گھر واپسی یا دھرم پرویورتن۔۔

0
0
محمد خان مصباح الدین
مدینہ منورہ،سعودی عرب
+966538910890
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستانی آئین ہر ایک باشندے کو اس بات کی مکمل آزادی دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب کو اپنی مرضی سے ترک و اختیار کر سکتا ہے جس میں کسی کی دخل اندازی قابل درست نہیں ہوگی،چنانچہ زمانے سے کتنے لوگ ہی اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات سے متاثر ہوکر یا کسی کے عشق میں پڑ کر اپنا مذہب تبدیل کرتے آرہے ہیں اور برسوں تک لوگ اسے دستور ہند کا حصہ مان کر ملک کی سالمیت کے لیے دیکھتے اور برداشت کرتے رہے مگر چند سالوں پہلے دنیا بھر میں لوگوں کو اسلام کی طرف مائل اور اسے قبول کرتا دیکھ کچھ انتہاء پسندوں نے اسے ظلم وجبر اور لوجہاد کا نام دے کر اپنے ملک میں ہنگامہ پرپا کیا کہ مسلمان جبرا بہت سے لوگوں کو اسلام قبول کروا رہے ہیں،مسلمان ہندو لڑکیوں کو محبت کے جھال میں پھنسا کر لوجہاد کا کھیل کھیل رہے ہیں حالانکہ کوئی غیرت مند مسلمان جسے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا علم ہے وہ جانتا ہے کہ اسلام میں کوئی زور زبردستی کی گنجائش ہے ہی نہیں یا اسی طرح جن لوگوں نے بھی اس سے قبل اسلام قبول کیا انہوں نے اسلام کی حقانیت،اسکی نفاست،اسلامی تعلیمات کا حسن دیکھ کر اپنی مرضی سے اسے اختیار کیا مگر اسے ایک سازش قرار دے کر پورے ملک میں سیکڑوں لوگوں پر الزام عائد کرکے ان پر کیس چلوایا گیا،کتنوں کے گھر جلائے گئے،کتنوں کو مارا پیٹا گیا،قدم قدم پے ملکی آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں،اور ہندو لوٹریپ سنگٹھن کے نام سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلم لڑکیوں کو گمراہ کرکے انکا مذہب تبدیل کیا گیا اور یہ سلسلہ اِس وقت دھارمک رنگ دے کر باقاعدہ محفل سجا کر کیا جا رہا ہے ابھی چند روز قبل لکھنو کے گوسائی گنج علاقے میں ہندو یووا منچ کے نام سے21 جوڑوں کی گھر واپسی کا اعلان کر موقعے اور متعینہ وقت پر پہونچی 8 لڑکیوں کا مذہب تبدیل کیا گیا جسے بڑی آسانی سے گھر واپسی کا نام دے کر پورے آب وتاب کے ساتھ اسٹیج لگا کر،ایودھیا سے ہندو پنڈتوں کو بلا کر،نیتاؤں اور پولیس کی موجودگی میں ایک طرح سے مسلمانوں کو دکھایا گیا کہ ہم ایسے ہی قانون کی دھجیاں اڑا کر جو چاہیں کرتے رہینگے۔چنانچہ اس طرح کے پروگراموں میں بڑے بڑے مہنت اور  بلند قامت ہندو گروؤں کا شامل ہونا یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لوگ کتنے متحرک ہوچکے ہیں،انکا دعوی ہے کہ ہندو مذہب اپنانے والے یا والیاں کہیں نہ کہیں راستے سے بھٹکے ہوئے تھے مگر انہیں آج اپنے گھر کا راستہ مل گیا اس لیے واپس اپنی پہچان پاکر گھر آگئے،اعلان 21 لوگوں کی گھر واپسی کا ہوا مگر 8 لڑکیاں ہی پہونچیں مگر یہ تعداد بھی مسلمانوں کی اقلیت کے حساب سے بہت ہی زیادہ ہے اگر آپ پورے ملک میں اس طرح کی خبریں اکٹھا کریں تو پورے مہینے میں بے شمار مسلم لڑکیا ارتداد کا شکار ہوتی ملینگی جو انتہائی حیرت و افسوسناک ہے۔
اب تک جتنے بھی ارتداد کے واقعات سامنے آئے ان میں سے اکثریت عشق ومحبت کیوجہ سے تھے،جہاں شبنم چندا دیوی بن جاتی ہے تو نازنین شیوانی تو کہیں پاکستان سے آئی ہوئی سیما حیدر سیما سچن بن کر اپنی ذاتی مفاد کے پیش نظر اسلام اور مسلمانوں پر طرح طرح کے الزام عائد کرتی ہے۔یہ تو کچھ بھی نہیں جس ملک میں خدیجہ،عائشہ،حفصہ اور فاطمہ ناموں والی لڑکیاں عشق ومحبت میں اندھی ہوکر اپنے صاف ستھرے دینِ رحمت سے بھٹک کر ضلالت کا شکار ہوئی ہوں وہاں سیما،شبنم اور نازنین تو عام ہیں۔
دوسری طرف ایک ہندو لڑکی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر،اس کے بارے میں مکمل طور پر سمجھ لینے کے بعد اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے کسی مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اسکے خلاف پولیس کاروائی اور مخلتف دھاراؤں کے تحت اسے عدالت تک گھسیٹا جاتا ہے کیا ایسے میں مسلمانوں کے خلاف چل رہی انتہا پسندوں کی لوٹریپ جیسی سازشوں کی تفتیش اور جانچ نہیں ہونی چاہیے؟کیا یہ ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دوہرا اور سوتیلا رویہ نہیں؟
لیکن جب اپنا ہی سِکاّ کھوٹا ہو تو دنیا سے شکایتیں کیسی، ہم نے اسلامی طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر خود اپنے لیے یہ راستہ چنا ہے تو پھر رونا کس بات کا۔جب قوموں کا احساس مرجائے تو پھر ان میں مختلف برائیوں کا ابھرنا لازمی ہے،رہنماء اپنا فریضہ اور منصب بھول جائیں،والدین اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے لگیں،بچے بلا خوف وخطر اخلاقی قدروں کو پامال کرنے لگیں،انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ ہو تو ایسے حالات پیدا ہو ہی جاتے ہیں اسی لیے دن بدن کثرت ارتداد کا فتنہ یہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کی غیرت کا جنازہ اٹھ چکا ہے،نئی نسلوں کا مذہب،دینی اصول وضوابط اور والدین کی عزت کو پیروں سے کچل کر اس طرح نکل جانا ہماری کوتاہیوں کا وہ نتیجہ ہے جسے ہم جان بوجھ کر بھی برسوں سے اندیکھا کرتے آرہے ہیں،ہماری غلطیوں کے عوض یہ دن تو ہمیں دیکھنا ہی تھا،ہم نے ایمان اور اسکے تقاضوں کو داو پر رکھ کر دنیا کی چاہت کی تھی،اپنی غیرت کو پس پشت ڈال کر ذلت کو دعوت دی،اپنے بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم سے دور ہی نہیں کیا بلکہ اسے حقیر اور فضول سمجھا جس کا رزلٹ ارتداد کی صورت میں آج ہمارے روبرو ہے،اغیار نے ہماری انہیں کوتاہیوں کا فائدہ اٹھا کر شروعات سے ہمیں ٹارگیٹ کیا اور دھیرے دھیرے وہ اتنے کامیاب ہوئے کہ آج مسلمانوں کے ارتداد پر پورے ملک میں جشن کا ماحول بنا ہوا ہے اور ہم یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ یہ معاملہ کسی اور کا ہے مگر یہ آگ ایک دن ہمارے دروازے کو بھی چھوکر گزرے گی تب بھی اغیار میں یہی جشن کا ماحول ہوگا اور ہم پھر بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہونگے اس لیے اپنی کوتاہیوں کو تلاش کرکے اس کو دور کیجیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں مزید ذلت ورسوائی  کا سامنا کرنا پڑے۔
یہ ہماری اور اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں اقتدار والے جنہیں ملک کے نظام کو درست کرنے کا پوارا پورا اختیار ہوتا ہے،جو چند ہی دنوں میں بگڑے ہوئے لوگوں کو راستے پر لگا سکتے ہیں مگر وہ بھی درپردہ انہیں کے طرفدار نکلتے ہیں جسکی وجہ سے انتہا پسندو کو نفرت اور عداوت کے شعلوں کو بھڑکانے میں ہوا ملتی ہے اور وہ ملک کی سالمیت کو روندتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے انکی تائید اور حفاظت کے لیے بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔
چند سالوں میں ہی ملک کی فضاوں کو نفرت سے اس قدر آلود کر دیا گیا ہے کہ ہر طرح کے معاملات مذہب کی بنیادوں پر دیکھے اور پرکھے جا رہے ہیں،مہنگائی اپنے عروج پر ہے،جرائم کی انتہا ہے،بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ لوگ جائز وناجائز کا فرق کئے بغیر کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہیں اور ہم سب ہندو مسلم میں پڑے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں،پاکستان سے ایک مسلم لڑکی اپنے چار بچوں سمیت،سچن مینا ٹھاکر نامی لڑکے کے عشق میں ناجائز طریقے سے ہندوستان  پہونچ کر اس سے شادی کرتی ہے،اپنے مذہب،اپنے شوہر،اپنی قوم اور عزیز واقارب کے خلاف صرف اس لیے زہر اگلتی ہے کہ کسی بھی طرح اسے یہاں ٹھہرنے کی جگہ مل جائے،اس طرح کے بہت سے معاملات آج قبل پیش آئے مگر ہندوستانی میڈیا کی کارستانیاں دیکھیے کہ ملک کے دوسرے اہم اور ضروری مسائل کو چھوڑ کر یہ لوگ دن رات اس بات کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں کہ سیما حیدر جاسوس ہے،یا عشق کے چلتے ہندوستان آئی،اسکے اور کتنے عاشق تھے،اس کو دونوں ملکوں میں کون کیا کہہ رہا ہے اور انہیں سب باتوں کے بیچ آسام کے وزیر اعلی مہنگائی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں شاید اس ملک کے لوگ ہی اس قدر ہندو مسلم سننا چاہتے ہیں کہ جب بھی کوئی اہم مسئلہ ہوتا ہے لوگوں کو ہندو مسلم کا چورن تھما دیا جاتا ہے اور ہم اسی میں الجھ کر ایک دوسرے کو لعن طعن اور نیچا دکھانے میں اپنا ہی نقصان کرتے رہتے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا