کے پیش نظر ریل خدمات کو قریب چھ مہینوں تک معطل رکھا گیا تھا۔  ’جنگ بندی کاخاتمہ ‘ اب تک 11 جنگجو، 4 عام شہری اور 2 پولیس اہلکار ہلاک 

0
0
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں ’رمضان سیز فائر‘ کے خاتمے کے دن (17 جون 2018 ء) سے لیکر اب تک شورش کے قریب ایک درجن واقعات میں 11 جنگجو، 4 عام شہری اور 2 ریاستی پولیس کے اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ مہلوک جنگجوؤں میں لشکر طیبہ کا ڈویژنل کمانڈر شکور احمد ڈار اور اسلامک سٹیٹ جموں وکشمیر کا مبینہ سربراہ داؤد احمد صوفی عرف داؤد سلفی بھی شامل ہیں۔ مسلح جھڑپوں کے دوران ایک جنگجو کو زندہ بھی گرفتار کیا گیا۔ تاہم پڑھے لکھے نوجوانوں کا جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بتادیں کہ مرکزی حکومت نے 16 مئی کو وادی میں جنگجوؤں کے خلاف جاری آپریشن آل آوٹ اور کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز پر روک لگاتے ہوئے رمضان المبارک کے دوران سیکورٹی فورسز کے آپریشنز کو معطل رکھنے کا اعلان کیا ۔ تاہم جنگجوؤں کی طرف سے حملے کی صورت میں سیکورٹی فورسز کو جوابی کاروائی کا حق دیا گیا۔ جنگ بندی کے ٹھیک ایک ماہ بعد 17 جون کو مرکزی وزارت داخلہ نے اس کے خاتمے کا اعلان مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا۔ اس حوالے سے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا گیا تھا ’حکومت ہندوستان نے جموں وکشمیر میں سیکورٹی فورسز کے آپریشنز پر لگی روک میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جنگجوؤں کے خلاف آپریشنز اب بحال ہوں گے‘۔ اس اعلان کے بعد سے اب تک وادی میں کم از کم 11 جنگجوؤں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ مسلح تصادم کے مقام پر سیکورٹی فورسز کی آزادی کے حامی مظاہرین اور کراس فائرنگ میں چار عام شہری ہلاک جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگجوؤں کے حملے میں ریاستی پولیس کے 2 اہلکار ہلاک جبکہ مختلف سیکورٹی اداروں بشمول سی آر پی ایف، فوج اور ریاستی پولیس کے قریب دو درجن اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ دس دنوں کے دوران وادی میں قریب دو درجن مقامات پر فورسز کی جانب سے کارڈن اینڈ سرچ آپریشن چلائے گئے جن میں سے قریب پانچ سرچ آپریشن مسلح تصادم میں تبدیل ہوئے۔ ’رمضان سیز فائر‘ کے خاتمے پر پہلا مسلح تصادم 18 جون کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے پانار جنگل میں ہوا جس میں دو جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔ پانار جنگل میں جنگجو مخالف آپریشن دراصل 9 جون کو شروع کیا گیا تھا۔ 18 جون سے قبل 14 جون کو جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین گولہ باری کا تبادلہ ہوا تھا جس میں دو جنگجو اور ایک فوجی اہلکار مارے گئے تھے۔ 18 جون کو جہاں بانڈی پورہ کے پانار جنگل میں دو جنگجو مارے گئے وہیں جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں سیکورٹی فورسز نے احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ کرکے اعجاز احمد بٹ نامی نوجوان کو ہلاک کیا۔ 19 جون کو ضلع پلوامہ کے ترال میں مسلح تصادم ہوا جس میں جیش محمد سے وابستہ تین جنگجو مارے گئے۔ مسلح تصادم کے دوران چار فوجیوں سمیت قریب 6 سیکورٹی فورس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ 20 جون کو جنگجوؤں نے ضلع پلوامہ کے گالندر میں ایک پولیس گاڑی پر فائرنگ کرکے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک جبکہ دو دیگر کو زخمی کردیا۔ 22 جون کو ضلع اننت ناگ کے سری گفوارہ میں مسلح تصادم کے دوران 4 جنگجو، ایک عام شہری اور ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ جھڑپوں میں درجنوں عام شہری زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے شاہد نذیر حجام نامی ایک نوجوان 23 جون کو سری نگر کے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ اسی روز جنگجوؤں نے پلوامہ کے ترال میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناکر گرینیڈ پھینکا جس میں سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس کے 10 اہلکار زخمی ہوئے۔ 23 جون کو ضلع کولگام کے کیموہ میں مسلح تصادم ہوا جس میں لشکر طیبہ کے ڈویژنل کمانڈر شکور احمد ڈار سمیت 2 جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔ مسلح تصادم کے دوران ایک جنگجو کو زندہ گرفتار کیا گیا۔ مسلح تصادم کے مقام پر احتجاجی نوجوانوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک نوجوان ہلاک جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا