مشرف شمسی
آج پورے بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل پر مسلسل بات ہو رہی ہے لیکن اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ھوگا اور بہتر مستقبل بنانے کے لیئے مسلمانوں کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے اس موضوع پر خوب بحث ہو رہی ہے لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات پر ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔دراصل مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کھل کر ظاہر ہو گیا ہے۔حالانکہ اس ملک میں مسلمانوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کی شروعات کانگریس کے دور حکومت سے شروع ہو چکی تھی جب مسلمانوں کو اس سیٹ سے بھی امیدوار نہیں بنایا جاتا تھا جس اسمبلی اور پارلیمانی حلقے میں مسلم ووٹرز تیس سے چالیس فیصدی ہوتی ہیں۔کانگریس اور دوسری سیکولر سیاسی جماعتیں کے غیر مسلم امیدوار اْن حلقے پر بھی نظر رکھتے ہیں جہاں مسلم ووٹ اکثریت میں ہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ مسلم اکثریتی حلقے میں زیادہ تر سیکولر پارٹیاں مسلم امیدوار کھڑے کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی مسلم امیدواروں کی جیتنے کی امیدیں معدوم ہو جاتی ہیں۔مسلمانوں کو کوئی بھی سیاسی جماعتیں غیر مسلم حلقے سے امیدوار بنانے کا جوکھم شاد و نادر ہی اٹھا پاتی ہے۔کیونکہ سیکولر سیاسی جماعتوں کو یہ بالکل بھروسہ نہیں ہوتا ہے کہ کوئی مسلم امیدوار کو سیکولر پارٹیوں کے ہندو ووٹرز اْنہیں ووٹ کریگی۔اسلیئے سیکولر سیاسی جماعتوں کا شاید ہی کوئی امیدوار جیتنے کے لیے غیر مسلم حلقے سے کھڑا ہوتا ہے۔مسلم اکثریتی حلقے میں سبھی سیکولر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مسلم امیدوار کھڑے کر بی جے پی امیدواروں کی جیت کا راستہ بناتی ہے۔اسلئے اس ملک میں کء ایسی ریاستیں ہیں جہاں ایک بھی اسمبلی کا رکن مسلمان نہیں ہے۔اسی طرح کئی بڑی ریاستوں سے لوک سبھا میں ایک بھی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔2014 میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کی نمائندگی ریاستی اسمبلی آور پارلیمنٹ میں بتدریج گھٹتی جا رہی ہے۔مودی 2024 میں بھی بر سر اقتدار آ گئے تو اْتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں سے بھی مسلمانوں کی نمائندگی لوک سبھا میں پہنچ نہیں پائیگی۔آر ایس ایس اپنے بنیاد کے وقت سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ اس ملک کے اقتدار میں مسلمانوں کی حصے داری کو ختم کیا جائے اور آج بہت حد تک آر ایس ایس اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔یہ اس دور میں نہیں بلکہ گجرات جو آر ایس ایس کی لیباٹری رہی ہے شروعات وہاں سے ہوئی ہے۔مودی نے گجرات میں مسلمانوں کی نمائندگی تقریباََ ختم کر دیا ہے۔لوک سبھا میں کئی سالوں سے مسلمانوں کی نمائندگی گجرات سے نہیں ہو پائی ہے بلکہ اب تو کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت مسلمانوں کو لوک سبھا انتخابات میں ٹکٹ تک نہیں دیتی ہے جبکہ بھروچ اور بانس کاتا جیسے علاقے میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔اسّی کے دہائی میں اس حلقے سے مسلم امیدوار کامیاب بھی ہوتے تھے۔آر ایس ایس میونسپل کارپوریشن میں مسلم امیدواروں کی جیت پر کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے لیکن اسمبلی اور لوک سبھا میں مسلمانوں کی جیت آر ایس ایس کو کافی کھٹکتی ہے۔
مودی اگر 2024 میں چناو جیت کر پھر وزیر اعظم بن گئے تو مسلمانوں کو سیاست سے پوری طرح بے وقعت کر دیا جائے گا۔تب مسلمانوں کے لیے صرف ایک راستہ بچ جاتا ہے کہ اپنی سیاسی وجود حاصل کرنے کے لئے خاموشی کے ساتھ تعلیم پر توجہ دیں اور کردار کو بہتر کریں۔یاد رکھیں اسلامی فوج انڈونیشیا اور ملائیشیا نہیں گئی تھی لیکن ان دونوں ممالک میں صرف مسلم تجارت پیشہ لوگ جو عرب سے آئے تھے اْنکی سادہ رہن سہن اور اچھے کردار کی وجہ سے شروع میں کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر وہاں کا ہندو راجہ بھی مسلمان ہو گیا۔اس طرح پورا ملک مسلمان ہو گیا۔آج مسلم بچوں میں تعلیم کے ساتھ کردار کی تربیت ضروری ہے۔حضورِ اور صحابہ کے کردار سے بات نہیں بنے گی یا صرف نماز سے بات نہیں بنے گی بلکہ مسلمانوں کو کردار اور عمل سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے ہونگے۔مسلمانوں کو اللہ اور رسول پر یقین کے ساتھ ہر ایک انسان کو برابر سمجھنا ہوگا اور اس ملک کے انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونا ھوگا۔انسان چاہے کسی بھی مذاھب کا ہو مسلمانوں کو اْنکی مدد کے لئے آگے آنا ہوگا۔یقین جانیے اگر مسلمان اس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو صرف دس سال میں آپ اپنے نزدیک بہت کْچھ بدلتا دیکھیں گے۔بچوں کی تربیت رسول کے کردار کو سامنے رکھ کر دیں اور یہ بتائیں کہ دین اور دنیا میں ترقی کرنی ہے تو کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے بلکہ رسول کے راستے پر چلنے میں پریشانی اور دشواری ہے لیکن یقین جانیے یہ راستہ کامیابی کی ضمانت ہے۔لیکن صرف کھوکھلی تقریر سے کام نہیں چلے گا ؟
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787
٭٭٭