ہر مرض کا علاج قرآن ہے

0
0

 

آزاد عباس چوگلے

فہیم ایک اٹھارہ سال کا پاکستانی نوجوان تھاجب تین سال کا تھا تب اُس کی ماں رضیہ اُسے چھوڑ کر انڈیا میں اپنی ماں کو ملنے آئی تھی۔ یہاں آکر ایسی ناگہانی آفت میں گرفتار ہوئی کہ واپس جاہی نہ سکی۔ ایسا نہیں کہ وہ انڈیا میں اول دفعہ آئی بلکہ یہ اُس کی تیسری آمد تھی مگر اس خوش خصال عورت کو اُس وقت کے حالات حاضرہ نے جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جبکہ وہ بے گناہ تھی۔فہیم جب اپنی ماں کی تلاش میں ممبئی آیا تو قانونی طور پر ائیر پورٹ کے قریبی پولیس اسٹیشن پر اپنا نام رجسٹر کیا اور سامنے ہی چند منٹوں کے فاصلے پر دو بلڈنگ کے مابین ایک عورت کو بھیک مانگتے دیکھا اُسی کے سامنے ایک بچے کا فوٹو تھا جو کافی خراب تھا جسے وہ بار بار چوم رہی تھی اور صدا لگارہی تھی کہ میں بھوکی ہوں مجھے چند سکے دو مجھے ماں کو بھی ملنا ہے اور میرے بیٹے کو بھی ملنا ہے ۔ فہیم نے اُسے چند سکے دئیے اور جب اُس نے وہ پھٹا پرانا فوٹو دیکھا تو اُسے یہ ہلکا سا احساس ہوا کہ یہ شاید فوٹو اُسی کا ہے ۔ وہ اِس کشمکش میں تھا کہ اُس عورت سے دریافت کرے کہ وہ کون ہے اور یہ فوٹو کس کا ہے ۔ جب اُس نے اُسے پوچھا تو وہ پاگلوں جیسی حرکت کرنے لگی۔ چند منٹ متواتر کوشش کرتا رہا مگر کامیابی نہ ملی لہٰذہ اُس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی وہ پیچھے لوٹا دیکھا کہ ایک عمر دراز پولیس والا اُس پر نگاہ لگائے کھڑا ہے ۔چند منٹ سوچنے کے بعد فہیم نے اُس پولیس والے سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ ”یہ عورت کون ہے جو بار بار بول رہی ہے مجھے ماں کو ملنا ہے مجھے میرے بیٹے کو ملنا ہے ۔“ جھٹ سے پولیس والے نے پوچھا تم یہ کیوں جاننا چاہتے ہوکہ یہ عورت کون ہے ….؟ کیونکہ اُسکے ہاتھ میں جو تصویر ہے وہ تقریباً میری بچپن کی تصویر کے مصداق ہے ۔ فہیم کا یہ جواب سن کر پولیس والے نے کہا اب میری ڈیوٹی ختم ہوچکی ہے اب میں فرصت میں ہوں آو¿ کہیں پر بیٹھتے ہیں اور میں ہی اس کی پوری پوری سچی کہانی بتا سکتا ہوں کیونکہ جو کچھ اُس کے ساتھ ہوا وہ میرے سامنے ہوااور میں بھی یہی چاہتا تھا کہ اُس عورت کے متعلق کوئی مجھ سے کچھ پوچھے کیونکہ چار دنوں کے بعد میری ریٹائرمنٹ ہے پھر کوئی مفصل بتانے والا نہیں ملے گا۔سُنو بیٹا میری طرف متوجہ ہوجاو¿ اُدھر نہیں دیکھو وہ عورت کہیں نہیں جائے گی بس اِسی جگہ پر پچھلے پندرہ سال سے ڈیرہ لگائے ہوئے ہے۔ اب میں تمہیں بتانے جارہا ہوں وہ صد فیصد سچ ہے ۔ کچھ باتوں کو اُسی نے بتایا وہ بھی قابل یقین ہے ۔ دراصل ماجرہ یہ ہے کہ یہ لڑکی اِسی ممبئی کے کسی خطے کی رہنے والی تھی۔ بہت ہی خوش فہم اور ذہین تھی۔ کالج کا آخری سال تھا کہ اُسے ایک پاکستانی لڑکے سے پیار ہوگیا۔ یہ لڑکا اپنی خالہ کو ملنے آیا تھا جو اس عورت کے پڑوس میں مقیم تھی۔ لڑکی کے والدین اس شادی سے بالکل خوش نہ تھے۔ مگر والدین و اہل خاندان سے بغاوت کرکے اس لڑکی نے اُس پاکستانی لڑکے سے نکاح کرکے پاکستان چلی گئی۔ جاتے ہی اُس کی بدقسمتی نے پیچھا کرنا شروع کیا مگر وہ کچھ خوش اس لیے تھی کہ اُس کے میاں اُس کے ساتھ خوش تھے ۔ سسرال آنے پر اُس کا کسی نے بھی استقبال نہ کیا بلکہ اُن سبھوں کا سلوک اس کے ساتھ نہایت ہی بے قیاس اور نکما تھا ۔ جیسے اُسے طعنہ دیتے تھے کہ یہ دشمن ملک سے آئی ہے ، گھر کا کام بالکل نہیں سمجھتی ، رشتہ داروں کے ساتھ ادب اور احترام سے پیش نہیں آتی اتنا ہی نہیں بلکہ گھر کا سب کام اسے سے ہی کرواتی تھی۔ جس کے لیے گھر میں نوکرانی ضروری ہے وہ کام بھی اسی سے کرواتے تھے۔ یہ سب وہ برابر برداشت کرتی تھی کیونکہ اُس کا شوہر اُس کے ساتھ تھا اور وہ اُسے ہمیشہ اُس کے کام کی داد دیتا تھا اور وعدہ کیے ہوئے تھا کہ بہت جلد ہم اپنا الگ سے گھر بسائیں گے اوروہ اس سپنے میں مسرور تھی۔ جب وہ پہلی دفعہ اپنی ماں کو ملنے آئی تب گھر والوں نے اُس بچے کو اُس کے ساتھ سفر کرنے سے روک دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پاس پڑوسیوں میں بھی اُسے بدنام کردیا تھا ۔ بے چاری شریف زادی اپنے ہی گھر میں قید ہوکر رہ گئی تھی ۔ ظلم و ستم کی انتہا یہ کہ اُس کا بچہ بھی اُس کے پاس نہیں دیا جاتا بس رات کو اُس کے ساتھ رہتا تھا یعنی کچھ سات گھنٹے بقیہ پورا وقت اُسے اس کی چار نندیں اور ساس سنبھالتی تھیں۔پہلی دفعہ جب وہ اِدھر آئی تب بغیر بچے کے آئی اور برابر یہاں حاضری لگاکر دس دن میں چلی گئی۔ دوسری دفعہ بھی یہیں حال رہا مگر اب جب وہ تیسری دفعہ آئی تب بھی بغیر بچے کے ہی تھی مگر اس دفعہ بدبختی نے اُسے گھیر لیا۔ اپنے آپ کو یہاں رجسٹر کرنے میں ذرا سی تاخیر ہوئی تو اُس نے اسرار کیا کہ میرا نام پتہ رجسٹر کرکے مجھے اجازت دیں ۔ اُسی اثناءمیں اُس کو رجسٹر کیا گیا اور پولیس اسٹیشن سے نکل ہی رہی تھی کہ خبر آئی کہ فلاں فلاں جگہ ہر دہشت گرد افراد نے بم کے دھماکے کیے ہیں۔ پھر کیا تھا اسے بلا کر مزید پوچھ تاچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ۔ دوسرے دن اُس کی تفصیل سے پوچھ تاچھ ہوگئی اُسے بے قصور مان کر چھوڑا گیا مگر پولیس اسٹیشن کی سیڑھیاں اُترتے وقت وہ گر گئی اور وہ اپنا دماغی توازن کھوبیٹھی ۔ بعدازاں پولیس والوں نے اپنی نگرانی میں اُس کا علاج کیا کیونکہ وہ پولیس اسٹیشن کے حدود میں تھی۔پولیس نے اپنی فرائض برابر انجام دیے دماغی طبیب کے پاس بھی لے جایا گیا مگر وہ پوری طرح سے دماغی توازن کھوچکی تھی۔ انہی باتوں میں کافی وقت نکل چکا تھا اُس کا پاسپورٹ بھی کہیں گم ہوگیا اور روپئے بھی کسی نے لے لیے ۔ آخرش فیصلہ یوں ہوا کہ اُس کے اُس کے گھر چھوڑا جائے ۔ وہاں جب اُس کو لے گئے تب دیکھا گھر بند ہے ۔پھر اُسے واپس لایا گیا ۔ پولیس خود حیران و پریشان ہوگئی کہ اب کیا کیا جائے؟ بس وہ میری ماں اور میرا بیٹا کہے جارہی تھی اور اب بھی وہ کہے جارہی ہے ۔ ایک دن وہ پولیس اسٹیشن سے نکل کر اس جگہ بیٹھ گئی جو ابھی تک ہے کہیں نہ کہیں سے بھیک مانگ کر اپنا گذارہ کرتی تھی اب اُس کے دماغ کا توازن بالکل ہی خراب ہے اور پتہ نہیں یہ توازن واپس آئے گا بھی یا نہیں ؟ کیونکہ یہ ایسی حالت اُس کی پچھلے چودہ پندرہ سالوں سے ہے ۔ شاید اُس کے سسرال والے یہ سمجھتے ہوں کہ وہ نہ واپس آنے کی نیت سے ہندوستان گئی اور اُس کی ماں سمجھتی ہوگی کہ وہ سسرال میں ہے ۔بیٹا تمہیں کامل یقین ہے کہ وہ تیری ہی ماں ہے؟ زار و قطار روتے ہوئے فہیم نے کہا ہاں ہاں انکل یہ میری ہی ماں ہے اُس کے پاس جو فوٹو ہے وہ میرا ہی بچپن کا فوٹو ہے ۔ وہی دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ میری ماں ہے ۔ چند سال قبل میں نے اور میرے ابو نے اُنھیں دیکھا تھا تب ذرا سا بھی گمان نہ ہوا کہ یہ میری ماں ہے اب وہ فوٹو دیکھنے سے کامل احساس اور اب یقین ہوگیا کہ وہ میری ماں ہے ۔ یہ میرے دل کی آواز ہے جو غلط نہیں ہوسکتی ۔ چلیے آپ کی تسلی کے لیے اُس کے پاس سے کچھ کاغذات دیکھ لیتے ہیں یقینا کچھ نہ کچھ شہادت مل ہی جائے گی۔ باقی کچھ کاغذات دیکھنے سے قبل وہ فوٹو دیکھا جس کے پیچھے ایک فوٹو اسٹوڈیو کا اسٹیمپ تھاجس کا ایڈریس کراچی ، پاکستان کا تھا جو انگریزی میں تھا اور نیچے اردو میں لکھا ہوا تھا فہیم۔ اب پولیس والے چاچا کو صد فیصد یقین ہوگیا کہ یہ عورت اسی لڑکے کی ماں ہے ۔ بیٹا اب تمہیں بہت سارے کام نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دینے کی کوشش کرنا ہے اس کی بنیادی مشکلیں دو ہیں ۔ اس کا دماغی توازن ختم ہوگیا ہے ۔ اس لیے اس کا علاج فوراً سے پیشتر کرنا ہے۔ علاوہ اس کا پاسپورٹ کے لیے کافی جدوجہد کرنی ہوگی یا پاسپورٹ نہ ملنے کی صورت میں اس دیش کی Outpassلینی ہوگی ۔ میں تمہاری دماغی حالت سے صد فیصد واقف ہوگیا ہوں اور میں تمہیں ہر گام پر ذاتی اور دفتری مدد کرنے کو تیار ہوں ۔ افسوس! اس بات کا کہ اب میں صرف اور صرف تین دن مکتب میں ہوں اُس کے بعد سبکدوش ہونے والا ہوں پھر بھی تو فکر مت کر تو اس دیش میں نیا ہے تیری مدد کرنا میرا اخلاقی فرض ہے اور میں کروں گا۔ چل تجھے میں کسی ہوٹل میں کمرہ دلواتا ہوں تو آرام کرلے تیرے کام کی شروعات ہم کل سے کرتے ہیں۔ ماں کی فکر مت کر جہاں اُس نے پندرہ سال نکالے ہیں وہاں ایک رات اور سہی۔دوسرے دن صبح پولیس والے چاچا کی مدد سے فہیم اپنی اماں کو ایک ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے ۔ صاف اور کھرے الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ دماغی مریض ہے اسے نفسیاتی ڈاکٹر سے علاج کرنا ضروری ہے لہٰذا اسے فلاں فلاں ہسپتال میں آج ہی داخل کرو۔ ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اُسے ہسپتال میں داخل کردیتے ہیں۔ آغاز میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اسے شفا ملنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے ۔ ہر طرح کی قیمتی قیمتی ٹیسٹ کرنے کے بعد طبیعت میںذرا بھی سدھار نہ آیا۔ اب پورا ماہ ہوچکا تھا جتنا وہ خوش تھا اب اُتنا ہی مایوس ہوئے جارہا تھا ۔ اب اُس نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ کسی طرح اپنے دیش پاکستان لے جائے گا وہ کافی ٹوٹ چکا تھا ۔ اُس کی ہمت جواب دینے کے قریب تھی کیونکہ اُس نے کافی خرچ کرچکا تھا حتیٰ کے اُس نے اپنی ماں کے زیورات بھی فروخت کر چکا تھا ۔ اب وہ شش و پنج میں تھا کہ کیا کیا جائے نہ پاسپورٹ ہے نہ آو¿ٹ پاس اور نہ ہی پیسہ ۔ بس اُس کا ایک ہی ہمدرد تھا وہ چاچا پولیس والے ۔ جنھوں نے اس کا پورا پورا ساتھ دیا اور دے بھی رہے تھے۔ تقریباً سبھی ڈاکٹروں نے رائے دی کہ ایک طویل عرصہ تک علاج جاری رکھنا ہوگا سوائے اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ صحت یاب ہوگی کہ نہیں….؟؟؟ اگر اس پولیس والے چاچا کا ساتھ نہ ہوتا تو یہ بھی پاگل ہوجاتا ۔ وہ فرشتہ صفت انسان اُس کی برابر مدد کیے جارہے تھے ۔ اُنھوں نے فہیم کو سمجھایا کہ دیکھ بیٹا اللہ کے یہاں دعا اور معافی کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے تو اس کے لیے اللہ سے مدد مانگ وہ تیری پریشانی دور کرے گا اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ دیکھ بیٹا میری ایک بات مان ۔ یہاں ایک جیل میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے چاچا قمرالدین ہیں جو نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ قرآن پاک کی تلاوت بآواز بلند کرتے ہیں۔ آغاز میں جیل کے ملازمین نے اُسے کم آواز میں پڑھنے کو کہا مگر اُس کے ساتھیوں نے کہا کہ وہ بآواز بلند پڑھے ہمیں اُس کے زور زور سے پڑھنے سے سکون ملتا ہے یہ التجا کرنے والے سبھی دھرم کے لوگ تھے ۔ لہٰذا جیل کے ملازمین نے اُس کی درخواست قبول کی۔ اتنا ہی نہیں کچھ مجرموں نے یہ بھی کہا کہ اِس تلاوت سے ہمیں بیماریوں سے شفا بھی ملتی ہے ۔لہٰذا فہیم نے پولیس والے چاچا کی بات تسلیم کی اور صبح اُس کو جیل لے جاتا رہا صرف ہفتہ ہی بیتا تھا کہ وہ فہیم سے کہنے لگی کہ تو میرے بیٹے کا ہمشکل ہے ۔ بیٹا پھوٹ پھوٹ کر خوشی سے رونے لگا اور یہ خوشخبری اپنے پولیس والے چاچا کو بتائی اور کہا کہ یہاں اس کا علاج صحیح سمت میں چل رہا ہے ۔ دوسرے ہفتہ میں جب پولیس والے چاچا اُسے ملنے آئے تو اُس نے پولیس والے چاچا کو پہچانا اور اپنے بیٹے س کہا اس بھائی صاحب نے میری بہت مدد کی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی یاد داشت واپس آگئی۔ اب فہیم تمہیں بھی وہ پہچان لے گی ۔ بہن اس کو جانتی ہو یہ کون ہے؟ جواباً اُس نے کہا ”نہیں“۔ بہن یہ تمہارا بیٹا فہیم ہے ۔ ذرا دماغ پر زور لگاو¿۔ تو میرا بیٹا فہیم….؟؟؟ ہاں ماں میں فہیم ہی ہوں ۔ دونوں گلے لگ کر خوب آنسو بہائے۔ پولیس والے چاچا نے اُنھیں اور اک خوشخبری سے آگاہ کیا کہ تمہاری Outpassمیرے پاس آئی ہوئی ہے کل کچھ قانونی کاغذات پر دستخط کرو میرے گھر کھانا کھاو¿ اور چلے جاو¿۔ پولیس والے چاچا اللہ سے بدست دعاگو تھے کہ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے ہی تیرے کلام پاک سے مریضہ کو شفا دی اور صحت یاب کیا ۔ پتہ نہیں ہم اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں ہر مرض کی دوا قرآن پاک میں ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا