گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا..! آہ منور رانا

0
0

حافظ مجاہدالاسلام
عظیم آبادی

جب کبھی اپنی ماں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو بے ساختہ زبان سے یہ کلمات نکلتے ہیں
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اس انوکھے شعر کے تخلیق کار جناب منور رانا ہیں۔ ان کے انتقال کی خبر نے بے چین سا کر دیا ہے، ویسے تو میں مشاعروں کا شوقین نہیں لیکن منور رانا ان شاعروں میں سے ہیں جن کی وجہ سے میں مشاعرے سننے پر مجبور ہو جاتا تھا، اب شاید مشاعرے سے جڑا میرا یہ رشتہ منور رانا کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔
یہ ضروری ہیکہ ہم اس جیسے عظیم شاعر کی زندگی کے بارے میں علم رکھیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ان کے کام اور سوانح کو سونے کے قلم سے بند کریں، بقول منور راناؒ:
کہ تمہاری محفلوں میں ہم بڑے بوڑھے ضروری ہیں
اگر ہم ہی نہیں ہونگے تو یہ پگڑی کون باندھے گا؟
ابتدائی زندگی اور پس منظر
اردو کے نامور شاعر منور رانا اپنے پیچھے گہری اور جذباتی شاعری کا ورثہ چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ 26 نومبر 1952 کو بھارت کے اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے، رانا کا زندگی کے سفر کا انسانی تجربے سے گہرا تعلق تھا۔
ادبی سفر
منور رانا کا ادبی سفر اردو زبان کی بھولبلییا سے شروع ہوا، جہاں انہوں نے زندگی کی پیچیدگیوں سے گونجنے والی اشعار کو نازک انداز میں بُنایا۔ انسانی جذبات، سماجی جدوجہد، اور محبت کے جوہر کی باریکیوں کو بیان کرنے کی ان کی منفرد صلاحیت نے بہت جلد توجہ حاصل کی۔ ہر ایک احتیاط سے تیار کردہ نظم کے ساتھ، رانا اردو ادبی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر گئے۔
قابل ذکر کام
رانا کا کام کئی مجموعوں پر محیط ہے، ہر ایک اس کے گہرے مشاہدات اور انسانی حالت کے لیے گہری ہمدردی کا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں اکثر محبت کی پیچیدگیوں، سماجی مسائل کے وزن، ماں کی محبت، مہاجروں کی تکلیف اور انسانی جذبات کے کلیڈوسکوپ کو تلاش کیا جاتا ہے۔ ان کی مشہور ترین تصانیف میں ”مہاجرنامہ،” ”سہد پار،” ”دوسرا بنواس” اور ”ماں” شامل ہیں۔
منور رانا کی کچھ انوکھے اشعار
منور رانا کو یاد کرتے ہوئے، آئیے ان لازوال اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے اردو ادب پر نمایاں نقوش چھوڑے ہیں:
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
نکلنے ہی نہیں دیتی ہیں اشکوں کو مری آنکھیں
کہ یہ بچے ہمیشہ ماں کی نگرانی میں رہتے ہیں
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
گڑگڑائے نہیں ہاں حمد و ثنا سے مانگی
بھیک بھی ہم نے جو مانگی تو خدا سے مانگی
میرے لہجے کی سفاکی کہ چرچے عام ہیں اتنے
کئی دن تک تو اک تلوار نسخہ پوچھنے آئی
ایوارڈز اور پہچان
اپنے شاندار کیریئر کے دوران، منور رانا نے اردو ادب میں ان کی نمایاں خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے متعدد ایوارڈز اور اعزازات حاصل کیے۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ: منور رانا کو اردو ادب میں ان کی شاندار خدمات کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا، جو ہندوستان کا سب سے باوقار ادبی اعزاز ہے۔
یش بھارتی ایوارڈ: یہ ایک باوقار ایوارڈ ہے جو حکومت اتر پردیش، ہندوستان کی طرف سے ان افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے فن، ادب، سائنس اور دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ منور رانا یش بھارتی ایوارڈ کے وصول کنندہ رہے ہیں۔
سرسوتی سمان: منور رانا کو ان کے شعری مجموعے ”شہدبا” کے لیے سرسوتی سمان سے نوازا گیا، جو ہندوستان کا ایک اور باوقار ادبی ایوارڈ ہے۔
یہ اور ان جیسے بہت سے اعزازات منور رانا نے اپنی نظم و نثر کی بنیاد پر حاصل کیے۔
اردو ادب پر اثرات
منور رانا کا اردو ادب پر اثر زبان و ثقافت کی حدود سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی شاعری لسانی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے متنوع سامعین کے دلوں میں گونجتی ہے۔ رانا نے ادبی دنیا میں ایک محبوب شخصیت کے طور پر اپنا مقام مضبوط کیا۔
ذاتی زندگی اور میراث
ادب کے دائرے سے ہٹ کر، منور رانا کی زندگی ماں کی بے پایاں محبت سے نشان زد تھی اور پاکستان سے آنے کے بعد جب انہوں نے مہاجر نامہ جیسی انوکھی کتاب لکھی تو صرف ہندو پاک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا نے اس کتاب کو دل و جان سے قبول کیا۔ ان کی میراث تحریری کلام سے بہت آگے تک پہنچتی ہے، خواہشمند شاعروں اور قارئین کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔ وہ اردو ادب پر جو نقوش چھوڑتے ہیں وہ صرف سیاہی اور کاغذ میں نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر بھی ہے جنہوں نے ان کی نظموں میں سکون اور الہام پایا۔
تعزیت اور یادگاریاں
منور رانا کے انتقال کی خبر نے دنیا بھر کی ادبی شخصیات، برادریوں اور مداحوں کو تکلیف دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم لوگوں کے لیے اپنی پسندیدہ اشعار کا اشتراک کرنے کے لیے ایک مجازی اجتماع کی جگہ بن گیا ہے، جو ان کی شاعری کے ان کی زندگیوں پر گہرے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔
منور رانا کی رخصتی اردو ادب میں ایک دور کے خاتمے کی علامت ہے۔ ان کے اشعار امر ہیں، ان شاء اللہ یہ آنے والی نسلوں کے ساتھ گونجتے رہیں گے۔ اردو شاعری میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا