"کفر ہے برسرپیکار یہاں برسوں سے” "ارض فلسطین استعماری سازشوں کا شکار”

0
0

 

 

 

( پہلی قسط )
خامۂ بکف: منصوراحمدحقانی، نامہ نگار روزنامہ اردو اخبارات
رابطہ:
[email protected]
________________________________________
آزادی ہر قوم اور ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور ہر قوم کو دیگر اقوام کی بالادستی اور دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا نظام حکومت چلانے کی مکمل آزادی ہے اور کسی بھی ریاست کے باشندوں کو مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر ان کو نجی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق حاصل ہے۔مگر طاقتور اقوام نے ہمیشہ سے ہی کمزور ریاستوں کو ان کے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی شکل میں دیتے ہوئے مختلف زاویوں سے ان کی آزادی کو سلب کرنے کا رواج ہنوز جاری وساری ہے۔ خطۂ فلسطین بھی بدقسمتی سے ان ہی علاقوں میں سے ایک ہے جو عرصہ دراز سے اقوام عالم کی بے حسی کا شکار ہیں۔ فلسطین، مذہبی، لسانی اور تہذیبی لحاظ سے مسلم تمدن کا حصہ رہا ہے، اس کے مشرقی و شمال میں جہاں پہاڑوں کا طویل سلسلہ ہے وہیں مغربی علاقہ اپنی زرخیز اور ہموار زمینوں کی بدولت نباتات سے مالا مال ہے۔ یوں تو فلسطین کے بہت سے شہر تاریخی پس منظر اور جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ’’القدس‘‘ سب سے مشہور و معروف ہے۔ مسجد اقصیٰ اسی شہر میں واقع ہے۔ ’’القدس‘‘ سے بالکل متصل دوسرا شہر ’’الخلیل‘‘ ہے جس میں مسجد ابراہیم ہے۔ اس شہر کی وجہ تسمیہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ کا مزار مقدس بھی یہیں واقع ہے۔ فلسطین، امن اور شانتی کا گہوارہ اور صدیوں سے مسلم دنیا کا حصہ رہا ہے، بلکہ مسلم اقتدار کے زیر اثر چار وں آسمانی مذاہب کے پیروکار یہاں امن کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج ارض فلسطین استعماری سازشوں سے صرف تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔
اور عرصۂ دراز سے یہاں خون کی ندیاں بہتی آ رہی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ارض فلسطین میں خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہے تو شاید مبالغہ آرائی نہیں ہوگی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کُرَّۂ اَرْض پر فلسطین ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں ہمیشہ بازار شہادت سجی رہتی ہے اور عصر حاضر میں فلسطین کا نام آتے ہی ہر شخص کے ذہن میں وہ نقشہ گردش کرنے لگ جاتا ہے جو ان دنوں میڈیا کے ذریعہ دکھایا جارہاہے حالانکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کب اور کیسے شروع ہوا؟ کیونکہ آج پوری دنیا دو حصوں میں منقسم نظر آرہی ہے، اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کی کچھ تاریخی جھلک منظر عام پر لایا جائے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ آپ کو فلسطین کی حمایت میں کھڑا ہونا چاہیئے یا پھر اسرائیل کی؟ بیشتر عوام اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط سمجھنے لگتے ہیں پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ارض فلسطین پر کم اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جنگ زیادہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ مسئلہ فلسطین کا آغاز 1799 میں جب فلسطین میں یہودی وطن کی تجویز پیش کی تھی اسی وقت سے جاری وساری ہے مگر اس کی داستان الم ناک کی خونی روداد جنوری 1915 سے شروع ہوتی ہے اور اکثر مورخین و مبصرین نے بھی یہیں سے تاریخ فلسطین پر قلم بند کیا ہے کیونکہ 1915 میں ہی لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو "دی فیوچر آف فلسطین” تیار کیاتھا اور جسے کابینہ میں تقسیم بھی کیا گیاتھا اس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی تھی، جس کے بعد سفارت کاروں، سر مارک سائکس اور فرانسوا جارجس پیکوٹ نے اگلے سال نجی طور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی صورت میں برطانوی اور فرانسیسی اثرورسوخ کی حد کا تعین کیا پھر 9/نومبر 1917 کو برطانوی حکومت کے اعلامیے کے بعد ڈیوڈ لائیڈ جارج، وزیر خارجہ آرتھر بالفور اور یہودی برادری کے رہنما والٹر روتھشائلڈ، دوسرے بیرن روتھشائلڈ کے مابین خطوط کے ذریعہ بات چیت ہوئی، جس میں فلسطین میں”یہودیوں کے لئے قومی گھر” کے قیام کی حمایت کا باضابطہ اعلان کیا گیا، روتھشائلڈ، سیموئل، سائکس اور ویزمین نے ایک ماہ پہلے لندن میں ایک تقریب کے اجتماع سے خطاب کیا ۔ جس کے بعد، 11 دسمبر 1917 کو، جنرل ایڈمنڈ ایلنبائی نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ قیصر (شہنشاہ) کی شکست اور پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، امریکی صدر ووڈرو ولسن نے زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کے غیر ترک علاقوں کے بارے میں ماہر تعلیم ڈاکٹر ہنری کنگ اور دانشور چارلس کرین کی مدد سے ایک رپورٹ جاری کی، جس سے پتہ چلا کہ فلسطین کی تقریباً ٪90 فیصد غیر یہودی آبادی صیہونی منصوبے کی پرزور مخالف کرتی تھی۔1919 کی پیرس امن کانفرنس میں لیفٹیننٹ کرنل ٹی ای لارنس (جسے لارنس آف عربیہ کہا جاتا ہے) نے صیہونی وفد کے رہنما ویزمین اور ان کے عرب ہم منصب شہزادہ فیصل بن حسین کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کے لئے ثالثی کی، جس میں اصولی طور پر فلسطین میں یہودی وطن اور مشرق وسطیٰ میں ایک آزاد عرب قوم کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا۔1922 میں لیگ آف نیشنز نے فلسطین پر حکومت کرنے کے برطانوی مینڈیٹ کو سیموئیل کے دائرہ اختیار میں تسلیم کیا، جس نے یہودیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے کم از کم 100 قانونی اقدامات کو نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان اقدامات میں عبرانی کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرنا اور ایک علیحدہ یہودی تعلیمی نظام اور یہودی فوج کی اجازت دینا شامل تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہودی امیگریشن کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے کیونکہ فلسطینی تحریک نے سامراجی برطانیہ کی فوجی اور سفارتی طاقت کی پشت پناہی سے ہونے والے غاصبانہ قبضے کا مقابلہ کرنے اور اس کی مزاحمت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔اگست 1929 میں جب بالفور نے مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تو فلسطینیوں نے سیاہ جھنڈے لہرائے اور تقریباً 250 یہودی اور عرب دیوار براق (دیوار گریہ) پر ایک سانحہ میں جان بحق ہوگئے اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے، جو تاریخ کی کتابوں میں بغاوت براق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور اسی موقع پر سموئیل کے جانشین سر جان چانسلر نے تین مسلمان مردوں کو بدامنی میں حصہ لینے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔لیکن یہ احتجاج جاری رہا اور 1933 میں شدت اختیار کر گیا، جب زیادہ سے زیادہ یہودی تارکین وطن اسرائیل میں اپنے لئے گھر بنانے پہنچے، تو 1931 میں جن کی تعداد صرف چار ہزار تھی اب وہ بڑھ کر 1935 میں 62 ہزار ہو گیا تھا۔اسی سال فلسطینی مسلمانوں کے معروف انقلابی رہنما اور امیر المجاہدین عزالدین القسام کو برطانوی فوجیوں نے گولی مارکر شہید کردیا تھا ۔ اس کے بعد سے فلسطینیوں پر مسلسل ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جانے لگے پھر 1936 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی مخالفت کی شدت کے نتیجے میں ایسے لوگوں پر بالفور اعلامیہ مسلط کیا گیا جنہوں نے اس کی مذمت کی اور اس کے نتیجے میں چھ ماہ تک عام ہڑتال کی گئی جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔1939 میں ایڈولف ہٹلر کے ’نازی جرمنی‘ کے خلاف بیشتر دنیا ایک بار پھر جنگ کا شکار ہو گئی، ہٹلر کے جرمنی کو 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام اور حراستی کیمپوں میں پھانسی دینے کی ذمہ دار قرار دیا گیا۔اس تنازع میں امریکی شمولیت کے کچھ ہی عرصے بعد، امریکہ اور صیہونی تعلقات 1942 میں نیو یارک کے بالٹیمور ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس سے مضبوط ہو گئے۔ یہ واقعہ ایک مسلح صہیونی نیم فوجی دستے ارگن کے سالوں کی سرگرمی کے پس منظر میں پیش آیا جو فلسطین میں مقامی عرب گروہوں پر حملے کر رہی تھی۔ دراصل ارگن 22/ جولائی 1946 کو مقبوضہ بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر بمباری کے مجرم ہیں ، جس میں 91 افراد مارے گئے تھے، اور 9/ اپریل 1948 کو دوسری تنظیم، لیہی (یا سٹرن گینگ) کے تعاون سےدیر یاسین قتل عام کو انجام دیا گیا، جس میں 107 افراد مارے گئے تھے۔اسی موسم گرما میں، لیہی نامی تنظیم سویڈش سفارت کار فوک برناڈوٹے کو قتل کر دیتی ہے، جنہیں اقوام متحدہ نے تنازع میں ثالثی کے لیے بھیجا تھا۔1945 میں یورپ اور بحرالکاہل میں اتحادیوں کی فتوحات کے بعد، عالمی طاقتوں نے فلسطین میں تشدد کے خاتمے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی۔متنازع علاقے کا دو ریاستی حل تقریباً 1947 میں وجود میں آیا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر قرارداد 181 پیش کی، جس میں دریائے اردن کے مغرب میں فلسطین سے ایک نئی ریاست تشکیل دینے کی تجویز پیش کی گئی: ایک یہودیوں کے لئے اور دوسری عربوں کے لئے، مبینہ طور پر امریکہ کے سفارتی دباؤ کے نتیجے میں ووٹنگ کے بعد منظور کی گئی مگر یہ قرارداد فلسطینیوں نے مسترد کر دی، کیونکہ انہوں نے دلیل دی کہ یہودی باشندوں کے پاس اس وقت 5.5 فیصد سے زیادہ زمین نہیں اور انہیں بین الاقوامی قانونی حیثیت کے علاوہ 56 فیصد زمین حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہودیوں کی مسرت کو عرب دشمنی کا سامنا کرنا پڑا اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس سے قبل کہ میں عربوں (فلسطینیوں) اور یہودیوں کی خانہ جنگی کو بیان کروں پہلے ہٹلر کی تاریخ پر کچھ گفتگو ہو جائے جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو کیوں قتل کروایا؟ اس کا جواب اس مضمون کی دوسری قسط میں ہم جانیں گے اور اس مضمون کی پہلی قسط بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر محمد ایوب بسمل کی نظم کے ان چند اشعار کرتے ہیں :-
کفر ہے برسرپیکار یہاں برسوں سے
گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے
امن ہے نقش بہ دیوار یہاں برسوں سے
حق عدالت میں سرِدار یہاں برسوں سے
دے گئی تحفہ نایاب تجھے جنگ عظیم
کرگئی ارض مقدس کو بالآخر تقسیم
(جاری)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا