محمد اعظم شاہد
ستر کی دہائی میں کرناٹک کے بصیرت ور اور پسماندہ طبقات کے حامی وزیراعلیٰ ڈی دیوراج ارس نے پہلی بار ریاست میں آئینی مراعات اور تقاضوں کے تحت بیک ورڈ کلاسس ( پسماندہ طبقات ) کمیشن قائم کیا تھا، ایل جی ہاؤز نور کی قیادت میں قائم کردہ کمیشن کی ریاستی رپورٹ کے مطابق ریاست میںاقلیتوں ، پسماندہ طبقات اور دلتوں کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کے تدارک کیلئے ریزرویشن بنانے اور سماجی و معاشی ناہمواریوں سے عملی طور پر نمٹنے میںکسی حد تک کامیاب رہا ۔ دیوراج ارس جنہیں یہ یقین تھاکہ پسماندہ طبقات کی خوشحالی سے ریاست میں ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ یہ اس لئے بھی ضروری سمجھا گیاکہ ریاست کی کل آبادی کا کثیر حصہ پسماندہ طبقات ، جن میں اقلیتیں بشمول مسلمان، دیگر پسماندہ طبقات اور دلت شامل ہیں، پر مشتمل تھا، دیوراج ارس نے اقلیتوں، دیگر پسماندہ طبقات اور دلتوں کو ایک ساتھ اجتماعی طورپر کنڑا میں ’’اہندا ‘‘ Ahinda کہا ۔ دیوراج ارس جو دو میعادوں ( 1972 تا 1977 ء اور 1978 تا 1980) کیلئے وزیر اعلیٰ رہے ۔ ان کے اقدامات کی تقلید میںپسماندہ طبقے سے وابستہ سدارامیا نے اہندا کو مضبوط کرنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ سال 2013 ء سے قبل انہوں نے اہندا کے ریاستی سطح پر کنونشن کروائے تاکہ پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق سے متعلق بیداری عام کی جائے ۔ اہندا کے رہنما کے طورپر ابھرنے والے سدارامیا جب 2013 ء میں وزیراعلیٰ بنے تو ریاست میں بشمول مسلمانوں میں بڑھتی پسماندگی دور کرنے سرکاری سطح پر فلاحی پروگرام تیار کرنے کانت راج کی قیادت میں بیک ورڈ کلاسس کمیشن قائم کیا۔ ذات پات سروے پر مبنی رپورٹ تیار ہوئی جس میں معاشی ، سماجی ، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی کامکمل اور بھرپور جائزہ لیاگیا۔ سدارامیا حکومت کی میعاد کے بعد مخلوط حکومت ، جس میںکانگریس اور جنتادل شامل تھے ، نے اس رپورٹ کو منظور کرنے میں کوتاہی برتی اور بہانے بازی ہوتی رہی۔ پھر اس کے بعد بی جے پی کے دور حکومت میں کانت راج کمیشن رپورٹ کو تسلیم کرنے کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہوکر رہ گیا ۔ کسی نہ کسی طرح غیر سرکاری طورپر یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ کانت راج کمیشن رپورٹ میں ریاست میںموجودہ آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر دلت پھر مسلمان اور بعد میں دیگر پسماندہ طبقات کے ہونے کا انکشاف کیاگیا ہے اور جو روایتی طورپر اعلیٰ ذات کے لنگایت اور وکالیگا طبقات ہیں، ان کا تناسب کم ہے ۔ سیاسی ، تعلیمی ، معاشی اور سماجی اعتبار سے خوشحال ان دونوں طبقات نے اپنی مضبوط دعویداری کے باعث اب تک بشمول سیاسی ہر شعبے میں اپنی فوقیت کو بنائے رکھا ہے ۔ اب چونکہ ان قیاس آرائیوں کے درمیان کانت راج کمیشن کو اعلیٰ ذات کے طبقات نے غیر منطقی ، غیر سائنٹفک اور ناقص ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے اور حکومت پر ان اعلیٰ ذات طبقات کے سیاسی نمائندے جو بلا تفریق سیاسی وابستگی ، سب نے اس مجوزہ رپورٹ کو حکومت کی جانب سے نامنظور کرنے یا یوں کہئے کہ اسے رد کرنے دباؤ بنانا شروع کردیا ۔ سابقہ بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کو جو ریزرویشن ٹو بی زمرے میں حاصل تھا، اسے بھی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے رد کردیاگیا اور زمرے کے فوائد اعلیٰ ذات طبقات کو دے دئے گئے ، اس معاملے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ پہلے کی طرح مسلمانوں کا ریزرویشن بحال رکھا جائے ۔
مئی 2023 ء میں سدارامیا کی قیادت میں برسراقتدار کانگریس حکومت نے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبودی کیلئے کانت راج کمیشن رپورٹ کو منظور کرنے اور اس کے نفاذ کا ارادہ کرلیا تو سیاسی گلیاروں میں وکالیگا اور لنگایت طبقات کے سیاسی نمائندے جن میںکانگریس کے چند اور بی جے پی اپوزیشن کے تمام احباب نے رپورٹ کی سفارشات کو بے ہنگم قرار دیتے ہوئے اپنے اعتراضات جتانے شروع کردئے ۔ یہاں واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرناٹک میں طاقتور وکالیگا اور لنگایت روایتی اکثریت والی ساکھ برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہیں، اور کسی بھی طرح پسماندہ طبقات کو با اختیار ہوتے دیکھنا گوارا نہیں کرنا چاہتے ۔ سوال یہ ہے کہ مجوزہ رپورٹ کی منظوری کے بعد ہی تو اس کی سفارشات منظر عام پر آسکتی ہیں، محض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر اس رپورٹ کی صداقت پر سوال اٹھانا غیر جمہوری ہی نہیں یہ غیر اخلاقی روش لگتی ہے ۔ ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کی پسماندگی کے ساتھ ساتھ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی معاشی ، سماجی ، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی دور کرنے اور حکومت کی جانب سے متعلقہ عملی اقدامات پر حکومت کی توجہ راغب کرنے 28 جنوری 2024 ء کو چتردرگہ شہر میں اہندا یعنی پسماندہ اور مظلوم طبقات کا ریاست گیر نمائندہ اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کیا۔ سدارامیا نے اس موقع پر اعلان کیا ہے کہ حکومت کرناٹک کانت راج پسماندہ طبقات کمیشن کی سفارشات کو تسلیم کرے گی ، اس طرح پسماندگی کے تدارک کیلئے معاشی ، سماجی، تعلیمی اور سیاسی طورپر اقلیتوں بشمول مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کیلئے نئی ریزرویشن پالیسی مرتب ہوگی اور نئی فلاحی اسکیموں کا نفاذ عمل میں آئے گا ۔
یوں بھی مانا جا رہا ہے کہ کانت راج رپورٹ میں جو ذات پات سروے کی بنیاد پر اعداد و شمار یعنی ڈاٹا جمع کئے گئے ہیں، اس میں مسلمانوں کی پوزیشن اول نمبر پر ہوگی ۔ شاید اسی لئے مسلمانوں کو پچھڑے طبقے کے طور پر دیکھنے والوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ یہ مذکورہ رپورٹ کسی بھی طرح منظور ہو۔ کرناٹک میں ڈاکٹر کے رحمن خان کی قیادت میں کرناٹک اقلیتی کمیشن کا اقلیتوں کا پہلا ڈور ٹو ڈور سروے عمل میں آیا، اورپھر قومی سطح پر 2006 ء میں جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ میں بھی یہ ثابت ہوا کہ مسلمان سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے دلتوں سے بھی پچھڑے ہوئے ہیں، ان کی آبادی کے تناسب سے ان کی تمام شعبہ ہائے حیات میں نمائندگی انتہائی کم ہے ، اس پسماندگی کو دور کرنے جب بھی حکومت کی جانب سے کوئی اقدام ہوتا نظر آتا ہے
، اس میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں، کرناٹک میں دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے روشن خیال سیاسی اور سماجی نمائندے مسلمانوں کو با اختیار بنانے انہیں Empower کرنے ان کی حمایت میں ہیں، مگر بی جے پی کو اور دیگر فرقہ پرست عناصر کو یہ کھٹکنے لگا ہے ، دیگر مظلوم Exploited طبقات کی طرح مسلمانوں کو بھی پسماندگی میں گھرے رہنے پر کچھ اعلیٰ ذات کے نمائندے متمنی نظر آتے ہیں، حیرت یہاں اس بات پر بھی ہے کہ خود مسلمانوں میں مجوزہ اس کمیشن کی رپورٹ سے متعلق آگہی اور رپورٹ کی سفارشات کے نفاذ کیلئے مطالبہ کرنا اور حکومت کرناٹک کی توجہ مبذول کروانے کے معاملے میں مجموعی اعتبار سے خاموشی دیکھی جا رہی ہے ، جو نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ باعث تشویش بھی نظر آتی ہے ۔ اگر چوکنا ہیں کوئی تو چوکنا ہونے کی دلیل بھی تو ہو ۔