۰۰۰
عارفہ مسعود عنبر
۰۰۰
جیسے جیسے مریادا پرشوتم رام مندر کے افتتاح کی تاریخ 22 جنوری 2024نزدیک ارہی ہے،ویسے ویسے جشن کی تیاریاں زور پکڑتی جاری ہیں۔ٹی وی پر ہر وقت یہی ذکر، یہی پروگرام ،سڑکوں پر اشتہارات، ہر طرف ایک شور برپا ہے ، ریاست میں 22 جنوری کی چھٹی کا اعلان ہو گیا ہے ، وزیراعظم نے گھر گھر دیپ جلانے کی بات کہی ہے اور گھر گھر دیپ جلانے بھی چاہیے کیونکہ یہ لاکھوں ہندووں کی عقیدت سے جڑا معاملہ ہے ،لیکن سوال یہ ہے کیا یہ بی جے پی حکمران اور ممبران کی بھی عقیدت سے جڑا معاملہ ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم خود اس مندر کے افتتاح کا خیر مقدم کرتے۔کیونکہ یہ ملک ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے ،اس ملک میں ہمیشہ ہندو ،مسلم، سکھ، عیسائی سب نے ایک دوسرے کے مذہب اور ایک دوسرے کی عقیدتوں کا احترام کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رام مندر صرف عقیدت کامعاملہ نہیں ہے۔بلکہ سیاست کا معاملہ ہے۔اسی لیے 2024 کے انتخابات کے عنقریب اس ادھورے مندر کا افتتاح کیا جارہا ہے۔پران پرتشٹھان کی معنویت پر ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ سوامی شری نشچلا نند سرسوتی ، ‘سوامی شری بھارتی تیرتھ اور ‘سوامی سدا نند سرسوتی نے بھی وقت سے پہلے رام مندر کے افتتاح پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ مودی جی خالص مذہبی تقریب کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں تاکہ ا?ئندہ پارلیمانی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ساتھ ہی تقریب کے خاکیاوراس کے لیے متعین کیے جا رہے پجاریوں سمیت کئی اہم ہستیوں پر بھی اعتراض جتایا ہے۔ان شنکر اچاریوں نے پروگرام کو ہندو مذہبی اصول و روایات کے منافی قرار دیا ہے اور صاف طور پر کہا ہے کہ رام مندر کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رام مندر پر تو اب سے 31 سال پہلے ہی سیاست شروع ہو گئی تھی اس کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن بی جے پی نے رام مندر کارڈ 1990 سے کھیلنا شروع کیا۔ جب لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا اغاز کیا اور اور 1991 میں رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش میں اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو گئی۔اس سال مندر کی تعمیر کے لیے ملک بھر سے اینٹیں اکٹھا کی گئیں اور 6 دسمبر 1992 میں ہزاروں کارسیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔اس کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے۔نیز بی جے پی کو ایک مضبوط انتخابی مدعا حاصل ہو گیا۔ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو راج کرو کی پالیسی ہندوستان کے سیاست دانوں کی سمجھ میں ا چکی تھی۔اس لیے کانگریس کے راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھلوا کر اس مدعیکو بھناناچاہا لیکن بٹیر بی جے پی کے ہاتھ لگی۔ لال کرشن اڈوانی کی ملک گیر رتھ یاترا نے بی جے پی کو اقتدارتک پہنچانے میں بھر پور مدد کی۔اس وقت لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، کلیان سنگھ چار قد اور نیتا تھے، جنہوں نیملک کی جمہوریت کو نظر انداز کر کے ، ملک کی گنگا جمنی تہذیب ،ایکتا اور بھائی چارے کو سپردِ ا?تش کر کے بی جے پی کی جڑوں کو فرقہ واریت کے خون سے سینچا اور ہندو مسلم کے بیچ نفرت کی فصل کے بیج بونے شروع کر دیے ،جس کے نتیجہ میں ا?ج 32 سال بعد یہ فصل پک کر تیار ہو گئی اور سارے ملک پر زعفرانی رنگ کے پھول اس رنگ برنگے پھولوں کے گلدستے پر غالب ہو گئے۔ 2014سے ملک عزیز میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے واقعات عام ہو گئے۔ تشدد پسند کبھی گو رکشا کے نام پر کبھی کرونا جہادی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے لگے۔رام مندر بن کر تیار بھی نہیں ہوا کہ اس کے افتتاح کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔
ہم قارئین کی توجہ اس طرف دلانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کے وہ لیڈران جنہوں نیاس کھیل کی ابتدائ کی تھی یعنی لال کرشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی ،کلیان سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی جن میں سے دو سورگ باشی ہو گئے لیکن دو ابھی موجود ہیں۔ ان کا بی جے پی میں کیا وجود ہے ؟ ان کی حیثیت یہ ہے کہ ایک طرف جہاں وزیر اعظم اس پروگرام کو تاریخی پروگرام بنانے کے لیے ملک کی ہر نام چین ہستیوں کو دعوت نامے بھیج رہے ہیں وہیں اڈوانی جی اور جوشی جی کو ان کی بڑھتی عمر کا بہانہ رکھ کر پروگرام میں نہ انے گزارش کی گئی ہے۔ اج بی جے پی کے کسی بھی پروگرام میں انہیں نہیں بلایا جاتا۔آج ان کا نام تک لینے والا کوئی نہیں ہے۔
ْؓبقیہ صفحہ10پر عارفہ مسعود