کیا لوٹ رہا ہے مخلوط حکومتوں کا دور

0
0

 

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
نریندرمودی 72 وزراء کے ساتھ وزیراعظم کا حلف لے چکے ہیں ۔ لیکن یہ تیسری پارٹی کیسی رہے گی اس کا اندازہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے ۔ 4 جون کو دیر شام تک آئے نتائج سے یہ صاف ہو گیا تھا کہ نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا حلف لیں گے ۔ این ڈی اے کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد بھلے ہی حکومت بنانے کے لئے کافی ہے ۔ لیکن عوام کا فیصلہ نریندرمودی کی سربراہی والی حکومت کے جاری رہنے کے حق میں نہیں تھا ۔ اس الیکشن میں عوام نے کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں دی ۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی ۔ بی جے پی اور نریندرمودی کو گزشتہ دس برسوں کے دوران ایک بار بھی این ڈی اے کی یاد نہیں آئی ۔ بلکہ انکی اکثریت نوازی، انتخابی کامیابی، من مانی اور تکبر سے ایسا لگتا تھا کہ ملک میں مخلوط حکومت کے دن لد گئے ۔ مودی کے طرز حکمرانی نے ہم وطنوں کو بتا دیا کہ اکثریت ملک کے سربراہ کو کتنا مطلق العنان بنا سکتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بھارت جیسے تکثیری ملک کے لئے، موجودہ حالات میں، ایک پارٹی کی مکمل اکثریت والی حکومت بہتر نہیں ہے ۔ 18 ویں لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج نے بھاجپا کو این ڈی اے زندہ کرنا پڑا ۔ نریندرمودی جو کیمرے کے فریم میں کسی کو برداشت نہیں کرتے تھے آج نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو کو ساتھ لینے کے لئے مجبور ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے ان دونوں کو ذلیل کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ توڑ پھوڑ اور ساتھیوں کی زمین پر قبضہ کرنا بھی بی جے پی کی فطرت رہا ہے ۔ ایسے میں اتحادی ساتھیوں کو لے کر نریندرمودی کیسے حکومت چلاتے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا ۔ ویسے اگر اتحادی حکومتوں کے بارے میں پائے جانے والے تعصبات اور تاریخی کمیوں کو چھوڑ دیا جائے تو ان سرکاروں نے ملک کے مفاد میں کئی اہم قدم اٹھائے ہیں ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت جس نے دو میعاد پوری کی تھی، وہ بھی اتحاد ہی تھا ۔ ایک ایسا اتحاد جس نے اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کو بے دخل کر دیا تھا ۔ اپنی اجارہ داری کی خواہش میں مودی نے جہاں ایک طرف اپنی مخالف جماعتوں کا صفایا کرنے کی کوشش کی وہیں دوسری طرف اپنے اتحادیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی ۔ کئ پارٹیوں کے تو ٹکڑے بھی کر دیئے ۔ بی جے پی کے ہندوتوا وادی عزائم اور مودی کی متعلق العنانی کے رجحانات نے کام کرنے والے ہم آہنگ نظام کو تباہ کر دیا ۔ پہلی میقات (2014-19) انہوں نے اتحادیوں کے ارکان کا کسی حد تک احترام کیا اور انہیں اقتدار میں حصہ بھی دیا لیکن دوسری مدت میں جب انہیں اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت حاصل ہوئی تو انہوں نے نہ صرف ان پارٹیوں کو کنارہ کش کر دیا بلکہ ان کی زمینوں پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ مہاراشٹر میں شیوسینا ٹوٹ گئی اور اس کی حکومت گرادی گئی ۔ پنجاب میں شرومنی اکالی دل کے ساتھ ان کا ناتا ٹوٹ گیا ۔
ملک نے پہلی مرتبہ 1977 میں جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت دیکھی تھی ۔ مرارجی ڈیسائی اس کے وزیر اعظم تھے ۔ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکی ۔ وسط مدتی انتخابات ہوئے اور اندرا گاندھی 1980 میں اقتدار میں واپس آئیں ۔ اس سے پہلے چودھری چرن سنگھ کی حکومت بھی کانگریس کی حمایت سے کچھ عرصے کے لئے بنی تھی لیکن وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکی ۔ جس کی وجہ سے مخلوط حکومتوں کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں خدشات پیدا ہو گئے ۔ یہ مان لیا گیا کہ ایسی حکومتیں پائیدار نہیں ہوتیں۔
اگرچہ اس کی بڑی وجہ مفادات کا ٹکراؤ اور وزیراعظم کے طور پر تاریخ میں نام درج کرانا تھا ۔ ایک اور موقع 1989 میں آیا جب راجیو گاندھی کی 400 کا ہندسہ عبور کر چکی مضبوط حکومت بوفورس کی وجہ سے بدنام ہو گئی تھی ۔ وی پی سنگھ اس حکومت میں وزیر خزانہ اور وزیر دفاع تھے ۔ انہوں نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ راجیو گاندھی کے ساتھ ہوئی ذاتی گفتگو کو انہوں نے اپنی بے عزتی تصور کیا اور چیلنج کے طور پر وی پی سنگھ نے نئی پارٹی جنتا دل تشکیل دی ۔ اس نئی پارٹی نے کانگریس کو شکست دی، حالانکہ الیکشن میں کانگریس کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں لیکن یہ 1984 کے مقابلے میں بہت کم تھیں ۔ راجیو گاندھی نے اسے اخلاقی شکست سمجھا اور حکومت بنانے سے انکار کردیا ۔ وی پی سنگھ آگے بڑھے بی جے پی اور کچھ ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ۔ منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ کی وجہ سے بی جے پی نے اپنی حمایت واپس لے لی جس کی وجہ سے یہ حکومت گر گئی ۔ مگر او بی سی کے لئے ریزرویشن کا راستہ اس اتحادی حکومت میں ہی کھلا ۔ اسی کے بعد ذات پر مبنی سیاست کا آغاز ہوا ۔ چندر شیکھر کچھ وقت کے لئے وزیر اعظم بنے ۔ وہ کانگریس کی حمایت سے بھاگے لیکن کانگریس نے ہریانہ پولیس کے دو کانسٹیبلوں کے ذریعہ راجیو کے بنگلے کی جاسوسی کے الزام پر اپنی حمایت واپس لے لی ۔ اس ملک میں اندرکمار گجرال اور ایچ ڈی دیوے گوڑا جیسے حضرات نے بھی مخلوط حکومت کامیابی کے ساتھ چلائی ۔
اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں پہلی 1999 سے 2004 تک اپنی مدت پوری کرنے والی مخلوط حکومت ہی تھی ۔ تاہم اس سے قبل وہ ایک بار 13 دن اور دوسری بار 13 ماہ تک مخلوط حکومتیں چلا چکے ہیں ۔ ان کی حکومت دو بار ضرور گر گئی لیکن یہ اتحاد اٹوٹ رہا، اتحادی ساتھ رہے ۔ اس نے جمہوریت کا یہ پیغام دیا کہ بھلے ہی شکست سے دوچار ہونا پڑے مگر مل کر حکومت بنانے کی کوششیں کرتے رہنا چاہئے ۔ واجپائی ایک کٹر ہندو اور نریندر مودی کی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرشار کارکن تھے ۔ لیکن جب تک انہوں نے حکومت چلائی اپنے نظریہ کو ایک طرف رکھا ۔ انہوں نے جارج فرنانڈس، نتیش کمار، شرد یادو جیسے سوشلسٹوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا، پاکستان کا سفر کیا ۔ گودھرا کے واقعے کے بعد ہوئے فسادات میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی موت ہوئی اورانہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس وقت واجپئی جی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو راج دھرم کی پیروی کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہوئے معاہدے کے مطابق رام مندر، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 کو ہٹانے پر نہ کبھی بات کی اور نہ ہی اپنے انتخابی منشور میں اسے اہمیت دی ۔ حالانکہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں یہ مدے شروع سے ہی شامل ہیں ۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں یہ غلط فہمی بھی دور ہوئی کہ مخلوط حکومتیں کام نہیں کرتیں ۔ دیہی غربت کو دور کرنے کے لئے منریگا، خوراک کا حق، معلومات کا حق، تعلیم کا حق جیسے منفرد پروگرام اس مخلوط حکومت کے ہی تحفے ہیں ۔ لہٰذا، ایسے وقت میں جب مطلق اکثریت کی عدم موجودگی میں کوئی بھی اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بنا سکتا، یہ واضح ہے کہ طاقت کا استعمال مل جل کر ہی کیا جانا چاہئے ۔ ویسے بھی جمہوریت کا مطلب ہے مل کر کام کرنا ۔ نریندر مودی کو مل جل کر کام کرنے کی عادت نہیں ہے ۔ ان کے لئے اتحاد کا کلچر سیکھنا ضروری ہے ۔ واجپائی اور منموہن سنگھ جیسی لچک اور فراخدلی نریندرمودی میں نہیں ہے ایسے میں ان کی اتحادی حکومت غیر مستحکم ہو سکتی ہے ۔ پھر ان کے ایک ساتھی اپنی ریاست میں مسلمانوں کو چار فیصد ریزرویشن دے رہے ہیں ۔ انہوں نے مساجد کے رکھ رکھاؤ اور ائمہ کی تنخواہیں دینے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ جبکہ بی جے پی، مودی، امت شاہ اور ان کی ٹیم نے پورے الیکشن میں مسلمانوں کے ریزرویشن کی زور دار مخالفت کی ہے ۔ دوسری طرف نتیش کمار ہیں جو ذات پر مبنی مردم شماری کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں ۔ جبکہ بی جے پی اس سے بھاگتی رہی ہے ۔ پھر اس حکومت میں اتحادیوں کو غیر اہم وزارتیں دی گئی ہیں ۔ اس کی وجہ سے این ڈی اے کے درمیان اختلاف کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ بی جے پی وزیر داخلہ، وزیر خزانہ، وزیرخارجہ، وزیر دفاع کے ناموں کا اعلان کر چکی ہے ۔ وہ اسپیکر کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے ۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ڈی پی اسپیکر اور کئی اہم وزارتوں کا خوہشمند ہے ۔ نتیش کمار سے مرکزی حکومت نے جو وعدے کئے ہیں وہ انکے پورا ہونے کا انتظار کریں گے ۔ ان کا آئندہ کیا رخ ہوگا اس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا ۔ اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے حالات یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک اتحادی حکومت کے راستہ پر چل پڑا ہے ۔ جو جمہوریت کی فطرت کے مطابق اور ملک کے مفاد میں ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا