سید واصف اقبال گیلانی
کیا دین فرقوں کی جاگیر ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کے ذہنوں میں گردش کرتا رہا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے، ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ "فرقہ” کے معنی کیا ہیں؟ فرقہ ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی مشترکہ عقیدہ، نظریہ یا عمل کے ذریعے متحد ہوتا ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو وحدت اور اتفاق پر زور دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور متفرق نہ ہو جاؤ۔ یقیناً اللہ ان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا جو فرقہ بندی کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، تاریخ میں اسلام میں بہت سے فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ ان فرقوں کی کثرت نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان فرقوں کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں، کچھ اختلافات پیدا ہوئے جن کے نتیجے میں مختلف فرقوں کی تشکیل ہوئی۔ تاہم، یہ اختلافات اکثر جزئی تھے اور ان کے نتیجے میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔تاہم، بارہویں صدی کے بعد، فرقوں میں تشدد اور نفرت کا رجحان بڑھتا گیا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ اس دور میں اسلام کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مذاہب بھی پھیل رہے تھے۔ اس سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے فرقے کے امتیاز کو اجاگر کرنے کا رجحان بڑھا۔ اسلام میں فرقوں کی موجودگی کے متعدد نقصانات ہیں۔ ان میں سے کچھ نقصانات یہ ہیں:فرقے امت مسلمہ میں اتحاد کو کمزور کرتے ہیں۔فرقے نفرت اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔فرقے اسلام کے بنیادی عقائد کو گمراہ کر سکتے ہیں۔یہ موضوع آج اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ یہ امت مسلمہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ فرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کی کمی آئی ہے، جس سے مسلمانوں کو دنیا میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تو کیا دین فرقوں کی جاگیر ہے؟ اس سوال کا ایک آسان جواب نہیں ہے۔ اسلام ایک توحید پسند مذہب ہے، جو وحدت اور اتفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ تاہم، مسلمانوں کے درمیان فرقوں کا وجود ایک حقیقی حقیقت ہے۔
اس موضوع پر غور و فکر کرنا اور اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے۔
اسلام میں فرقوں کے خاتمے کا ایک واحد حل یہ نہیں ہے کہ تمام مسلمان کسی ایک فرقے میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بجائے، اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اختلافات کو برداشت اور احترام سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:”اور اگر تم اختلاف کرو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔” (سور النساء ، آیت ۹۵)اس آیت کی روشنی میں، مسلمانوں کو اختلافات کو حل کرنے کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات کی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور تحمل کا سلوک کرنا چاہیے۔ صرف اس طرح ہی امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور فرقوں کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔اسلام کیا ہے؟ اسلام ایک توحید پسند مذہب ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اللہ کی یکتائی پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں اللہ پر ایمان، آخرت پر ایمان، پیغمبر محمد پر ایمان اور قرآن کی وحی پر ایمان شامل ہیں۔ اسلام میں، دین ایک مکمل نظام زندگی ہے، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کو ایک صالح زندگی گزارنے، ایک صالح معاشرہ بنانے اور ایک صالح دنیا بنانے کی تعلیم دیتی ہیں۔فرقے کیا ہیں؟ فرقہ ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی مشترکہ عقیدہ، نظریہ یا عمل کے ذریعے متحد ہوتا ہے۔ اسلام میں، فرقے دو قسم کے ہوتے ہیں:فقہی مکاتب: یہ وہ مکاتب ہیں جو اسلامی شریعت کے مختلف شعبوں میں مختلف طریقوں سے اجتہاد کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی فقہی مکاتب ہیں۔عقائدی فرقے: یہ وہ فرقے ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شیعہ اور سنی عقائدی فرقے ہیں۔تاہم، فقہی مکاتب اور عقائدی فرقوں کے درمیان کچھ بنیادی فرق ہیں: فقہی مکاتب اسلامی شریعت کے مختلف شعبوں میں اجتہاد کے مختلف طریقوں پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر، حنفی مکتب اجتہاد میں اجماع اور قیاس کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، جبکہ مالکی مکتب اجتہاد میں سنت اور اجماع کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ عقائدی فرقے اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شیعہ عقیدہ کے مطابق، حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں، جبکہ سنی عقیدہ کے مطابق، پہلے چار خلفاء راشدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں۔اسلامی تاریخ میں، فرقوں کی تشکیل میں کمزور احادیث کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے۔ کمزور احادیث وہ احادیث ہیں جن کی صحت کے لیے ضروری شرائط پوری نہیں ہوتیں۔
ایسی احادیث سے بعض اوقات غلط اور گمراہ کن عقائد پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض کمزور احادیث سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اس طرح کی احادیث نے فرقوں کے درمیان نفرت اور تشدد کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔اسلامی علماء نے فرقوں کی تفریق پر مختلف نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ بعض علماء نے فرقوں کو ایک نقصان سمجھا ہے، جبکہ بعض نے فرقوں کو ایک ضرورت قرار دیا ہے۔ فرقوں کو نقصان سمجھنے والے علماء کا خیال ہے کہ فرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کی کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ، فرقوں نے نفرت اور تشدد کو فروغ دیا ہے۔ فرقوں کو ضرورت سمجھنے والے علمائ کا خیال ہے کہ فرقوں کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے اسلامی علم و دانش میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، فرقوں نے مسلمانوں کو اپنے عقائد پر غور و فکر کرنے اور اپنے دین کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔فقہی مکاتب اور عقائدی فرقے اسلام کا ایک حقیقی حصہ ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ فرقوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے لیے، مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اختلافات کو برداشت اور احترام سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔اسلامی تاریخ میں، فرقوں کی تفریق پر مختلف اسلامی علماء نے مختلف نقطہ نظر اختیار کیے ہیں۔ مزید برآں، بعض علماء نے فرقوں کو ایک نقصان سمجھا ہے، جبکہ بعض نے فرقوں کو ایک ضرورت قرار دیا ہے۔ابن تیمیہ (۸۲۷-۱۶۶ھ) نے فرقوں کو ایک نقصان سمجھا اور ان کی مذمت کی۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کی کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ، فرقوں نے نفرت اور تشدد کو فروغ دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن قیم (۱۵۷-۳۱۷ھ) نے بھی فرقوں کو ایک نقصان سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے اسلام کے بنیادی عقائد گمراہ ہو سکتے ہیں۔ مفکر اسلام، علامہ اقبال (۸۳۹۱-۷۷۸۱ء ) نے بھی فرقوں کو ایک نقصان سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد اور محبت کی کمی آئی ہے۔ فرقوں کو نقصان سمجھنے والے علماء علماء میں سے ایک امام احمد بن حنبل ہیں، جو حنفی مکتب فکر کے بانی ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:”فرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کا خاتمہ ہو گیا ہے۔”ایک اور عالم امام شافعی ہیں، جو شافعی مکتب فکر کے بانی ہیں۔ امام شافعی کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے مسلمانوں کی عظمت اور اقتدار میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے فرمایا:”فرقوں کی وجہ سے مسلمانوں کی عظمت اور اقتدار میں کمی آئی ہے اور دنیا میں ان کی عزت جاتی رہی ہے۔”امام غزالی (۵۰۵-۰۵۴ھ) نے فرقوں کو ایک ضرورت سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے اسلامی علم و دانش میں اضافہ کیا ہے۔
علامہ ابن رشد (۵۹۵-۰۲۵ھ) نے بھی فرقوں کو ایک ضرورت سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں نے مسلمانوں کو اپنے عقائد پر غور و فکر کرنے اور اپنے دین کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی (۱۶۵-۰۷۴ھ) نے فرقوں کو ایک ضرورت سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرقوں کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔فرقوں کے منفی اثرات اور امت مسلمہ کے لیے ان کے نقصانات درج ذیل ہیںفرقوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کی کمی آئی ہے۔ فرقے ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دیتے ہیں، جس سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ فرقوں کی وجہ سے نفرت اور تشدد کو فروغ ملتا ہے۔ فرقے ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دیتے ہیں، جس سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔فرقوں کی وجہ سے اسلام کے بنیادی عقائد گمراہ ہو سکتے ہیں۔ فرقے مختلف عقائد رکھتے ہیں، جن میں سے کچھ عقائد غلط اور گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ فرقوں کی وجہ سے علمی تحقیق اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ فرقے ایک دوسرے کے کام کو قبول نہیں کرتے، جس سے علمی تحقیق اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے-