کشمیر ی خواتین: خوشی مدھم مگر کیوں ہے؟     

0
0

\

، کشمیرعورت سماج کی معمار ہے اور نصف انسانیت بھی۔ مرد انسانیت کے ایک حصہ کی ترجمانی کرتا ہے تو دوسرے حصے کی ترجمانی عورت کرتی ہے۔ عورت کو نظرانداز کرکے نوع انسانی کے لیے جو بھی پروگرام بنے گا وہ ناقص اور ادھورا ہوگا۔ ہم ایسے کسی سماج کا تصور نہیں کرسکتے جو تنہا مردوں پر مشتمل ہو اور جس میں عورت کی ضرورت نہ ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں، نہ عورت مرد سے مستعفی ہوسکتی ہے اور نہ مرد عورت سے بے نیاز۔ ان کے احتیاط کی نوعیت سماجی و معاشرتی بھی ہے اور جنسی و نفسیاتی بھی۔ ایک طرف اجتماعی زندگی ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قدم سے قدم اور شانہ سے شانہ ملا کر کام کریں تو دوسری طرف جنسی تقاضے ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دامن میں سکون اور اطمینان ڈھونڈیں۔ابتدائی تہذیب و تمدن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم تہذیب مادری تہذیب رہی تھی اس قدیم تہذیب میں عورت اور مرد دونوں کو مساویانہ حقوق حاصل تھے مرد جس طرح اپنی زندگی میں آزاد تھا اسی طرح عورت بھی ایک بھر پور آزاد زندگی کی مالک تھی۔ اس وقت تک دراصل باقاعدہ سماج اور خاندان کی بنیادیں استوار نہیں ہوئی تھیں ۔جیسے جیسے اور معاشرے کے تانے بانے بُنے جانے لگے ویسے ویسے عورت سے متعلق متعدد سماجی و مذہبی بندشیں اور ضابطے بھی بُنے جاتے رہے۔ جس میں جکڑ کر عورت ایک مظلوم و محکوم ہستی بن کر رہ گئی، اس کی تمام تر صلاحیتیں مفقود ہوگئیں، وہ بنیادی حقوق سے محروم کردی گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس پر استحصال کے مختلف طریقے سماج میں رواج پاتے گئے جس کے نتیجے میں مرد کے غلبہ کا نظام اپنی تمام تر قوت کے ساتھ رائج ہوگیا اور قدیم مادری تہذیب بآسانی پدری تہذیب میں بدل گئی۔ یہ تاریخی تبدیلی کسی ایک قوم یا خطہ تک مختص نہیں رہی بلکہ پدرسری کی مختلف النوع صورتیں تمام اقوام عالم میں کم و بیش یکساں ہی رہیں۔دوسرے ممالک کی طرح ہندوستانی معاشرہ بھی ایک لچکدار سماجی ڈھانچہ رکھتا تھا، مردوں اور عورتوں میں مساوات تھی عورتوں کو سماج میں نقل و حرکت کی آزادی حاصل تھی۔ وہ عوامی زندگی میں بھی مرد کے برابر شریک تھیں، تاہم بعد کے ادوار میں کئی بربریت پر مبنی رواج شروع ہوئے جس کے نتیجے میں عورتوں کو ماتحت کے موقف تک محدود کردیا گیا۔ اجتماعی زندگی اس وقت ترقی کرتی ہے جب کہ دونوں کا سیاسی و سماجی رشتہ بھی ٹھیک ہو اور جنسی تعلقات بھی صحیح ہوں۔ عورت کی سعی و جہد میں جو خلاء رہ جائے اس کو مرد پُر کرے اور اور مرد کی دوڑ دھوپ میں جو نقص اور کمی ہو اس کو عورت پورا کرے۔ لیکن اگر مرد اور عورت کے سماجی و معاشرتی رشتوں میں عدم توازن اور جنسی تعلقات میں بے اعتدالی پیدا ہوجائے تو معاشرہ زوال اور انحطاط کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ کیونکہ سماجی رشتوں میں توازن نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے بعض گوشے خالی اور ویران ہونے لگتے ہیں اور بعض گوشوں پر ضرورت سے زیادہ قوت صرف ہوجاتی ہے اور یہ دونوں ہی باتیں معاشرہ کے لیے تباہ کن ہوتی ہیں۔موجودہ تمدنی ومعاشرتی حالات پر غوروفکر کرنے والا انسان اس اعتراف پر مجبور ہے کہ عورت اور مرد کے تضاد اور ٹکرائو نے موجودہ تہذیب کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور انسان کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں سکون اور چین کے ہزار سامان کے باوجود وہ سکون سے محروم ہے۔ چونکہ ایک عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منواسکتی ہے اور جہاں بھی اسے موقع فراہم ہوا اس نے اس بات کو خوبصورتی کے ساتھ سچ ثابت کردکھایا۔اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ تہذیب و تمدن کی ترقی میں عورت کا بھر پور تعاون رہا ہے تاہم وقت گزرتے اس کی حصہ داری کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ سماج میںاس کے مشترکہ تعاون کے باوجود وہ امتیازات کے گھیرے میں آجاتی ہے اس کو بحیثیت انسان ثانوی حیثیت دی جانے لگی اور اسے بنیادی حقوق کے حصول تک دور کردیا گیا۔ظلم و ستم کی بہت سی شکلیں ہیں اور استحصال کے نت نئے ہتھکندے ہیں۔ ہم ان جبر استبداد اور زیادتی سے آئے دن دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ نہ جانے انسانی رویے کے کتنے کریہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے روزانہ گزرتے ہیں جب کہ بہت سے پردہ خفا میں رہ جاتے ہیں۔ انہی دردناک مناظر میں سے ایک منظر ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک بھی ہے جس کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ صدیوں کے ظلم و ستم سے دوچار خواتین کو جہاں اور جس شکل میں بھی آزادی کی کوئی رمق نظر آئی وہ بلا سوچے سمجھے اور انجام سے غافل ہوکر اس کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ چونکہ کشمیر میں 90ء کی دہائی سے شورش ، ٹکرئواور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے جس کے منفی اور مضر اثرات یہاں کے عوام پر صاف طور سے عیاں ہیں۔ ان اثرات سے یہاں کے لوگ شدید دبائو، ذہنی تنائو اور سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے کشمیریوں پر ایک شدید اور لامتناہی دبائو ہے اور یہ دبائو زندگی کے ہر شعبے پراثرانداز ہے۔ اس لحاظ سے موجود ہ نسل منفی اثرات میں پرورش پاکر شدید مسائل اور پریشانی سے دوچار ہے۔ ان نامساعد اور کشیدہ حالات میں خواتین سب سے زیادہ متاثر اور شدید مشکلات اور مصائب و الم میں سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہیں۔جس کی وجہ سے انسانی نفسیات کا توازن خراب ہوگیا ہے۔ایک سماج اخلاقی طور تب ہی مستحکم ہوتا ہے جب ایک عورت کو بحیثیت ماں اور بیوی کے حقوق دے کر اپنا کردا رادا کرنے کے مواقع دیئے جاتے ہیں۔ ایک سماج مادی طور پر تب ترقی پاتا ہے جب خواتین کو تجارت اور معاش میں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ سماج، قوم اور ملک کا مستقبل تب ہی روشن ہوجاتا ہے جب خواتین کو تعلیم سے دُور نہ رکھا جائے۔ ایک سماج تقافتی و تمدنی لحاظ سے تب ہی مضبوط ہوتا ہے جب خواتین کوگھر اور گھرسے باہر کی ذمہ داریاں نبھانے کا حوصلہ دے کر انہیں بھر پورتعاون فراہم کیا جاتا ہے۔نیز سماج کی روحانی نشونما تب ہی ہوپاتی ہے جب ایک ماں، ایک بیٹی اور ایک بہن کو اقدار اور اصولوں پر قائم رہنے دیا جاتا ہے اور ایک سماج سیاسی لحاظ سے تب ہی فروغ پاتا ہے جب خواتین کو ہر امور میں مواقع دیئے جاتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ مضبوط ریاست جموں وکشمیر کے لیے یہاں کی خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر زندگی کے ہر شعبہ میںسہولیات بہم پہنچا کر نمائندگی دی جائے تاکہ ہمارا سماج درخشاں ستاروں کی طرح ہر میدان میںجھگمگا            ڈاکٹر امتیاز وانی ،ڈاڈہ سرہ ترال، کشمیر

رابطہ: 7006769276

ای میل: [email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا