انس مسرورانصاری
عرصہ قبل اسّی کیدہیمیں گلزارکی نظموں کومیںنیہندی میں پڑھاتھا۔ان نظموں کی سحرانگیزی کے اثرات اب تک میریذہن میں تازہ ہیں،لیکن دودھ سے دھلی ہوئی ان نظموں کامطالعہ وتجزیہ مقصودنہیں ہے۔تذکرہ ‘‘راوی پار’’کاہیجوگلزارکی کہانیوں کامجموعہ ہے،بلکہ اس مجموعہ میں شامل گلزارکی ایک کہانی ‘‘حساب کتاب’’کاہے۔فلم نگری ہو یاشعروادب،گلزارکے آرٹ اورفن کیمظاہرپوری توانائی کیساتھ نظرآتیہیں۔
‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک معمولی اورغیر اہم سی کہانی لگتی ہے،جیساکہ گوپی چند نارنگ نے ‘‘راوی پار’’ کی اکثرکہانیوں کاجائزہ لیتیاورتبصرہ کرتیہوئے اس کہانی کونظرانداز کردیا۔
گلزارکی جل پریاں(کہانیاں)فکشن نگاری میں انہیں ایک امتیازی مقام دلاتی ہیں۔روایت کیاحترام کے ساتھ سادہ اسلوب اوردل کش بیانیہ ان کی شناخت ہے۔انہیں کہانی کہنیکاہنرآتاہے۔اپنیتخلیقی اظہارکیمحرکات و عوامل کیتعلق سیلکھتیہیں:
‘‘افسانہ لکھنیکیلییصبرکی ضرورت پڑتی ہے،جواس عمرمیں چاہیمل بھی جائیمگراس(بڑی)عمر میں بہت مشکل سیملتاہے۔کچھ اس طرح افسانہ نگاری شروع کی۔ہنرمندتوبہرحال کہیں نہ ثابت ہوئے،لیکن روزگارکی ضرورت کیتحت نثراس قدرلکھنی اور پڑھنی پڑی کہ شاعری گوشہ نشینی کی وجہ بن گئی۔جب بھی فلم اسکرپٹ اورمکالموں سیبھاگیتوشعرکی کٹیامیں پناہ لی۔گانیاتنیکبھی نہیں تھیلکھنیکے لیے۔اس لیے شاعری دھیمی دھیمی آنچ پرپکتی رہی۔
افسانوں کایوں ہواکہ دوریکی طرح پڑتیتھے۔کبھی لمبیسفرپرنکلیتوکوئی افسانہ اپنی پوری تشکیل کیساتھ سامنیآگیا۔کبھی گاہے بہ گاہے لکھی ڈائری دہراتیہوئیصفحوں میں رکھامل گیا۔فلم اسکرپٹ لکھتے ہوئیکوئی نیاکردارسوجھایامشاہدے میں آیاتوجی چاہا اس پرافسانہ لکھیں،یااسکرپٹ کرتیہوئیبڑی انوکھی سچویشن پیداہوگئی۔انسانی زندگی کی جھلک روبرو آگئی،انسا نی رشتوں کی کوئی نئی پرت کھل گئی تو اس پرافسانہ لکھ لیا۔جوفلم میں نہیں سمایااسے الگ سیجمع کرلیا۔کچھ افسانییوں ہوئیکہ پھوڑوں کی طرح نکلے۔وہ حالات،ماحول اورسوسائٹی کیدیئے ہوئے تھے۔کبھی نظم کہہ کیخون تھوک لیااورکبھی افسانہ لکھ کرزخم پرپٹّی باندھ لی۔مگر ایک بات ہے،نظم ہویا افسانہ،ان سیعلاج نہیں ہوتا۔وہ آہ بھی ہیں،چیخ بھی،دْہائی بھی مگرانسانی زندگی کیدردکاعلاج نہیں ہیں۔’’ (راوی پار،،ص،18)
اْردوفکشن نگاری میں گلزارکانام زیادہ روشن نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ وہ بہت بعدمیں آئے ہیں۔فلمی شہرت اورمقبولیت نیان کی تخلیقات کی طرف لوگوں کومتوجہ کیا۔ایسانہیں ہیکہ گلزارکی شاعری یافکشن نگاری کمزورہیبلکہ ادب کی دنیا میں ان کی تشہیرکم ہوئی۔اپنے اسلوب اورتکنیک کیاعتبار سیان کی کہانی ‘‘بمل دا’’انفرادیت کااحساس دلاتی ہے۔‘‘راوی پار’’ میں مختلف النو ع موضوعات پران کی بہت اچھی کہانیاں موجودہیں اوردعوتِ فکرونظردیتی ہیں۔گلزاراوران کی کہانیوں کاذکرکرتیہوئیصلاح الدین پرویز لکھتے ہیں:
‘‘..????….میریاوراس کیدرمیان ایک عظیم رشتہ ہیاوروہ رشتہ ہیخوشبواورپانچ ہزارسال کا….اوراس پانچ ہزارسال پرانیآدمی کااردوسیوہی تعلق ہے جو سمندرکاموجوں سیہوتاہے،جومیر?کاغم سیاورغالب? کامئیسیتھا….یہ آدمی یوں تو عمرکے حساب سیمجھ سیبہت بڑاہے،لیکن میرادوست ہے…..نہیں ،نہیں،وہ میرا دوست نہیں بلکہ اس کی شاعری میری دوست ہے،اس نیاردومیں جتنی اچھی،سچی شاعری کی ہیاورکہانی لکھی ہے،اس کی اسے دادنہیں ملی….اس کی ایک وجہ نام نہادنقادوں کی گروہ بندی،غیرضروری فہرست سازی اورمدیروں کاتجاہل اورستم شعاری بھی ہوسکتی ہے…یااس کی وجہ کہیں وہ دنیاتونہیں جس میں وہ آج بھی مقیم ہے۔کاش،وہ میری طرح،میری دنیامیں،میرے گھر،میریساتھ،رہنیلگے،کاش،یہ میرا بیربط مضمون پڑھ کراردوکیقارئین،اس سے وہ محبت کرنے لگیں جس کاوہ مستحق ہے۔سچ کہتاہوں اگر آج کے تین،چارسچے شاعروں اورکہانی کاروں کانام لیاجائیتواس کانام ان میں سیایک ہوگا۔بس انہیں اس عینک کی ضرورت ہوگی جواس کیلگی ہوئی ہیاوروہ اس لییکہ اس کے پاس ایک ان دیکھی خوشبواورپانچ ہزارسال ہیں۔۔۔۔لیکن اس وقت مسئلہ تواس کی عینک کاہیجومیرے خیال میں جل پریاں اٹھاکرلیگئی ہیں …ائے جل پریو!کیاتم گلزارکی عینک واپس نہیں کروگی….؟
ارے میں یہ کیالکھ گیا،اصل میں یہ جل پریاں ہی توگلزارکی نظمیں اور کہانیاں ہیں۔گلزاربھائی!آپ نے سچ کہاتھا….ایک ایک جل پری کی عمر پانچ پانچ ہزارسال ہوتی ہے……!’’
(‘‘راوی پار’’ص،15)
گلزارکیچاہنیاورپسندکرنیوالوں کوشکایت ہیکہ فکشن اوربیانیہ ادب میں اْنہیں وہ مقام نہیں دیاگیا جس کیوہ مستحق ہیں۔اس کی ذمّہ دار ی وہ ناقدین ادب کی گروہ بندیوں پر ڈالتے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گلزارفکشن کی دنیا میں بہت بعدمیں آئے۔بیشک ان کی کہانیاں جل پریوں کی طرح خوبصورت ہیں،تاہم وہ اردوادب کوکوئی بڑی اورشاہکارکہانی نہیں دیسکے۔کوئی ایسی کہانی جولوگوں کے دلوں کومیوکرسکے۔کوئی ایسی کہانی جس کاذکرباربا رکیاجائیجودلوں کو اپنی گرفت میں رکھ سکے۔گلزارکی فلمی شہرت ہی نے بعض ناقدوں کوان کی طرف متوجہ کیا، ان کی کہانیوں نے نہیں۔!اس لیے یہ شکایت درست نہیں کہ انہیں نظراندازکیاگیاہے۔گلزارکی کہانیوں کاتجزیاتی مطالعہ پیش کرتیہوئیگوپی چندنارنگ لکھتے ہیں ?:
‘‘گلزارکیفن کارہونیمیں شبہ نہیں،لیکن فن اورفن میں فرق ہوتا ہیاورہرفن کیتقاضیالگ ہیں۔ضروری نہیں کہ ایک زمریکافن کاردوسریزمریمیں بھی اتناہی کامیاب ہو۔فلم کی شہرت اپنی جگہ،گلزار کہانی کیفن میں ایسیکھرینکلیں گے،اس کاسان گمان بھی نہیں تھا۔’’
وہ مزیدلکھتیہیں‘‘گلزارپْرفریب فنکارہے،ہرقدم پرجل دیجاتاہے۔ہرکہانی کیساتھ زندگی کااورزندگی کیتجربیکااْفق بدلتاہیاوروسیع سیوسیع ترہوتاجاتا ہے۔
اکثرفلم والوں کودیکھاہیکہ جب لکھتیہیں تورومانس اورفارمولاسے باہرکم ہی قدم رکھ پاتیہیں،یعنی گھوم پھرکروہی فضاجس میں ان کی زندگی گزری ہے۔ان کے ذہن کورومانی موضوعات سیایک جکڑسی پیداہوجاتی ہیجواوّلین گناہ کی طرح ان سے چپک جاتی ہیاوروہ ہرگزاس سیاوپر نہیں اْٹھ سکتے۔لیکن گلزارکے یہاں تعجب ہوتاہے کہ مصنف اِس wavelengthیااْسwavelengthکاخالق نہیں ہے۔ان کییہاں ہرکہانی کیساتھ زندگی کاایک نیاروپ،ایک نیارخ،ایک نئی سطح نظرآتی ہے۔ایک نیازاویہ،ایک تجربہ،ایک ایسیذہن وشعورکاپتادیتاہیکہ اس کالگاؤ اِس رخ یااْس رخ سینہیں،بلکہ زندگی کی پوری سچائی سیہییازندگی کیاس کھلیتجربیسیجوحدیں نہیں بناتا،حصارنہیں کھینچتا،رشتوں،طبقوں، نفرتوں اور محبتوں میں کسی ایک پرت پراکتفانہیں کرتابلکہ سچائیوں کیآرپاردیکھتاہیاورزندگی کواس کے پورے تنوع،بوقلمونی اورتجربیکواس کی تمام جہات کے ساتھ انگیزکرتاہے۔کسی بھی فنکارکے لیے یہ کمال معمولی نہیں۔غالب نیباجیکوراگوں سیبھراہواکہاتھا۔گلزارکی کہانیوں کوذراساچھیڑنیکی ضرورت ہے،زندگی کیسْر،ان میں سینکلنیلگیں گے۔ایک ایسیفن کارکے لیے جس نے ساری زندگی فلم سازی میں کھپادی،یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ اس نیایسی کہانیاں لکھیں جن میں زندگی کاسنگیت بھراہواہیاورہرکہانی میں زندگی کا ایک الگ روپ،الگ تجربہ سامنے آتاہے۔’’
(‘‘راوی پار’’ص،۸۔۷)
گلزارکی کہانیوں کامطالعہ،موضوعاتی گوناگونی،رنگا رنگی اوربوقلمونی ڈاکٹرگوپی چندنارنگ کیبیان کی تائیدوتوثیق کرتیہیں۔بلاشبہ ان کی تصوراتی گرفت اورمختلف ومتضادرنگ آمیزیوں کیسبب ان کی کہانیوں کاکینوس بہت وسیع ہوگیاہے۔شہروں کی شور مچاتی ہوئی سڑکوں،گلیوں ،کوچوں ،بندتاریک کمروں،فلمی رنگینیوں ،قصبوں اورگاوؤں کی دھول اْڑاتی ہوئی زندگیوں کوانہوں نیخوبصورتی کیساتھ عکس ریزکیاہے۔ ہرجگہ اورہر مقام پرکہانیاں اْنہیں تلاش کرلیتی ہیں۔
گلزارکی کہانیاں مختصرہوتی ہیں۔وہ قاری کوالجھاتینہیں بلکہ اس کی انگلی تھام کر منظروں کی سَیرکرادیتیہیں۔پلاٹ میں بھی پیچیدگی نہیں ہوتی۔ سادہ بیانی ان کی بڑی خصوصیت ہے۔جہاں اتنی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں وہیں گلزارکہیں کہیں اپنے پڑھنیوالوں کوتھکابھی دیتیہیں۔بعض کہانیوں میں مکالمیاتنیکثیراورغیرضروری محسوس ہوتیہیں کہ قاری بوریت کاشکارہوجاتاہے۔بعض کہانیاں کسی کلائمکس کیبغیرختم ہوجاتی ہیں،جہاں قاری کوایک قسم کی تشنگی،ادھوریپن اوراپنیٹھگ اْٹھنیکا احساس ہوتاہے۔
‘‘راوی پار’’کی ستّائس(27)کہانیوں میں‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک فرسودہ موضوع پرلکھی گئی معمولی اورغیراہم سی کہانی ہے۔غالباََپیش افتادہ موضوع کے سبب ڈاکٹرگوپی چندنارنگ نیاپنی گفتگو میں دیگر کہانیوں کیساتھ‘‘حساب کتاب’’کاذکرنہیں کیاہے۔لیکن اس کہانی کاموضوع جس قدر پْرانااورفرسودہ ہیاسی قدرنیا اورسلگتاہواسابھی ہے۔ پْرانااس لیے کہ اس موضوع پرہزاروں کہانیاں لکھی جاچکی ہیں اورلکھی جارہی ہیں اورمضامین تحریر کیے جارہے ہیں۔ یہ آج بھی پہلے ہی کی طرح سلگتاہواتازہ دم ہے۔گلزارنیاسے بڑیسلیقیسیلکھاہے۔کہانی۔۔حساب کتاب۔۔پرتبصرہ کرتیہوئیمعروف نقادحقانی القاسمی لکھتیہیں۔
‘‘ایک سماجی مسئلیسیجڑی ہوئی کہانی ہے۔ایک پڑھی لکھی بی۔اے پاس لڑکی کوبھی شادی میں کیسی کیسی دقتیں پیش آتی ہیں اورجہیزکیناسورنیسماج کوکس طرح جکڑلیاہے،یہ اہم ترین مسئلہ ہی اس کہانی کی موضوعاتی اساس ہے۔جہیزنہ بھی لیاجائیتب بھی جہیزکی شکلیں برقراررہتی ہیں یعنی معاشرہ جہیز کی لعنت سے کسی بھی طورپاک صاف نہیں ہے۔حساب کتاب عنوان ظاہر کرتا ہے کہ جہیز بدل جائے مگرماہیت نہیں بدلتی۔نوعیت بدل جائے مگر حقیقت نہیں بدلتی۔جہیزصرف سونیاورزیورات کانام نہیں ہیبلکہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جوجہیز کے زمرے میں آتی ہیں۔،،
(راوی پار،ص ۰۷۱)
جہیزہندوستانی سماج میں ایک بڑی لعنت ہی نہیں بلکہ ایساناسورہیجوہمیشہ رستارہتاہیاوراپنے فاسد مادّہ سیاسیپرا گندہ کرتارہتاہے۔اس کہانی کی ابتدائ اس کیدوبڑیاوربنیادی کرداروں کیتعارف سیہوتی ہے۔
‘‘بابودیناناتھ نیاپنیبیٹیسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسیطیکردی!
ماسٹررام کماربڑیخوش تھے۔پڑھالکھاکربیٹی کو بی۔ایکرادیاتھا۔اونچی تعلیم دلائی تھی اورسب سے بڑی بات کہ جب اوشانینوکری کرنی چاہی توانہیں رتّی بھربھی اعتراض نہیں ہوا۔فوراََ اجازت دیدی۔فکرتھی توصرف اتنی کہ کل کوئی بر(رشتہ)اپنیآپ چن کرنہ لے آئے۔آخرتھی تو بچی ہی۔قدبت نکلنیسیہی بچیسمجھ دارتونہیں ہوجاتے۔لیکن اوشانیاس طرح کی کسی شکایت کاکوئی موقع نہیں دیابلکہ دوایک بارجب اس کیرشتیکی بات چلی تھی تواس نے گردن جھکاکے بڑے ادب سیکہہ دیا…‘‘آپ میریلییجوسوچیں گے میریسر آنکھوں پر۔’’
اوشاکونوکری کرتیہوئیتین چارسال ہوگئے۔اس نے اپنی تنخواہ کیذریعیگھرکابوجھ تواٹھالیاتھا لیکن اس کابوجھ ماسٹررام کمارپرآہستہ آہستہ بھاری ہونے لگا۔کئی جگہ رشتے کی بات چلی مگر ٹوٹ گئی۔ہرجگہ اس کیدام لگ جاتے۔کوئی پچاس ہزارکانقدجہیزمانگتااور کوئی لاکھ روپیکا۔ کوئی اسکوٹرکی فرمائش کردیتا۔ سونا،زیو رتوالگ ہی رہے۔ماسٹررام کماراپنی ساری پونجی اوشاکی تعلیم پرخرچ کرچکیتھے۔لے دیکے ان کایہی ایک رہائشی مکان تھا۔چھوڑدیں توپگڑی مل جائے گی لیکن پگڑی لیلیں توسرکہاں چھپائیں۔؟وہ بہت ساری فکروں میں گھیریہوئیتھے۔اوشا ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ان کیلییوہی سب کچھ تھی۔اس کیلیے وہ ایک ایسیرشتہ کی تلاش میں تھیجوپڑھالکھابھی ہو اوردان دہیج کالالچی بھی نہ ہو۔اس زمانیمیں ایسی سوجھ بوجھ والیلڑکیکہاں ملتیہیں۔اچانک ماسٹررام کمارکی ملاقات دیناناتھ سیہوگئی۔دیناناتھ کی ایک دکان تھی جہاں سائن بورڈ بنانے،رنگنیاورلکھنیکاکام ہوتاتھا۔بیوپاراچھاخاصاچل رہاتھا۔آمدنی بھی بہت اچھی خاصی تھی۔چارپانچ کاریگرکام کرتیتھے۔ان کااکلوتالڑکاسرون کماربیوپارسنبھالتابھی خوب تھا۔مجال نہیں کبھی کسی انگریزی لفظ کی ہجّے غلط ہوجائے۔اب تواس نے کئی زبانوں کی لغتیں بھی دکان پررکھ چھوڑی تھیں۔سرون کمارکی تعلیم کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاتھا۔اس میں خوبی یہ تھی کہ وہ محنتی بہت تھا۔دکان کاسارابوجھ سنبھال رکھاتھا۔ ماسٹررام کماراپنیاسکول کاایک بورڈبنوانیگئیجہاں دیناناتھ سیان کی تفصیلی گفتگوہوئی۔وہ دونوں ایک دوسریکیخیالات سیکافی متاثرہوئیاوریہیں سے دونوں کی خوب جمنیلگی۔دکان اورمکان میں ایک دوسریکاآناجانابھی ہونیلگا۔دعوتیں بھی ہونیلگیں۔اس طرح یہ دونوں خاندان ایک دوسریکیبہت قریب آگئے۔اورپھرایک دن بابودیناناتھ نیاپنیبیٹیسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسیطیکردی۔دونوں بہت خوش ہوئے۔کہانی کایہ آخری حصّہ بہت اہم ہے جس میں گلزارنیکہانی کیکرداروں کی تحلیلِ نفسی کی ہے۔ماسٹررام کماراپنی بیٹی سیکہہ رہیتھے:
‘‘بہت ہی اونچیخیالات ہیں بابودیناناتھ کے۔بتاؤ آج کیزمانیمیں اورملیتوملیایسیسسرملتیہیں کہیں؟کہنیلگیمجھیتوایک دھیلیکادہیج نہیں چاہیے۔ساڑھے تین کپڑوں میں لڑکی بھیج دیجییاورلڑکی آپ کی پوری آزادی کیساتھ سروس کرتی رہیگی۔’’میں تو حیران ہوگیا۔بولے…‘‘ میری توشرط ہیکہ اوشااپنی سروس کیساتھ ہی میریگھرکی بہوبنیگی۔مجھے رسوئی گھرکی باندی نہیں چاہیے۔’’
اورادھردیناناتھ اپنی بیوی کوسمجھارہیتھے۔ ‘‘ناراض کیوں ہوتی ہوبھاگیوان!تمھارالایاسوناکیابچا؟کچھ دکان بنانیمیں اٹھ گیا،کچھ ٹیکس چکانیمیں!ہم توسانس لیتاسونالائیہیں دہیج میں…پنشن بندھ گئی۔ چودہ سوروپیتنخواہ کیلائیگی اورڈرائنگ بھی اچھی ہے اس کی۔بارہ سوروپیکاایک ورکرکم ہوادکان پر!کیوں۔؟’’ (حساب کتاب)
موجودہ بیرحم ہندوستانی سماج میں دیناناتھ جیسیلوگوں کی کمی نہیں۔شہرہویاگاؤں!قصبہ ہویا دیہات۔!گلزارکی یہ مختصرسی کہانی ہمیں بتاتی ہیکہ ہم کس وجہ سیپچھڑے پن کاشکارہیں۔سبب جہیز۔!
جہیزہندوستانی سماج کاایک ایساکینسرہیجوہماری نئی نسل کوتیزی کیساتھ نگل رہاہے۔زندہ درگورکررہا ہے۔غریب اورمتوسط طبقہ کی بچیاں والدین پربوجھ بنتی جارہی ہیں۔شادی کی عمریں نکل جاتی ہیں،بالوں میں سفیدی آجاتی ہیاورآنکھوں کیساریسہانیخواب مر جاتیہیں۔اس دورکاخودغرض،وحشی اوربدترین سماج بچیوں کوجرم کی طرح دیکھتاہیاورغریب والدین کو مجرم کی طرح۔اس ترقی یافتہ عہدِجاہلیت میں بچیوں کاجس طرح استحصال ہورہاہیاس کی مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔حدیہ کہ انھیں پیداہونے سیروکا جاریاہے۔زندہ جلایاجارہاہے۔اوریہ سب کچھ جہیزکے سبب ہورہاہے۔حکومتیں جہیزمخالف قانون بناتی ہیں لیکن وہ خوداس پرعمل کرتی ہیں اورنہ ان کیعوام۔
کہتیہیں کہ قومی ترقی تعلیم میں پوشیدہ ہیلیکن وہ بچیکس طرح تعلیم حاصل کریں جن کیوالدین اور خودان پرکئی بیٹیوں اورکئی بہنوں کابوجھ ہے۔جہیز کیبغیرجن کی شادیاں نہیں ہوسکتیں۔
کسی ملک کی اصل ترقی نیچیسیشروع ہوتی ہیاوراوپرتک جاتی ہے۔جس عمارت کی بنیادکمزورہووہ عمارت مخدوش ہے۔جس دن بھارتی سماج جہیزکی لعنت سیآزادہوگاوہ ملک اورقوم کی اصل ترقی کاپہلا دن ہوگا۔تب غریب بچیپڑھ سکیں گے۔ان کیکاندھوں پرجہیزکابوجھ نہیں ہوگا۔وہ آزادہوں گے۔