۰۰۰
جعفر حسین ماپکر
۰۰۰
انسانی زندگی دْکھ سْکھ، دونوں ہی طرح کی عبارتوں سے پْر ہے.کہتے ہیں کہ خوشیوں میں شریک ہونے سے، زندگی کا لْطف دوبالا ہوجاتا ہے تو غم بانٹنے سے دْکھوں کا احساس کم . دوسروں کے دْکھ سْکھ میں شریک ہونا اخلاقی فرض بھی ہے اور ہماری معاشرتی ضرورت بھی. ایک حد تک تو خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا اور دوسروں کے دْکھ سْکھ باٹنا دْرست ہے لیکن یہ دْرست نہیں، کہ اپنے ہر دًکھ میں دوسروں کو شریک کیا جائے. اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہر دْکھ کا مداوا ہی ہو. ویسے بھی آجکل لوگوں نے دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا اور اپنے دْکھوں اور غموں کو دوسروں سے بانٹنا بند کیا ہے. سچ بات تو یہ ہے کہ کون کسی کے خاطر روتا ہے. دوسروں کے دکھ کو سن کر لوگ مزہ لیتے ہیں، بس.
دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ٹوٹنے کے بعد لوگ، کہاں جْڑ پاتے ہیں. بس سہارے ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ اپنا غم غلط،اور وقت کیسے کٹے. اس چکر میں لوگ بہک کر اپناوجود اور ایمان، دونوں ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں. بھلا ٹوٹنیکا غم کبھی ختم ہوتا ہے! کبھی نہیں. وہ وقت اور حالات کے مطابق ڈھلتا اور رِستا رہتا ہے. اِس اْمید کے ساتھ کہ جس نے یہ درد دیا ہے، وہ ہی، اْس کا مداوا بھی کرے. مگر یہ ممکن نہیں ہوتا. اگر ہوتا بھی ہو، تو رشتوں کے تانے بانے پہلے جیسے نہیں ہو پاتے. جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ انسانی زندگی، دْکھ اور سْکھ، دونوں سے ہی پْر ہے. دْنیا میں آنے والے ہر انسان کو اپنے اپنے حصّے کی خوشیاں اور غم، دونوں ملنے ہوتے ہیں اور ہر انسان نے اِنہیں خوشیوں اور غموں کے ساتھ، اس دْنیا میں اپنے قیام کی مدّت پوری کرنی ہوتی ہے.
ہر انسان کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اْس کی ذات سے اگر دوسروں کو فائدہ نہ ہو، تو کم از کم تکلیف، یا نقصان بھی نہ ہو. بلکہ دوسروں کو اگر کوئی غم، بیماری یا تکلیف لاحق ہوبھی تو اِسے کم کرنے کی، اْس کا مداوا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے.
انسان کو زندگی میں بعض اوقات ایسے دْکھوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ جن کا مداوا بظاہر سْجھائی نہیں دیتا. لیکن دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں، جس کا حل نہ ہو،کوئی غم ایسا نہیں، جس کا مداوا نہ ہو. لیکن یہ محض انسان کی اپنی ہمت اور قوت ارادی پر ہے کہ وہ خود کو کس طرح، ہر طرح کے حالات میں نارمل رکھتا یا اپنی کیفیات پر قابو پاتا ہے. ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ، بظاہر بہت ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، دوسروں کو اپنی باتوں سے اپنی خوش اخلاقی سے اپنے حْسن سلوک سے پریشانی کے عالم میں بھی خوش رکھتے ہیں. لیکن اصل میں وہ اندر سے کس قدر دْکھی ہوتے ہیں، دوسروں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا. بس اْن کے طرز حیات پر رشک کرتے رہتے ہیں. یہ سمجھتے ہوئے کہ، جیسے انہیں دنیا میں کوئی غم ودرد یاتکلیف، ملی ہی نہ ہو.
دْنیا میں انسان کو بعض اوقات ایسے دْکھ بھی ملتے ہیں، جیسے کہ لاعلاج بیماریاں، دھوکہ دہی یا انتہائی تنگدست معاشی اور معاشرتی حالات کہ جنہیں کم کرنے کی کوشش میں دوسرے لوگ لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے دوسروں کو تسلی و تشفی دینے کی سعی کرتے ہیں. لیکن یہ محض طفل تسلّیاں ثابت ہوتی ہیں اور لفظوں کی یہ شفا، درد کا درماں ہونے کی بجائے درد کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں. ایسے دْکھوں کا مْداوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا. بلکہ انسان کو خود صبر وضبط، برداشت، ہمت اور مضبوط قوت ارادی کے بل بوتے پر پر خود کو غم و اندوہ کی کیفیت سے باہر نکالنا ہوتا ہے اور جو لوگ یہ کرلیتے ہیں، انہیں پھر کوئی غم کوئی دْکھ کوئی پریشانی،افسردہ وپریشان نہیں کرتی. بلکہ وہ اپنے دْکھ کامداوا قرآن مجید کی آیات اور اپنے طرز عمل سے کرتے ہیں. یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے، جو ایسے لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے. جو اندھیرے میں روشنی، انسان کو نئی ہمّت، نئی راہ سْجھاتا اور دکھاتا ہے. یہ بتاتا ہے کہ دوسرے نہیں، بلکہ انسان چاہے تو وہ خود ہی اپنے درد کا درماں و مداوا، اپنی عاجزانہ دعاؤں اور بذریعہ صدقات، بذن اللہ کرسکتا ہے.
اگر ہم یہ چاہتے ہوں کہ ہماری وجہ سیدوسروں کے دکھوں میں اضافہ نہ ہو، تو ہمیں اپنے درد کا درماں اور دکھوں کا مداوا خود ہی ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کے دوسروں کو اپنی داستان غم حیات سْنا سْنا کر دْکھی کرتے رہنا. دْکھ سْکھ تو آنی جانی چیز ہے. ان دْکھوں کے داغ وقت کے مرہم سے دْھلتے چلے جائیں گے کہ تو یقیناً مثکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مثکل کے ساتھ آسانی ہے. اس دنیا میں ہر انسان دکھی ہے تو اس درد کا مداوا بھی وہ خود ہی کرے. اس لئے دکھوں سے نہ گھبرائیں بلکہ قسمت سے ملنے والے دکھوں کا مداوا صبر و ہمت، قوت ارادی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کوشش کریں. اللہ م اجعلنا منم.
کہیں پڑھا تھا کہ،ہمارا رب ہم سے کہتا ہے. *الست بربم* کیا میں تمہارا رب نہیں اور یہ بھی پڑھا تھا کہ *الیس اللہ بکاف کیا تمہارا رب تمہارے لئے کافی نہیں؟ ان آیتوں کو یاد کرکے، آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں. ہم کیسے مسلمان ہیں اور ہم کیوں، عارضی، سہارے ڈھونڈتے پھرتے ہیں. کافی پڑھنے کے بعد مجھے، چار ایسی آیتیں ملیں، جو زندگی کے چار اہم ترین موقعوں پر، انشاء اللہ ضرور بضرور کام آئینگے.
اے پاک پروردگار! تیرے سوا کوئی معبود نہیں، ہاں بیشک میں ہی الموں میں سے ہوں۔ یہ دعا، حضرت یونس کی ہے. جب وہ اپنے ہی غلطی کی وجہ سے، مچھلی کے پیٹ میں قید تھے. اس قرآنی دعا کا جواب اس دعا سے دیا گیا؟ فرمایا؛
چنانچہ ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات عطا فرما دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح ( غم سے) بچا لیا کرتے ہیں.
اے پروردگار! مجھے تکلیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی رحم کھانے والوں میں سے، سب سے بڑھ کر رحیم ہے؟
یہ دعا حضرت ایوب کی ہے. شیطان نے انہیں، ہر طرح سے پریشان کیا اور جب ان کا ضبط ٹوٹ گیا تو یہ دعا کی.. اس دعا کی افادیت کے بارے رب نے یہ فرمایا.
فاستجبنا ل وشفنا ما ب من ضر۔۔
چنانچہ ہم نے (ان الفاظ میں پکارنے والے کی)پکار سن لی اور اسے لاحق بیماریوں کو دْور کر دیا۔
(ہرخوف و ہیبت سے) اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور بھلا اس سے بہتر بھی کوئی کارساز ہو سکتا ہے؟
(سورۃ آل عمران 3:173)
قیاس آرائی ہے کہ یہ آیت بدر الصغری کے موقع پر اْتری. جب مسلمانوں میں قریش کے لشکر کو دیکھ کر خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گء تھی اور آپ صل اللہ علیہ السلام کے جوش دلانے پر مسلمان ایک نئے عزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے. اس دعا کے ذریعے پکارنے والے کے متعلق خدا نے فرمایا.
(نتیجہ یہ نکلا کہ) وہ اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔۔۔
میں اپنا معاملہ اللہ کو سونپتا ہوں، یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کی ہر وقت خبر رکھنے والا ہے (غافر 40:44)
یہ جملہ ایک *مرد مومن* نے فرعون کے دربار میں ببانگ دہل کہا. کیا لوگوں کو علم نہیں کہ اس دعا کا نتیجہ خود پاک پروردگار نیفرمایا
پس اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھا،جو لوگوں نے اس کے لیے سوچ رکھیں تھیں. یقینا! یہ چار دعائیں ہمارے مشاکل کے حل ہونے کی ضمانت ہیں. ضرورت بس صدق دل اور یقین کی ہے.
٭٭٭