جمیل احمد محسن
خالق کائنات نے دنیا عالم میں سکونت پذیر کثیر النسل مخلوقات کو پیدا فرمایا، اور ہر مخلوق کی ضروریات زندگی کا سامان اور ان کو حاصل کرنے کے مختلف اسباب و عوامل متعین کیے ہیں۔انسان سبھی مخلوقات میں اشرف المخلوقات ہے، اور اپنی عقل، فہم و فراست کی وجہ سے باقی مخلوقات میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔انسانوں اور باقی مخلوقات کے زندگی جینے کے لیے کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مشترک ہوتی ہیں، ہرمخلوق کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔اور ان اسباب و ذرائع کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔جسے ہم بیسک انفراسٹرکچر کہتے ہیں۔وہیں ایک انسان کو جینے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، کھانا پینا، کپڑا، اور ٹھکانہ۔لیکن سب سے ضروری جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ پانی ہے۔اگر پانی نہیں تو کھانا نہیں بنے گا،پانی نہیں تو کپڑے بیکار ہیں۔ایک بار استعمال کر کے دوسری بار کے قابل نہیں رہیں گے۔پانی نہیں تو مکان کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے کیونکہ ایک مکان کے بننے سے لیکر اس کے اندر تمام ضروریات پانی ہی ہر انحصار کرتی ہیں۔دنیا میں 70 فیصد پانی موجود ہے۔لیکن ہماری غلط حرکات کی وجہ سے صرف ایک یا دو فیصد پانی جو پینے کے قابل ہیے،وہ بھی بہت کم ہوگیا ہے،باقی پانی کھارا ہونے کی وجہ سے اور آئیس کی شکل میں نا قابل استعمال ہے۔ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے لیے لڑی جائینگی گی۔آج وہ ہم سب کے سامنے ہے کہ کس طرح سے پانی کی قلت کا سامنا پوری دنیا کر رہی ہے لیکن کچھ علاقہ جات ایسے ہوتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے لیکن اس کو صحیح طور پر استعمال میں نہیں لایا جاتا اور نہ ہی اس کی مساوی تقسیم ہوتی ہے۔ جبکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں جہاں پانی کی شدید قلّت ہے،وہیں پر جموں کشمیر کے اکثر علاقے اسی فہرست میں شامل ہیں۔ انہی علاقوں میں ایک علاقہ سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل حویلی کا شہر خاص وارڈ نمبر 1قاضی موڑہ ہے۔جہاں پر اس جدید اور ٹیکنیکل دور میں بھی لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ یہ علاقہ شہر خاص کے وارڈ نمبر 1 میں آتا ہے۔اگر وارڈ نمبر ایک کی یہ حالت ہے تو باقی آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا حال ہوگا؟شہر خاص ہونے کے باوجود بھی وہاں پر پانی کی شدید قلت ہے۔وہیں مقامی لوگوں کے مطابق کئی کئی دن پانی نہیں آتا۔ لفٹ اسکیم یعنی موٹر کے ذریعے پانی ایک ٹینک تک پہنچایا جاتا ہے اور وہاں سے آگے سپلائی کیا جاتا ہے۔جبکہ دو تین کلومیٹر کی دوری سے یہ پانی چڑھا کر اس ٹینک تک پہنچایا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے وہ موٹر ایک دو دن سے زیادہ نہیں چل پاتی۔ اس ضمن میں مقامی شہری جن کا نام ذاکر حسین ہے جنکی عمر لگ بھگ چالیس سال کے قریب ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہم اس دور میں بھی پانی کے بغیر جی رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ کہتے ہیں ہم پانی والی گاڑی کے ذریعے پانی منگواتے ہیں،اور کئی کئی دن پانی نہیں آتا۔ بعض اوقات تو ہم لوگ کئی کلومیٹر دور سے پانی لانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ شہر خاص کا وارڈ نمبر ایک ہے۔انہوں نے مزید بتایا کئی بار کہنے کے باوجود بھی محکمہ اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ وہیں ایک اور مقامی شخص نور الدین جن کی عمر 50سال کے قریب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کہتے ہیں کہ اگر ایک دن ہمارے بولنے سے پانی آ بھی جائے تو دس دس دن آتا ہی نہیں۔مال مویشی کو پیاسا رکھنا پڑتا ہے اور ہم لوگ اپنی ضروریات زندگی جو پانی پر منحصر ہوتی ہیں صحیح طرح سے پوری نہیں کر سکتے۔وہیں انہوں نے کہا ہم انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری مشکلات کا ازالہ کیا جائے اور ہمارے لیے بہتر انتظام کیا جائے تاکہ ہماری مشکلات کا حل ہوسکے۔
اسی سلسلہ میں ایک اور مقامی شخص جن کا نام محمد نذیر اور عمر تقریباً 55سال ہے، انہوں نے بتایا کہ اس پانی کی قلت کا سامنا ہم کئی سالوں سے کررہے ہیں۔ہم دور دور سے پانی لاتے تھے اور اب بھی جب پانی نہیں آتا تو وہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔اپنی ضروریات پوری نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا افسوس کہ کئی بار کہنے کے باوجود ادھر توجہ نہیں دی جاتی۔وہیں ان لوگوں کے حالات سن کر بہت دکھ ہوا کہ آیا اس دور میں بھی ان لوگوں کے حالات ایسے ہیں کہ ان کو بوند بوند پانی کے لیے ترسنا پڑ رہا ہے،ان کے بچوں کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے ان کے گھروں میں پانی تک میسر نہیں ہے۔جبکہ اہل محلہ کیلئے پانی کا انتظام ہو سکتا ہے اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور ایک اچھی اور معیاری موٹر نصب کردی جائے۔ شہری علاقوں میں تو لوگوں کو روزمرہ کے کام کاج سے فرصت ہی میسر نہیں ہوتی ایسے میں وہ کہاں پانی ڈھونڈیں گے۔تاہم ضلع انتظامیہ کوچاہئے کہ جہاں ہر گھر پانی کیلئے اتنی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں وہیں شہر پونچھ کے وارڈ نمبر ایک کے ان مکینوں کو بھی پانی کی سہولیات میسر کروائی جائیں۔(چرخہ فیچرس)