✍ڈاکٹر سیما شفیع
آج اتوار کا دن تھا چھٹی کی وجہ سے سب گھر پر تھے ۔ فجر صبح سے کچھ پریشان نظر آ رہی تھی ۔ نئیر اور عروسہ بھی اسے دیکھ کر کافی پریشان تھیں کئی مرتبہ اسے مختلف مشورے بھی دیئے مگر کسی مشورے میں انہیں خود بھی جان دکھائی نہ دی۔ امی جی نے کئی مرتبہ آتے جاتے تینوں پر نظر ڈالی مگر کچھ نہ پوچھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ بچے اپنا مسئلہ خود آ کر بیان کریں یا خود اسے حل کریں۔ آخر کار تنگ آکر تینوں بچیاں امی جی کے پاس آ گئیں۔ امی جی جو اپنی کتابوں کی الماری کی ترتیب درست کر رہی تھیں، انہیں دیکھ کر مسکرائیں! "نہیں حل ہوا ؟”
تینوں حیرت سے امی جی کو دیکھنے لگیں۔ "آآ۔آ۔۔آپ کو کس نے بتایا؟” فجر نے ہکلاتے ہوئے پوچھا!
"تمہاری پریشانی نے!” امی جی ایک مرتبہ پھر مسکرائیں!
"کیا؟” نئیر حیرت زدہ سی بولی!
"یہی کہ کوئی "ترچ میر” ہے جو ہماری فجر کو سر کرنا ہے!” امی جی کے چہرے پر اب مسکراہٹ کے علاوہ کچھ شرارت کا عنصر بھی نمایاں تھا۔
فجر کے خوبصورت خدوخال نے جیسے مدت بعد مسکراہٹ محسوس کی ہو اسی لئے کافی کھنچی ہوئی تذبذب کا شکار مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔
قدرے متذبذب، قدرے پرسکون اس نے ایک لمبی سانس لے کر آخر کار دل کا حال امی جی کے سامنے ایک جملے میں رکھ دیا۔
"امی جی میں برقعہ پہننا چاہتی ہوں!”
امی جی کے چہرے کی مسکراہٹ کے ساتھ موجود شرارت کی جگہ حیرت نے لے لی، کیونکہ پانچویں جماعت کی طالبہ فجر ابھی صرف 10 برس کی تھی۔ (یہ اور بات کہ اپنی صحت مند جسامت کی وجہ سے وہ چودہ کی نظر آتی تھی، اور بلا کی حسین بھی تھی)
"سکول کے سامنے کچھ لڑکے ہمیں تنگ کرتے ہیں!”
امی جی کی خاموشی کو ناراضگی سمجھتے ہوئے کمزور سی چھوٹی سی دِکھنے والی فجر کی ہم عمر عروسہ فورا بولی۔
"تم بھی پہنو گی؟” امی جی نے حیرت سے عروسہ کو دیکھا،
"ناااہی امی جی!” عروسہ کھسیانی سی ہو گئی۔ "صرف فجر”
"امی ابو نے منع کیا ہے؟” فجر سے سوال کیا گیا۔
"انہیں ابھی نہیں بتایا، اور وہ روکیں گے بھی نہیں! بلکہ امی تو پہلے مجھے بڑی چادر لینے کا کہہ چکی ہیں۔”
"تو کون روک رہا؟” امی جی مستفسر ہوئیں ۔
"لوگ کیا کہیں گے؟” عروسہ اور نئیر اکٹھے بولے۔
"اب جیسے مناہل باجی میڈیکل کالج تک پہنچ چکی ہیں اب انہیں قرآن تجوید سے پڑھنے کا شوق ہے مگر لوگوں کی باتوں کے ڈر سے اپنا شوق پورا نہیں کر پا رہیں۔” مناہل کو قریب آتا دیکھ کر فجر نے جلدی سے بات بدلنے کی کوشش کی۔
امی جی ایک مرتبہ پھر چونکیں۔ مناہل کو دیکھتے ہوئے بولیں جو ان کے قریب بیٹھ چکی تھی۔ "کیوں مناہل اس میں کیا شرم ہے؟”
"اس عمر میں امی جی ! لوگ ہنسیں گے نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ باتیں بنائیں گے کہ اتنی لائق تھی کہ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور قرآن کو بیچ میں چھوڑ دیا۔”
"ہممم !” امی جی نے کچھ سوچتے ہوئے ایک لمبا ہنکارا بھرا !
"تو برقع پہننے کو فجر کی عمر کم ہے اور قرآن پڑھنے کو مناہل کی عمر زیادہ ہے۔ لوگ تو باتیں بنائیں گے۔ کیونکہ لوگوں کا تو کام ہی یہ ہے۔ تو کیا ہم لوگوں کی وجہ سے اپنے کام اپنی ضروریات اپنی ترجیحات چھوڑ دیں؟” سوالیہ نظروں نے سب کے چہروں کا طواف کیا۔
"ایک کہانی سنو!”۔۔۔۔ امی جی نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے پیار سے کہانی کا آغاز کیا۔
"ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک قافلہ جس میں بوڑھے، بچے، جوان، عورتیں سب شامل تھے، ایک ریگستان میں بھٹک گیا۔ کافی عرصہ بھٹکتے رہنے کے بعد جب سب زاد راہ ختم ہو چکا تھا، ایک رات انہیں ایک شہر کی بلند و بالا دیواریں نظر آئیں قریب پہنچے تو دیواروں جتنا ہی اونچا آہنی گیٹ نظر آیا جو بند تھا۔ گیٹ کھٹکھٹایا گیا، لوگ چیخے چلائے آوازیں دیں مگر آدھی رات کا وقت تھا گیٹ نہ کھلا۔ قافلے کے جوانوں نے فیصلہ کیا کہ دیوار پر چڑھ کر گیٹ دوسری جانب سے کھولا جائے۔ لہذا جوان سیدھی مظبوط بلند فصیل پر لگے چڑھنے۔ عورتوں بچوں اور بزرگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ گر گئے تو ہڈی پسلی سلامت نہیں رہے گی۔ مگر اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ قافلے کے کمزور ساتھیوں کی جان بچانا بھی ضروری تھا۔” امی جی نے بڑے پیارے انداز میں آواز کو ہمدردی کے تاثرات سےمزین کیا۔
"جوان جوں جوں اوپر چڑھتے گئے لوگوں کا شور بڑھتا گیا۔ ہر ایک آواز اپنا خوف لئے ہوئے تھی۔ اور پھر آہستہ آہستہ ایک ایک جوان ہمت ہارتا گیا اور گرتا گیا۔ حتی کہ تمام جوان نیچے آ گرے مگر لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ایک جوان دیوار پر بیٹھا دوسری جانب پلٹ رہا تھا۔ اور تھوڑی دیر بعد اس نے گیٹ کھول دیا قافلہ شہر میں داخل ہو گیا۔ نوجوانوں نے اس جوان کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ بزرگوں نے اس سے حیرت سے معلوم کیا کہ وہ کیسے دیوار سر کرنے میں کامیاب ہوا، تو معلوم ہوا کہ وہ جوان بہرہ تھا۔” امی جی تھوڑی دیر کو خاموش ہوئیں اور پھر سلسلہ کلام جوڑا۔ "اسکی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ وہ نیچے کھڑے لوگوں کی آوازیں نہیں سن سکا۔ اور اپنے مصمم ارادے پر قائم رہا۔”
*”اس سے کیا معلوم ہوا کہ ہم جب بھی کوئی کام شروع کرنا چاہتے ہیں تو سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کا ڈر ہوتا ہے جو ہماری راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور ہمارا اپنے اوپر اعتماد ختم کر کے ہمیں بزدل بنا دیتا ہے۔”
*”اگر ہم بھی لوگوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں اور اپنا کام کرنے کی ٹھان لیں تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔*
سب بچیوں کی آنکھوں میں عزم اور امید کے جگنو چمکنے لگے۔ امی جی پرسکون سی وضو کرنے کے لئے آٹھ گئیں۔