت ہونے کو خارج از امکان قرار دیا ہے وہیںگذشتہ برسوں کے مقابلے میںدو دن بعد نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کا یوم پیدائش ڈوڈہ میں نہایت ہی جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ پروگرام پارٹی کی طرف سے عوام کو کوئی پیغام دینا ہو یا پھر عوام کا مزاج جاننا ہے ۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ NCمیں بہت سے سیاسی کارکنان و لیڈر پارٹی کی طرف سے کوئی نرم رویہ اختیار کرنے پر پارٹی سے کنارہ کش ہوکر سخت گیر موقف لے کر عوام کے سامنے آئیں گے۔ جب کہ پارٹی کی خاص کر کے جموں کے میدانی علاقوں کی قیادت شاید ہی سخت گیر رویہ اختیار کرنے کے متحمل ہوں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا