محمد اعظم شاہد
حق اور انصاف کے لیے بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کروانے ارباب اقتدار کی جانب سے جو جارحانہ حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں وہ ہم سب پر عیاں ہیں۔ایک ایسی روش چل پڑی ہے کہ شر پسندوں کی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیزی پر سوال اُٹھانا محال ہوتا نظر آرہا ہے۔ملک کے آئین کے مطابق مراعات شکنی کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن ثابت کیا جارہا ہے ، گویا گناہ کرنے والے گناہگاروں کی شرپسندی کو آشکار کرنے والوں کو اُلٹا گنہگار قرار دیا جارہا ہے۔سماجی حقوق کی جہد کار تیستا ستیلواڈ ،گجرات کے سابق ڈی جی پی، ٓر بی سری کمار، آلٹ نیوز کے محمد زبیرکے ساتھ جو ہورہا ہے، وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ سچ کہنے والوں پر اور سوال کرنے والوں کا دائرہ کار اور ان کی زندگی تنگ کردی جائے گی۔سچ بولنے اور حقوق کی پامالی اور نا انصافیوں کو عدلیہ کے روبرو پیش کرنے والوں کو جھوٹے اور گم راہ کرنے والے کہا جارہا ہے۔ اس ضمن میں الزامات گرفتاریاں اور عدالتی تحویل یہ اشارہ ہے تمام جہد کاروں کے لیے چپ رہو ورنہ چپ کردیئے جاؤ گے۔امن پسند احباب کی ان گرفتاریوں پر ردّ عمل کے طور پر مذمت اور احتجاج ان دیکھا اور ان سنا رہ جاتا ہے۔
میدان سیاست میں بھی خصوصی طور پر اپوزیشن سے جڑی پارٹیوں کے عہدیداروں کے مکانوں پر بھی انکم ٹیکس تو کبھی ای ڈی کے چھاپے اب معمول بن گیا ہے۔تبھی تو دل بدلی کا چلن راج نیتی میں عام ہوتا جارہا ہے۔خوف زدہ سیاست دان حکومت وقت کی تائید میں گوشہ عافیت تلاشتے رہے ہیں۔پارٹی بدل کر وہ برسر اقتدار پارٹی کی وفاداری میں لگ جاتے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ رولنگ ( برسر اقتدار)پارٹی کے حامیوں چاہے وہ وزیر ہوںیا ایم ایل اے یا پارٹی کے عہدیداران پر کسی بھی طرح کا قانونی شکنجہ کسا نہیں جاتا۔ اہانت رسولﷺ کے معاملہ کو لے کر اودے پور راجستھان میں جن دو افراد سے بربریت ہوئی ہے،اس کی مذمت میں اس کو غیر اسلامی فعل قراردیتے ہوئے تمام اہل ایمان ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔ملک کی چند ریاستوں میں بلڈوزر بربریت کے ذریعہ مسلمانوں پر قہر ڈھانے کی مذموم کوششیںہوتی رہیں۔گستاخ نپور شرما پر ملک کی عدالت عالیہ کی پھٹکار فرقہ پرستوںکو گوارا ہونہ سکی۔فیصلہ سنانے والے جج پر انگلیاں اُٹھنے لگیں یعنی صداقت موقع پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور اب بھی یہی چلن عام ہے۔
ہریانہ کے ایک گاؤں منسیرا سے خبر آئی ہے کہ وہاں کی پنچایت میں بجرنگ دل اور وشواہندو پریشد کے ارکان بھی شریک رہے۔یہاں فیصلہ لیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا تجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔اپنی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ فون نہیں بلکہ ہتھیار رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ابھی حال میں ایک سادھو نے ہندوؤں کو آواز دی ہے کہ چن چن کر مسلمانوں کو ماردیا جائے۔سادھو سنت اخوت بھائی چارہ اور امن کا پیغام دیا کرتے تھے، آج کچھ نامراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے مذہبی منافرت پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ حیرت ہونی ہی چاہیئے کہ کچھ ایسے بڑے مجرم ہیں جو سراُٹھائے شان سے اپنی زبانوں سے زہر اگلتے رہتے ہیں۔ ان پرقانونی کاروائی نہیں کے برابر رہ جاتی ہے۔
چند دن قبل دلّی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر منعقدہ دوزہ سیمی نار میں متفقہ طور پر یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ تناظر میں مسلمانوں کو منفی سوچ سے دور رہ کر مثبت طرزِ فکر و عمل پر پابند رہنا ہے۔ متعصب رویوں اور شر پسند چالوں سے نجات کے لیے ترقی کی راہوں پر ثابت قدم رہنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔دیگر برادران وطن و دختران وطن کی طرح مسلمان اپنی بقاء اور شناخت کے لیے صرف تعلیم ، تعلیم اور تعلیم کے حصول سے جڑ جائیں۔
ملک میں بسنے والے بے شمار بے آواز ہم وطنوں کے بے شمار مسائل ہیں جن کے حل کے لیے ضروری اور منصوبہ بند طور پر اقدامات سے آنکھیں چرائے ارباب اقتدار شرپسندوں کی شر انگیزی کا کھیل دیکھنے کے عادی تماشائی ہوگئے ہیں۔آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ جب سر اُٹھاتا ہے تو جن سے حالات کو قابو کرنے کی توقع کی جاتی ہے وہ اس طرح خاموش رہ جاتے ہیں گویا بے زبان ہوگئے ہیں۔بے روزگار ی اور مہنگائی سے کوئی سروکار ہی انہیں نہیں رہا ہے۔جنتا جناردھن کے کلیان کی باتیں کرنے والوں کو۔ ملک کس سمت جارہا ہے، ایک نظر سنجیدگی سے دیکھنے کی بھی فرصت کہاں ہے’’کرم فرماؤں کو‘‘