کشمیر میں بند کا 82 واں دن

0
0

تاریخی جامع مسجد بارہویں جمعے کو بھی مقفل
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں جمعہ کے روز 82 ویں دن بھی جہاں معمولات زندگی متاثر رہے وہیں پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع 6 سو سالہ قدیم اور تاریخی جامع مسجد کے منبر ومحراب مسلسل بارہویں ہفتے بھی خاموش رہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو خصوصی اختیارات عطا کرنے والے آئینی دفعات کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا ایک سلسلہ ہنوز جاری ہے۔وادی میں ہڑتال کے بیچ جنوبی کشمیر میں غیر ریاستی شہریوں بالخصوص میوہ صنعت سے وابستہ بیوپاریوں اور ٹرک ڈرائیوروں کی ہلاکت کے واقعات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ دس دنوں کے دوران نامعلوم اسلحہ برداروں کے ہاتھوں تین ٹرک ڈرائیوروں اور ایک سیب بیوپاری سمیت پانچ غیر ریاستی افراد کی ہلاکت اور ایک کو زخمی کردینے کے واقعات سے پوری وادی کشمیر میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ سیب صنعت سے وابستہ افراد پر حملے کا تازہ واقعہ ضلع شوپیاں کے چترا گام علاقہ میں پیش آیا جہاں جمعرات کی شام نامعلوم اسلحہ برداروں نے فائرنگ کرکے دو ٹرک ڈرائیوروں کو ہلاک جبکہ تیسرے کو شدید زخمی کردیا۔ فائرنگ کے بعد اسلحہ برداروں نے دو ٹرکوں اور ایک ٹاٹا موبائل گاڑی کو آگ کے حوالے کیا۔ مہلوکین کا تعلق راجستھان سے ہے۔ زخمی ڈرائیور جس کی شناخت ہوشیار پور پنجاب کے رہنے والے جیون سنگھ کے طور پر ہوئی ہے، سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں زیر علاج ہے۔جموں وکشمیر پولیس نے فائرنگ کے اس واقعہ کے لئے جنگجوئوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کشمیر زون پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ‘شوپیاں میں دہشت گردوں نے دو عام شہریوں کو ہلاک کردیا۔ ایک زخمی کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے’۔قبل ازیں ضلع شوپیاں میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والا سیب بیوپاری چرنجیت سنگھ اور راجستھان سے تعلق رکھنے والا ٹرک ڈرائیور شریف خان ہلاک جبکہ سنجیو نامی سیب بیوپاری زخمی ہوا تھا۔ ضلع پلوامہ میں ٹارگٹ فائرنگ کے ایک واقعہ میں چھتیس گڑھ سے تعلق رکھنے والا اینٹ بٹھے کا مزدور سیٹھی کمار ساگر ہلاک ہوا تھا۔ نامعلوم اسلحہ برداروں کے ہاتھوں غیر ریاستی افراد پر حملوں کے ان واقعات سے پوری وادی بالخصوص سیب کی پیدوار کے لئے مشہور جنوبی کشمیر میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والے ایک میوہ باغ مالک نے بتایا کہ شوپیاں اور جنوبی کشمیر کے دیگر تین اضلاع میں میوہ صنعت لوگوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس صنعت سے وابستہ غیر ریاستی بیوپاریوں یا ٹرک ڈرائیوروں پر حملوں سے اس صنعت اور اس سے وابستہ افراد کو ایک بہت بڑا دھچکا لگتا ہے۔ سری نگر میں قائم فوج کی 15 ویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون کا کہنا ہے کہ سیب صنعت سے وابستہ افراد بشمول باغ مالکان کو معقول سیکورٹی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب تک کسی بھی باغ مالک یا بیوپاری نے سیکورٹی طلب نہیں کی ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز بھی وادی بھر میں بازار بند، تجارتی سرگرمیاں متاثر، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب، براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ معطل اور تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں فقود رہی جس سے زندگی کی رفتار مدھم رہ گئی۔پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع 6 سو سالہ قدیم اور وادی کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی حیثیت رکھنے والی تاریخی جامع مسجد بارہویں ہفتے بھی مسلسل مقفل رہی۔ حکام نے جامع مسجد کے گرد وپیش سیکورٹی حصار کو مزید مستحکم کیا تھا اور جامع مسجد کی طرف کسی بھی نمازی کو پیش قدمی کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔حکام نے بتایا کہ لوگوں کے جان ومال کے تحفظ اور امن وقانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے پیش نظر جمعہ کے روز جامع مسجد اور گر وپیش علاقوں میں بندشیں عائد کی جاتی ہیں اور بعد ازاں ان بندشوں کو شام ہونے سے قبل ہی ہٹایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ جامع مسجد حریت کانفرنس (ع) کے چیرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے اور جامع مسجد میں میر واعظ بعد از نماز جمعہ خصوصی خطبہ بھی دیتے ہیں۔ تاہم انہیں پانچ اگست سے مسلسل پہلے تھانہ اور پھر خانہ نظر بند رکھا گیا ہے۔ سری نگر کے باقی ماندہ چھوٹی بڑی جامع مساجد میں نماز جمعہ ادا کی گئی۔ وادی کے دوسری علاقوں میں بھی نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد ہوئے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق چند جگہوں پر احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ ادھر وادی میں ریل سروس پانچ اگست سے مسلسل معطل ہے۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو محکمہ پولیس اور ضلع انتظامیہ کے احکامات کے تحت بنا بر احتیاط معطل رکھا گیا ہے تاکہ لوگوں، ریلوے عملے اوراملاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ریل سروس بند رہنے سے محکمے کو بھی بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے اور لوگوں کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں جمعہ کے روز بھی بازار دن بھر بند، تجارتی سرگرمیاں متاثر اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی۔ سری نگر کے تمام علاقوں میں جمعہ کی علی الصبح بھی بازار کھل گئے اور دس بجنے سے قبل ہی یکایک بند ہوگئے اس دوران لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی جم کر خریداری کی۔عینی شاہدین کے مطابق لالچوک، پولو ویو، بتہ مالو، جہانگیر چوک، رزیڈنسی روڑ، ڈل گیٹ وغیرہ میں چھاپڑی فروشوں کو گرم ملبوسات اور سبزیوں وغیرہ کو بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔سری نگر کے ساتھ ساتھ وادی کے شمال وجنوب کے ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی جمعہ کے روز ہڑتال رہی اور بازار وتجارتی سرگرمیاں بند اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہا۔ ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں جہاں دن بھر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ جاری رہا وہیں شام کے وقت بازار بھی کھلے رہے اور اس دوران بازارو میں لوگوں کی کافی چہل پہل رہی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں اب صبح اور شام کے وقت لوگوں کا اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لئے بازار جانا معمول بن گیا ہے۔غیر اعلانیہ ہڑتال کے بیچ اگرچہ سرکاری دفاتر میں کام کاج بتدریج بحال ہورہا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے اعلانات کے باوجود طلبا کلاس روموں کے بجائے گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں تاہم مختلف جماعتوں کے امتحانات کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری ہونے کے پیش نظر تعلیمی اداروں میں طلبا کا رش بڑھ گیا ہے جو وہاں امتحانی فارم جمع کرنے، رول نمبر سلپیں وغیرہ حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ادھر مواصلاتی نظام پر جاری پابندی کو بھی بتدریج ہٹایا جارہا ہے، پہلے لینڈ لائن سروس کو بحال کیا گیا بعد ازاں پیر کے روز پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بھی بحال کیا گیا۔ تاہم براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات گزشتہ قریب ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں قائم میڈیا سنٹر سے ہی نیوز آپریشن چلانا پڑرہا ہے جہاں گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔ جگہ کی تنگی ہمارے پیشہ ورانہ کام کی انجام دہی میں طرح طرح کی رکاوٹیں حائل کررہی ہیں۔انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ساتھ ساتھ قومی دھارے اور حریت کے درجنوں چھوٹے بڑے قائدین بھی لگاتار خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنی رہائش گاہ پر ہی پی ایس اے کے تحت بند ہیں جبکہ ان کا بیٹا اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ بھی ہری نواس میں مسلسل زیر حراست ہیں۔پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی نظر بند ہیں جبکہ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی حیدر پورہ میں واقع اپنی راہئش گاہ پر نظر بند ہیں اور حریت کانفرنس (ع) میر واعظ عمر فاروق بھی نگین میں واقع اپنی ہی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں۔قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گذشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل انتظامیہ کی طرف سے جاری ایک ایڈوائزری، جس میں یہاں مقیم سیاحوں اور یاتریوں کو وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئی تھیں، کے نتیجے میں یہاں ہرسو سراسیمگی اور عدم تحفظ کے بادل سایہ فگن ہوگئے تھے جس کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد غیرریاستی مزدور و کاریگر بھی وادی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ تاہم اب مختلف ریاستوں کے مزدوروں اور کاریگروں نے دوبارہ وادی کا رخ کرنا شروع کیا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا