کشمیر میں جن کو صرف زمین نظر آتی ہے ، وہ انکی بیمار ذہنیت کی علامت
۰ملک کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۰سی اے اے سے کسی کو نقصان نہیں۰حکومت روایت سے ہٹ کر کام کر رہی ہے
یواین آئی
نئی دہلی؍؍وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے کچھ بڑے لیڈروں کی گرفتاری کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہاکہ جموںوکشمیر سمیت ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن جماعت کانگریس پر شہریت ترمیمی بل (سی اے اے ) پر برم پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے جمعرات کو یقین دلایا کہ اس سے ملک کے کسی بھی اقلیتی شہری کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔مودی نے کہا کہ ان کی حکومت روایت شکن طریقے سے عوام کے اُس اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی وجہ اسے اقتدار سونپا گیا اور نئے خطوط پر آگے بڑھتے ہوئے تمام زیر التوا کاموں کو تیز رفتار کے ساتھ پورا کیا جا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم نے معیشت کی بنیاد مضبوط ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ ملک کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور پانچ ہزار ارب ڈالر کی معیشت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تفصیلات کے مطابق صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر لوک سبھا میں بحث کا جواب دیتے ہوئے مسٹر مودی نے کہاکہ کشمیر میں جن کو صرف زمین نظر آتی ہے ، وہ انکی بیمار ذہنیت کی علامت ہے ۔ کشمیر ہندوستان کا تاج ہے مگر کشمیر کی پہچان بم، بندوق اور علاحدگی پسندی کی بنا دی گئی تھی۔ 19جنوری 1990(جس دن لاکھوں ہندووں کو وادی کشمیر سے بھاگنا پڑا تھا) کی کالی رات کو کچھ لوگوں نے کشمیر کی پہچان کو دفنا دیا تھا۔ کشمیر کی پہچان صوفی روایت اور مذہبی ہم آہنگی کی ہے ۔انہوں نے پپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے ۔ ان کے بیانات سے صاف ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔ انہوں کہاکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کشمیر کے عوام پر بھروسہ نہیں ہے ۔ ہم نے کشمیر کے عوام پر بھروسہ کیا اور آرٹیکل 370ہٹایا۔ اب جموں وکشمیر میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے ۔ وزیراعظم مودی نے صاف الفاظ میں کہا کہ ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے نہیں دیئے جائیں گے ، خواہ وہ جموں وکشمیر ہو یا شمال مشرق کی ریاستیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کی حکومت جموں کشمیر کی ترقی کے لئے وقف ہے ۔ لداخ کے بارے میں مسٹر مودی نے کہا کہ جموں وکشمیر سے الگ کر کے مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنائے گئے لداخ کو کاربن سے مبرا بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سکم نے آرگنک ریاست کے طورپر اپنی شناخت بنائی ہے ۔ لداخ کی سرحد سے ملحق پڑوسی ملک کے بھوٹان کی شناخت دنیا میں کاربن سے مبرا ریاست کے طورپر بنی ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ لداخ بھی کاربن سے مبرا بنے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ جب وہ لداخ جائیں گے تو اس سمت میں روڈمیپ بنانے کا کام کریں گے ۔وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن جماعت کانگریس پر شہریت ترمیمی بل (سی اے اے ) پر برم پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے جمعرات کو یقین دلایا کہ اس سے ملک کے کسی بھی اقلیتی شہری کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر ایوان میں تین دن تک چلی بحث کا جواب دیتے ہوئے مسٹر مودی نے کانگریس اور اس کے دور اقتدار پر زور دار حملہ کیا۔ انہوں نے اہم اپوزیشن جماعت کو 1947میں ملک کی تقسیم کے لئے ذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہاکہ کسی کو وزیراعظم بننا تھا اس لئے ہندستان کے اوپر ایک لکیر کھینچی گئی اور ملک کو تقسیم کردیا گیا۔ ان کا اشارہ پہلے وزیراعظم نہرو کی طرف تھا۔وزیراعظم نے تقریباََ 100منٹ کے اپنے جواب میں بیشتر وقت سی اے اے کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ اس قانون میں ہندستان کے کسی بھی شہری پر کسی طرح کا اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا‘ہندستان کی اقلیتوں کو اس سے کسی طرح کا نقصان نہیں ہوگا۔مسٹر مودی نے کانگریس اور اپوزیشن پر اس قانون کے تعلق سے خوف پیدا کرنے اور پاکستان کی زبان بولنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ ہندستان کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پاکستان نے ہر کھیل کھیلا۔ اب اس کی بات نہیں پڑ پارہی تو لوگوں نے جن کو اقتدار کو تخت سے گھر بھیج دیا تو وہ اس کی زبان بول رہے ہیں۔انہوں نے 1984کے سکھ فسادات کے لئے کانگریس کوکٹھہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس کو 1984کے سکھ فسادات یاد ہیں؟ کیا وہ اقلیت نہیں تھے ۔ فساد بھڑکانے کے ملزمین کو وزیراعلی بنا دیتے ہیں۔ بیواؤں کو انصاف کے لئے تین تین دہائی تک انتظار کرنا پڑا۔ کیا وہ اقلیت نہیں ہیں۔ کیا اقلیت کے لئے دو دو ترازو ہوں گے ؟۔ انہوں نے پنڈت نہرو کے خطوط اور ایوان میں ان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور پہلے وزیراعظم مسٹر نہرو بھی اس طرح کے سی اے اے جیسے قانون کے حق میں تھے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ 1950کے نہرو لیاقت سمجھوتہ میں پنڈت نہرو نے ‘اقلیت’ لفظ کیوں استعمال ہونے دیا۔ اس وقت انہوں نے ‘تمام شہری’ کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا۔ اس معاہدہ میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے یہاں اقلیتوں پر مظالم نہیں ہونے دیں گے ۔وزیراعظم مودی نے کہاکہ 1949میں پنڈت نہرو نے آسام کے وزیراعلی گوپی ناتھ باردولوئی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ پناہ گزینوں اور مسلم تارکین وطن میں فرق کرنا ہی ہوگا۔ ملک کو پناہ گزینوں کی ذمہ دار لینی ہی ہوگی۔مسٹر مودی نے کہاکہ تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے مجاہدین آزادی بھوپندر کمار دت اور جوگندر ناتھ منڈل نے بھی پاکستان میں ہندووں پر مظالم کی بات کہی تھی اور بعد میں انہیں ہندستان واپس آنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں آزادی کے وقت اقلیتوں کی جو حالت تھی وہ آج بھی ویسی ہی ہے ۔ اتنی دہائیوں کے بعد بھی پاکستان کی سوچ نہیں بدلی ہے اور وہیں ہندووں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں پر مظالم بڑھے ہیں۔ اس لئے حکومت کو یہ قانون لانا پڑا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور کانگریس جیسی پارٹیوں نے جس دن ملک کے لوگوں کو ہندو۔مسلم کی بجائے ہندستانیوں کو ہندستانیوں کی نظر سے دیکھنا شروع کیا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اچھا ہوا کہ ان پارٹیوں نے سی اے اے کی مخالفت کی۔ اگر وہ مخالفت نہیں کرتیں تو ملک کو ان کا اصل چہرہ دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔وزیراعظم نے کہاکہ ‘پبلک’ سب جانتی ہے ۔ گزشتہ دنوں جس طرح کی زبان بولی گئی، جس طرح کی تقریر کی گئیں، ایوان کے لیڈر بھی وہاں پہنچ گئے ، یہ نہایت افسوس کی بات ہے ۔مودی نے جمعرات کو کہا کہ ان کی حکومت روایت شکن طریقے سے عوام کے اُس اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی وجہ اسے اقتدار سونپا گیا اور نئے خطوط پر آگے بڑھتے ہوئے تمام زیر التوا کاموں کو تیز رفتار کے ساتھ پورا کیا جا رہا ہے ۔مسٹر مودی نے بحث کا جواب دیتے ہوئے ہندی کے مشہور شاعر سریشور دیال سکسینہ کی ایک نظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بنے بنائے طریقے پر کام نہیں کرتے بلکہ نئے انداز میں اور عوامی جذبات کے مطابق کام کرنے پر بھروسہ کرتے ہیں لہٰذا روایت سے ہٹ کر چلتے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہی اپنے کام کو لے کر مسٹر سکسینہ کی شاعری کو سرچشمہ بتایا اور نظم پڑھی -‘‘لیک پر وہ چلیں ،جن کے چرن دربل اور ہارے ہوں، ہمیں تو، جو ہماری یاترا سے بنیں ، ایسے اَنرمت پتھ ہی پیارے ہیں‘‘۔مسٹر مودی نے کہا کہ ان کے کام کو لوگوں نے پانچ سال تک دیکھا ہے اور ان پر اعتماد کیا ہے اس لئے لوگوں نے اس بار ان سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں بھیجا ہے ۔ عوام نے نئی طاقت کے ساتھ ان کی حکومت ہی نہیں بنائی بلکہ سروکار تبدیل کرنے کا عزم کیاہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں ان کے اور تیز رفتار سے کام کرنے اور دیرینہ التوا پڑے عوامی عزائم کو پورا کرنا ہے اور اسی لیے وہ نئی رفتار کے ساتھ اور لیک سے دہائیوں پرانے مسائل کو حل کر رہے ہیں۔ آرٹیکل- 370 ہٹانے ، رام جنم بھومی تنازع حل کرنے ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری، بچوں سے عصمت دری کے لئے پھانسی کی سزا کا قانون اور تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے جیسے بڑے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ 70سال بعد ملک اب زیادہ طویل عرصہ انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔وزیر اعظم نے اپوزیشن پارٹیوں، خاص طور پر کانگریس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا’’اگر ہم اسی طریقہ سے چلتے جیسے آپ چلے تھے ، اسی راستے پر چلتے جس کی آپ کو عادت ہو گئی تھی تو 70 سال بعد بھی آرٹیکل 370 نہیں ہٹتا، مسلم بہنیں تین طلاق کی تلوار سے خوفزدہ رہتیں، نابالغوں سے عصمت دری پر پھانسی کا التزام نہیں ہوتا، رام جنم بھومی آج بھی متنازع رہتی، کرتارپور کوریڈور کبھی نہیں بن پاتا، ہندوستان -بنگلہ دیش سرحدی تنازع کبھی حل نہیں ہوپاتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا کی ہندوستان سے جو توقع ہے ، اگر ہم چیلنجوں کو چیلنج نہیں دیتے ، سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں دکھاتے تو ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نئی راہ بناکر چلنا چاہتے ہیں کیونکہ ملک اب طویل عرصہ تک انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور ملک کے عوام پرانی رفتار سے چلنے کے لئے تیار نہیں ہونا فطری بھی ہے ۔مسٹر مودی نے کہا کہ اگر حکومت کی کام کرنے کی رفتار تیز نہیں ہوتی تو 37 کروڑ بینک اکاؤنٹ کبھی نہیں کھل پاتے ، 11کروڑ گھروں میں بیت الخلا نہیں بن پاتے ، 13 کروڑ خاندانوں کو گیس کنکشن نہیں مل پاتے ، دو کروڑ غریبوں کے گھر نہیں بن پاتے ، دہلی کی 1،700 سے زیادہ غیر قانونی کالونیوں کے 40 لاکھ لوگوں کو اپنے گھر ہونے کا حق نہیں مل پاتا۔انہوں نے کہا کہ اگر ان کی حکومت کانگریس کے راہ پر چلتی تو دشمن جائیداد کے لئے اور لمبا انتظار کرنا پڑتا، جیٹ فائٹر طیاروں کے لئے 35 سال اور انتظار کرنا پڑتا، گمنام قانون کو لاگو کرنے کے لئے 28 سال اور رکنا پڑتا اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف – سی ڈی ایس کی تقرری کے لئے ملک کو 20 سال اور انتظار کرنا پڑتا۔ مسٹر مودی نے شمال مشرق کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی حکومت نے اس علاقے کو دہلی سے جوڑاہے اور وہاں کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ ان کے لئے اب دلی دور نہیں ہے ۔ شمال مشرق میں مرکزی حکومت کے وزیر برابر دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں کے مسائل کا حل ان کی دہلیز پر کیا جا رہا ہے ۔ اس پہلے سے وہاں کے لوگوں کا مرکز پر بھروسہ بڑھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے پہلے کی حکومتوں کی طرح وہاں کے مسائل کاحل سیاسی ترازو پر تو ل کر نہیں کیا۔ شمال مشرق کے مفاد میں جو بھی فیصلہ کیا گیا ہے یا جو بھی معاہدے ہو رہے ہیں وہاں کے لوگوں کے مفادات کو ذہن میں رکھ کر کیا جا رہا ہے ۔ بوڈو معاہدہ پہلے بھی ہوا لیکن اس بار کے معاہدے کی خاصیت ہے کہ تمام گروپ ایک ساتھ ہتھیار چھوڑنے کو تیار ہوئے ہیں۔ معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے -‘بوڈو مسئلہ سے منسلک کوئی مطالبہ اب باقی نہیں رہ گیا ہے ’۔ کم از کم امدادی قیمت-ایم ایس پی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کسانوں کی فصلوں پر ایم ایس پی دیا گیا ہے ۔ پہلے کی حکومتوں نے کسانوں سے منسلک منصوبوں پر کام نہیں کیا۔ان کی حکومت نے 99 منصوبوں کی نشاندہی کی اور اس پر ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیا جس کا فائدہ کسانوں کو مل رہا ہے ۔ کسانوں کو فصل انشورنس اسکیم کے تحت پورا فائدہ مل رہا ہے اور اب تک 56 ہزار کروڑ روپے کسانوں کو انشورنس کے تحت ادائیگی کی گئی ہے ۔ انہوں نے کانگریس پر شدید حملہ کیا اور کہا کہ وہ جس طرح سے سوچتی ہے دنیا کی رفتار اسی طرح سے سنائی دیتی ہے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ کچھ اراکین نے سوامی وویکانند کے بہانے حکومت پر نشانہ لگانے کا کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت صحیح سمت میں کام کر رہی ہے لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو رفتار اور راہ سے ہٹ کر کام کرنا اچھا نہیں لگتا تو وہ حکومت کی تنقید کر رہے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے معیشت کی بنیاد مضبوط ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ ملک کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور پانچ ہزار ارب ڈالر کی معیشت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسٹر مودی نے صدر کے خطاب پرشکریہ کی تحریک پر تین دنوں تک جاری رہنے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کی اصل بنیاد طور پر مضبوط ہے اور ملک کو یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے سلسلے میں ملک میں مایوس کن ماحول کی ضرورت نہیں ہے اور اس سے ملک کا بھلا نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں بھی پانچ ہزار ارب ڈالر کی معیشت کی سمت میں بڑھنا ہوگا۔ زیر اعظم نے پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن کو مکمل طور پر معیشت پر مرکوز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس سیشن کو مکمل طور پر اقتصادی مسائل پر وقف کر دینا چاہئے ۔ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کے بجائے یا ‘تو تو میں میں’ کی جگہ باہمی طور پر غوروخوض کرنے اورخود احتساب کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے ڈیجیٹل انڈیا، فروغِ ہنر، ابتدائیہ انڈیا اورچھوٹی صنعتوں کو مدد دینے اور دیگر منصوبوں کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت معاشرے کی ذہنیت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ‘اب محلے میں میں کھیلنے کی بجائے ،دنیا کے سامنے کھیلنے ’ کا وقت آ گیا ہے ۔ مسٹر مودی نے اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا میں آپ سے امید تھی کہ آپ سینئر ہونے کی وجہ سے ملک کوسمت دیں گے اور آپ سے نئی سوچ کی توقع تھی لیکن مایوسی ہاتھ لگی ہے ۔ انہوں نے کہا، ‘لیکن آپ ٹھہر (منجمد ہو) گئے اور آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتے ۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ واپس چلے گئے ہیں۔ آپ نے انجماد کو اپنا وجود بنا لیا ہے ۔‘اس تناظر میں وزیر اعظم نے مشہور مزاحیہ شاعر کاکا ھاتھرسي کی ایک نظم پڑھی اور ان کے اشعار کے ذریعے اپوزیشن پر طنز کیا۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے ہٹنے کے بعد ریاست میں مرکز کی تمام فلاحی منصوبوں کو نافذ کر دیا گیا ہے ۔ بیت الخلا، سڑکیں، اسپتال اور دیگرڈھانچہ جاتی سہولتوں کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔ پہلی بار غریب، دلتوں اور قبائلیوں کو اسکیموں کا فائدہ ملا ہے ۔ انھوے نے اپوزیشن کے ان الزامات کی تردید کی کہ شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے شمال مشرقی خطہ جل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں بے مثال امن ہے اور ہندوستان کی ترقی کے سفر میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے حال میں ہی ہوئے بوڈو معاہدے کو اپنی حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قبائلی مسائل کے سلسلے میں پچھلی حکومتوں نے لاتعلقی برتی۔