ایم شفیع میر
رشتوں کا اک روپ مطلب پرستی ہے،کٹھ پتلی کی طرح جی حضوری کرتے رہو تو سب ٹھیک ورنہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔رشتے کسی بھی نوعیت کے ہوں تمام رشتوں کی چمک دھمک تبھی تک قائم رہتی ہے جب تک اِن رشتوں کے پیچھے مفاد پرستی یا مطلب پرستی کا عنصر نہ ہو، بغیر مطلب پرستی کے رشتوں کو پروان چڑھا نا یا رشتوں کا بنے رہنامشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن سی بات ہے۔یعنی سب کچھ اْلٹا ہو رہا ہے۔انسان رشتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے کام نہیں اتا بلکہ کام کی بنیاد پر رشتے استوار کرتا اور نبھاتا ہے اور پھر اِن رشتوں میں حقیقت بھی اِسی حد تک ہوتی ہے کہ جب تک کام ہے یعنی جب تک انسان کسی بھی دوسرے انسان کو اپنے کام کی چیز سمجھتا ہے تب تک ہی وہ رشتے نبھاتا ہے، کام کاوقت ہو گیا ہے تو رشتوں کا اختتام ہو جاتا ہے۔موجودہ دورمیں رشتوں کی حقیقت کو دیکھا جائے تو بھائی بھائی ،باپ بیٹا، بھائی بہن، میاں بیویجیسے عظیم رشتے بھی مطلب پرستی کی بھینٹ چڑھتے نظرآ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھائی بھائی کا نہیں رہتا، بیٹا اپنے ماں باپ کا نہیں رہتا،رشتوں کی اہمیت و افادیت دن بدن مفقود ہوتی جا رہی ہے۔موجودہ وقت کے مشینی دور میں انسان خود ہی ایک مشین کی طرح بن چکا ہے۔ رشتوں کو احساسات، ہمدردی، پیا ر و محبت اور اخلاص کی نیت سے استوار کرنے اور نبھائے جانے کی کوئی مثال باقی نہیں رہی ہے۔مطلب پرستی نے انسان کو اِس قدر سنگدل بنا دیا ہے کہ انسان کے اندر رشتوں سے متعلق احساسات مر چکے ہیں، رشتوں کو اب دکھاوے کے طور نبھایا جاتا ہے بلکہ دکھاوے کے طور پر رشتوں کو استوار کرنا بھی تب ہی بہتر سمجھا جاتا ہے جب کوئی مطلب ہو ،وگرنہ اج کا انسان یوں رشتوں کو نبھاناجہاںفضول مشق کہتا ہے وہیں اپنے لئے نقصاندہ بھی سمجھتا ہے۔موجودہ وقت میں انسان کس قدر رشتوں کی اہمیت ، افادیت ، روحانیت اور مقصدیت کو بھول چکا ہے کہ کبھی انسان دماغ پر زور ڈال کر سوچے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔لیکن انسان نے اپنے اندار جس طرح سے مطلب پرستی کو جگہ دیکررشتوں کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے سمجھنا تو دور کی بات سوچنا بھی ناممکن سا لگ رہا ہے۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عظیم رشتوں کو دکھاوے کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔انسان اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوا ہے کہ ہر رشتے کو نبھانے اور استوار کرنے میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔قارئین کرام جیسا کہ اپ بخوبی واقف ہیں کہ رشتوں کو سمجھنے اور نبھانے میں کس طرح سے غیر ذمہ داری اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اِس کی مثالیں اپ کو سوشل میڈیاسائٹس بالخصوص فیس بک پر دیکھنے کو مل سکتی ہے، جہاں ہر انسان اپنی ایمانداری،بالغ نظری، دور اندیشی، وسیع النظری اور بیباکی کے ڈنڈورے پیٹتا نظر آ رہا ہے لیکن میرے پیارے ، بھائیو!، دوستو اور بزرگو! حقیقی دنیا میں کہانی اِس کے برعکس ہے۔مثال کے طور پر اپ ’’یوم ِ والدہ‘‘یعنی Mothers Dayکی ہی مثال لیجئے۔کیا کہیں ایسا محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا بیٹا ہوگا جو اپنی ماں کی خدمت میں کوتاہی برت رہا ہوگا؟ماں کے حقوق پورے نہیں کررہا ہے ہوگا؟ماں کو اْف تک نہیں کہہ رہا ہوگا؟جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے تو شائد ہی کوئی ایسا شخص اپ کو ملے گا جو اپنی ماں کی خدمت میں کسی قسم کی لاپرواہی اور کوتاہی کا مرتکب پایاگیا ہے۔لیکن جب حقیقی دنیا میں اکر دیکھا جا ئے تو ایسے درندہ نما فرزندان کی بے شمار مثالیں اپ کو ملیں گی جنھوں نے اپنی مائوں سے صرف دوریاں نہیں اپنائی ہیں ، انہیں صرف اپنے سے الگ نہیں کیا ہے بلکہ اْن کا دانہ پانی بند کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں اور یقین جانئے کہ سماج میں ایسے ہی لوگوں کو احترام واکرام سے نوازاجاتا ہے۔
سماج میںپنپ رہی اور پروان چڑھتی مطلب پرستی کو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے جب انسان زمینی سطح پر غور و فکر کرنے کیلئے سنجیدہ ہو جاتا ہے تو ایسے ایسے تجربات اور افسوسناک واقعات سے ا?گاہی ملتی ہے کہ سوچنے پر انسان خود کوبھی گنہگار اور قصوروار ٹھہرائے بغیر نہیں رہ پاتا گرچہ انسان کے اندر اخلاص ، نیک نیتی اور ایمانداری ہو۔ ناچیز ایک مدت سے اِ س موضوع پر لکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہمت نہیں جٹا پاتا تھا کیونکہ غور و فکر اور اپنا محاسبہ کرنے کے بعد جو نتائج سامنے ائے اْس میں ناچیز خود بھی قصور وار پایا گیا۔ میرے نقطہ نظر سے کسی بھی برائی پر قلم اْٹھانے سے قبل انسان کو اپنے اندر جھانک لینا چاہیے کہ کہیں وہ خود اِس برائی کا حصہ تو نہیں، گوکہ کسی حد تک میں بھی اِس برائی کا حصہ ہوں اِس لئے میں نے سمجھا کہ کیوں نہ اپنی ہی برائی پر قلم اٹھا کر حقیقت کومنظر عام پر لایا جائے۔
قارئین کرام معروف شاعر مومن خان مومن نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’ جب دیا رنج بتوں نے
تو خدا یا د ایا‘‘
بے شک جب تک نہ انسان کسی مصیبت یا مشکل دور سے گزرے تب تک انسان کو واقعی خدا کی یاد نہیں اتی۔اِسی طرح سے جب تک انسان اپنی اسائشوں میںمگن ہوتا ہے تو اپنوں کی یاد ہرگز نہیں اتی ، نہہی اپنوں کو اپنانے کا کوئی خیال اتا ہے بلکہ رشتے نبھانا یا استوار کرنا فضول مشق اور بیکار لوگوں کا مشغلہ سمجھا جا تا ہے۔ہاں! کبھی ضرورت پڑے یا کہیں مطلب دکھائی دے توانسان اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی رشتے استوار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
غور طلب ہے کہ ’’یوم ِ والدہ‘‘ بڑے ہی جو ش و خروش سے منایا جاتا ہے لیکن انسان نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کیوں نہیں کی کہ ’’بھلا ماں کا بھی کوئی دن ہوتا ہے،ماں کے بغیر تو کوئی دن،دن ہی نہیں ہوتا‘‘پھر’’یوم والدہ‘‘ منانے کی کیا تْک بندی بنتی ہے۔ کیا ہم اپنی مائوں کے حقوق اور اْن کی خدمت کر کے روز ہی یوم والدہ نہیں منا سکتے؟بالکل اِسی طرح سے جن کے والدین اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں اْنہیں روز ہی یاد کر سکتے ہیںلیکن ہماری مطلب پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے والدین تک کو اپنے مطلب کے مطابق یاد کرتے ہیں اور پھر اْن کے نام پر تعریفیں بٹورتے ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں ہم نہ ہی اپنے والدین کی خدمت گزار ی کو عملی جامعہ پہنا سکتے ہیں اور نہ ہی اِس اہل بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اْن کے نقش و قدم پر چلیں اور اْن کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں۔
ہم جس قدر والدین کے تئیں اپنی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی برت رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ رحم ہے، ہم میں سے جن کے والدین زندہ ہیں تو ہم اْن کی فکر ہر گز نہیں کرتے اور جن کے والدین اِس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے وہ صرف برسیاں بنانے تک محدود ہیں، چلئے اِسی کو مان لیتے کہ کم از کم یوم ِ وفات پر تو ہم اپنے والدین کو یاد کرتے لیکن ہماری بے بسی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم اِس روز بھی قرا?ن خوانی کیلئے مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو اْٹھا لاتے ہیں ، خود ہم اِس روز بھی قران خوانی میں حصہ نہیں لیتے۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہم والدین کے تئیں اپنی محبت کو مصنوعی روپ دیئے ہوئے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کرائے کی یہ قران خوانی والدین کے تئیں ہماری محبت نہیں بلکہ مطلب پرستی اور دکھاوے کا افسوس ناک ثبوت ہے۔اپ نے دیکھا ہوگا کہ ’’یوم پدر‘یعنیFather’s Dayکے موقعہ پر لوگوں نے کس قدر اپنے والدین کی شان میں بہت کچھ لکھا اور سنا ،سوال پیدا ہوتا کہ جو کچھ بھی سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر لکھا اور کہا جا تا ہے کیا عملی دنیا میں اْس کی کوئی مثال دیکھنے کو مل رہی ہے؟ لازماً جواب نفی میں ہی ملتا ہے کیونکہ ہمارے کہنے اور کرنے میں زمین و اسمان کا فرق ہے۔بجائے اِ س کے اپ اخبارات میں دیکھئے روز ہی کسی نہ کسی اخبار میں کسی والد کا اپنے فرزندکیلئے عاقہ نامہ پڑھنے کو مل جاتا ہے جس میں والد نے اپنے بیٹے کی نافرمانی اور والدین کیساتھ مار پیٹ کا ذکر کیا ہوتا ہے۔کیا والدین اتنے سنگدل ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو بغیر کسی جرم کے اتنی بڑی سزا دیں۔نہیں ہرگز نہیں بلکہ بچوں میں والدین کے تئیں محبت اور خدمت میں کوتاہی اور لاپرواہی کی اصل وجہ مطلب پرستی ہے۔جس وجہ سے ہم عارضی طور رشتوں کو استوار کرتے اور نبھاتے ہیں وگرنہ ا ب کے ہمارے سماج ، معاشرے اورگمان میں رشتوں کی اہمیت وافادیت کی تمام اْمیدیں دم توڑتی نظر ا رہی ہے
اس لئے یاد رہے رشتے ضرورت کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عزت اور توجہ چاہتے ہیں۔ اگر احساس انسان کے دلوں سے ختم ہوجائے تو ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کی چبھن انسان کو جینے نہیں دیتی شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے غلط رویوں کی وجہ سے رشتوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر کسی کی غلطیوں کو معاف کرنا پڑے تو فوراً معاف کردینا چاہئے۔ معافی انسان کے دلوں کو صاف رکھتی ہے۔ اگر ہماری زندگی سے اعتبار کا پرندہ ایک بار اڑ جائے تو پھر وہ زندگی بھر لوٹ کر واپس نہیں اتا۔ بڑی محنت اور اعتماد سے خلوص کے اس پودے کو اپنے پیار اور چاہت سے سینچتے ہیں تاکہ یہ ایک مضبوط اور ہرا بھرا درخت بن جائے۔ مگر افسوس صد افسوس برداشت، سمجھ، احساس تو اج کے دور میں ناپید ہوچکا ہے۔ اپنی زندگی میں ان رشتوں کو بھی ساتھ لیکر چلنا چاہئے جن کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ ہماری زندگی ان رشتوں کے بغیر ادھوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتوں کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور پھررشتے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(امین)
9797110175
٭٭٭