’’ کیا درس دیا گیا تھا ہم کو اور ہم کس طرف جا رہے ہیں ‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی

رب کائنات کی طرف سے دین حق پر پیدائش کے باوجود ہم اپنے کردار و عمل کا تضاد دور نہیں کر پا رہے ہیں اور دورِ حاضر کی منافقانہ چالوں کی لپیٹ میں آکر بحیثیت مسلمان اپنی دینی اقدام سے بہت دور ہیں ۔ جس کی وجہہ سے معاشرے میں ہمارے قول و فعل کا تضاد نمایاں نظر آتا ہے ۔ یہاں اگر یہ کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہی دورنگی ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے جا رہی ہے اور ہمیں اس بات کا کوئی احساس ہی نہیں کہ عالمی سطح پر یہود و انصاری کی سازشوں کا تسلسل ہی امت مسلمہ کو راہِ حق سے دور کر کے گمراہی کے اندھیروں میں غرق کر نا ہے ۔ مگر ہم اپنے دنیا میں آنے کی ہی اہمیت کو فراموش کر کے دوسروں کے دست نگر بن چکے ہیں ، یہی وجہہ ہے کہ آج دنیا میں آپ جس طرف بھی نظر ڈالیں آپ کو مسلمان مختلف انواع کے مسائل ، مشکلات، پریشانیوں اور اسی قبیل کی دیگر چالوں کا شکار نظر آئینگے ۔
دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ یہود و نصار ی کا ناروا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، جس قدر اور جہاں تک ممکن ہو سکا اسلام دشمن عناصر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر نے کے لئے تمام اخلاقی ، مذہبی ، معاشرتی ضوابط کو روند کر مصروف عمل ہیں اور مسلم ممالک کے خلاف باقاعدہ محاذ قائم کر کے منفی روایات کی آبیاری کی جا رہی ہے ۔ ایک طرف کشمیر میں ظلم و بر بریت کی نئی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف فلسطین میں مسلمانوں پر ہو نے والے ستم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اسی طرح دنیا میں جہاں بھی نظر ڈالیں ہر طرف مسلمان ہی مشق ستم بنے دکھائی دیتے ہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق اور آفاقی آئین ہے جو دنیا میں آنے والے آخری انسان تک ہر خاص و عام کے لئے ذریعہ ہدایت و رہنمائی ہے اور اس کے بعد کسی اور ضابطہ یا قانون کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ مگر افسوس کہ ہم اس شعور سے عاری ہو چکے ہیں کہ جو ہمیں ان مسائل کا شکار بتا کر ان کے حل کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات کی تکمیل کے لئے تیار کر دے ۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ، یہود و نصارکبھی بھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں رہے اور اسلام سے تو انہیں ازلی بیر ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ متعدد قرآنی آیات اورا حادیث مبارکہ میں بھی واضح بیان ملتا ہے مگر ہم نے قرآن و حدیث کے حوالہ جات سے خود کو مبرا جا نتے ہو ئے اس کے دوسروں پر اطلاق کو ہی دین سمجھ لیا ہے ۔ معاشرہ میں جس طرف بھی نظر ڈالیں اسلامی احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی معمول بن چکی ہے ۔
آج ہمارے سینے قرآن پاک کو حر ف بہ حرف سموئے ہو ئے ہیں مگر پھر بھی ہم دنیا میں ناکام اور شکست خوردہ ہیں ، جبکہ دیگر مذاہب ہم سے زیادہ تر قی یافتہ اور منظم ہے اور مسلمان اپنی مستحکم جگہ بنانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کو جنگ و جدل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن افسوس دنیا کی دوسری بڑی قوم ہو نے کے باوجود یہود ، نصاری اب بھی ہم پر مسلط ہیں اور ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ گستاخانہ حرکات و سکنات پر بھی کوئی سنوائی نہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ بحیثیت مسلم ہم اپنی سالمیت منوانے میں ناکام کیوں ہیں ؟ کیا ہم میں دوسری قوم کے مقابلے اہلیت نہیں یا ہم اپنی ارتقاء اور اہداف کو نظر انداز کر ہے ہیں ؟ اس کا صرف ایک جواب ہے کہ ہم نے اپنے دین کو فراموش کر کے سیرت رسولﷺ کو بھلا دیا ہے ۔ ہم بھول چکے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے کا میاب زندگی کے ساتھ ساتھ کا میاب ریاستی نظام کو مرتب کیا ، آپﷺ بہترین منتظم تھے ۔ آپ ﷺ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ تھے ، ساسی ، سماجی اور سربراہی ہر لحاظ سے اکمل تھے ۔ اس کی شہادت ابو طالب سے لے کر مائیکل ہارٹ تک ، ہر قل روم سے لے کر جان کیٹنگ تک ، قریشی سردار سہیل سے لے کر روبو زول اسمتھ تک ، چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ڈاکٹر روون ولیمز سے لے کر کیرن آرم اسٹرانگ تک ، ایلفرڈ کولیم ، ہٹنگمری ، ول ڈیوراں ، سرو لیمیور، جے ایچ ڈینسن ، جان ڈیون پورٹ یہ اور ان جیسے بیسیوں یوریپن اسکالر اور متشرقین ہیں جو آپ ﷺ کی شان اقدس میں مدح سرائی کر تے نظر آتے ہیں ۔
افسوس صد افسوس ایک ہم مسلمان جن کے پاس تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں تو ہاتھوں میں آگئی مگر آداب کی ڈگری بھول گیا ۔ انگلش کی روانی تو زبان پر جاری ہو گئی مگر تلاوت کلام پاک سے محروم ہو گیا ۔ سوشل میڈیا کی دھوم تو مچ گئی مگر انسانیت کی اقدار ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ۔ پیسہ دولت کی ریل پیل تو ہو ئی مگر یتیم اور غریب کو بھول کر رہ گیا ۔ یہ کیا ہو گیا ہے ہم مسلمانوں کو ؟ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم امتی کس کے ہیں ؟ کیا درس دیا گیا تھا ہم کو اور ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ آج ہماری حالت اتنی بدتر ہو گئی ہے کہ صرف اسلام کی دوری کی بنا پر دور حاضر میں ہم یہود و نصاریٰ کے دست نگر بن کر زندگی بسر کر نے پر مجبور ہو چکے ہیں جو کہ اسلام دشمن عناصر کے نا پاک منصوبوں کے عین مطابق اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے منافی ہے ۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام دشم عناصر کی طرف سے پہنائی ہو ئی غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں رکھیں ۔ اگر آج بھی امت مسلمہ اپنی وجود کی بقا چاہتی ہے تو اس کو اپنی صف میں متحد ہو کر سیرت رسول ﷺ کی پیروی کر نی ہو گی ۔ ہر اس قانون کو ماننا ہو گا اور ان کے ہر پہلو کی تقلید کر نی ہو گی جس سے انسانیت کو معراج ملا ، بلا تفریق اتحاد قائم کر کے ایک طاقت بننا پڑے گا ، کلمہ حق کو بلند کر نا ہو گا ، وقت کی ضرورت اور حکمت سے کام لینا ہو گا ، محبت اور اخوت کا دامن تھامنا ہو گا ، علم اور فہم سے وقت کی ڈور کو تھامنا ہو گا ، اپنے اندر سے احساس کمتری کی فضا کو چاک کر نا پڑے گا ۔ گو کہ مسلمانوں کے لئے یہ دور بڑا کٹھن ہے کیونکہ ہم کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے کمزور کر دیا گیا ہے ۔ مگر ہم چاہیں تو سیرت مصطفیٰ ﷺکو تھام کر ایک جگہ متحد ہو کر دوبارہ مضبوط اور طاقتور قوم بن سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے رب نے ہم سے ہماری کا میابی کا وعدہ کر رکھا ہے ، گوکہ ہم اپنے اعمال میں صالح ہو ں اور اپنے نبی پاک ﷺ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عزیز قوم میں شامل ہو جائیں ۔ چلیں ایک بار پھر ہم امن کا پیغام دے کر بھائی چارہ کی فضا قائم کر تے ہیں ، معاشرے میں انسانیت کا بول بالا کر تے ہیں ، خود کو ایک صف میں لا کر صرف مسلمان کر چھوڑتے ہیں اور خود کو آقاء مولا کے دین کا پیروکار بناتے ہیں ۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو وہ وقت دور نہیں جب دنیاکے مختلف خطوں ، گروہوں اور مذہبی و لسانی تعصیات سے نکل کر دنیا میں اپنی عظمت رفتہ سے ہمکنار ہو سکینگے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی عمل ہمارے لئے دونوں جہانوں میں حقیقی کا میابی و کامرانی کا باعث ہو گا و گر نہ ذلت ، رسوائی اور گمراہی ہمارا مقدر بنی رہے گی اور کوئی پرُ سان حال نہ ہو گا ۔
6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا