ڈاکٹر منصور خوشتر کا مجموعۂ کلام ’’کاسۂ دل‘‘میری نظر میں

0
0

ڈاکٹر احسان عالم
ڈاکٹر منصور خوشتر ادبی سرگرمیوں میں منہمک رہنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔ ان کی تقریباً ڈیڑھ درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تخلیقات و تصنیفات کے علاوہ صحافتی خدمات بھی بڑی ہی دلجمعی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ سیمینار ، ورکشاپ ، سمپوزیم اور مشاعرہ کرانے کی انتظامی صلاحیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کس سے کام لینے کا ہنر سے وہ بخوبی جانتے ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب ’’کاسۂ دل‘‘ ڈاکٹر منصور خوشتر کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل پہلا شعری مجموعہ ’’کچھ محفل خوباں کی ‘‘منظر عام پر آکر قارئین سے پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ 352صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ کلام اپنے اندر نعت پاک، غزلیات، منظومات اور نظمیں برائے اطفال سمیٹے ہوئے ہے۔ کتاب کا انتساب عالمی شہرت یافتہ شاعر ، منظوم ناقد، مبصر ، مقالہ نگار اور تذکرہ نویس پروفیسر عبدالمنان طرزی کے نام ہے۔ کتاب دربھنگہ ٹائمز پبلی کیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی بائنڈنگ ، ڈیزائن اور کاغذ نہایت عمدہ اور نفیس ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکاہے کہ مجموعۂ کلام میں نعت پاک، غزلیں ، نظمیں اور بچوں کے لئے نظمیں شامل ہیں۔ لیکن مجموعہ کا خاص محور غزلیات کا حصہ ہے۔ لہٰذا غزلوں کے حوالے سے زیادہ گفتگو کا متمنی ہوں۔
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے ’’خوشتر: وادیٔ صحافت سے ایوان غزل تک‘‘ کے عنوان سے اپنے منظوم تاثر میں لکھا ہے:
وقارِ عشق کو ملحوظ خوشتر نے ہے یوں رکھا
کہ ہے شعری ادب میں کاسۂ دل ایک گنجینہ
یہ وہ اشعار ہیں پڑھ پڑھ کے جن کو لطف لیتا ہوں
دعائیں دل سے خوشتر کو بہت میں اپنی دیتا ہوں
دکھائی دیتی ہے شعروں میں ایسی جلوہ سامانی
سلاست، سادگی کی ہر قدم پر ہے فراوانی
شوکت محمود شوکت (پاکستان) ’’کاسۂ دل: کلاسیکیت و جدیدیت کا حسین امتزاج ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’کتنی آسانی اور سادگی سے کتنے بڑے اور اہم مضامین کو لباسِ شعر میں مزین کر کے عام فہم بنادیا ۔ دور حاضر میں اس طرح کی مثالیں تقریباً ناپید ہوچکی ہیں مگر حال ہی میں، ایک شعری مجموعہ طباعت آشنا ہونے جارہا ہے۔ جس کا سرِ نامہ ’’کاسۂ دل‘‘ ہے اور جس کے خالق ڈاکٹر منصور خوشتر ہیں۔ ‘‘
نعمان نذیر راولپنڈی ، پنجاب (پاکستان) مجموعۂ کلام ’’کاسۂ دل‘‘ کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’منصور خوشتر کے کلام میں ماضی کی یاد بھی ہے اور عصری آگہی بھی۔ گزشتہ چند برسوں میں کرونا وبا نے زندگی کو جس طرح سے متاثر کیا اس کا عکس دیا اخلاقی قدروں کے زوال کا بیان ان کی غزل کا حصہ ہے۔ ان کے کلام میں زبان کا روایتی آہنگ بھی ہے اور نئی روایت و اقتدار بھی۔ ‘‘
سرور غزالی (جرمنی) ’’کاسۂ دل‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :’’ منصور خوشتر کی شاعری کا انداز منفرد ہے۔ وہ اپنی ادبی اور صحافتی زندگی میں ایک بے لا گ اور بے باک صحافی ہیں۔ لیکن ان کا دل ایک معصوم اور گداز جذبے سے پر ہے۔ وہ زمانے کا درد دل میں بسائے اب شعر و سخن میں معرکہ دل، غزل کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد اشرف کمال (پاکستان) لکھتے ہیں کہ منصور خوشتر اردوکے غزل گو شاعرو ں میں ایک ایسا نام ہے جس میں نوجوانی کی رنگین خیالی بھی پائی جاتی ہے اور خوش بیانی بھی۔ ا ن کی غزل میں جوان امنگیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور پختہ کاری بھی۔
احمد سہیل (امریکہ) ڈاکٹر منصور خوشتر کے مجموعۂ کلام ’’کاسۂ دل ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کاسۂ دل‘‘ میں اردو غزل کو دوبارہ اور حسساسیت کو پھر سے جگانے کی کوشش کی ہے۔ جو اردو غزل کی معنی خیزی اور اس کے فکری تموج کو بیان کرتا ہے اور دلفریب بھی بناتا ہے۔ اس میں ماضی ، حال اور مستقبل میں ایک رابطہ ہوتا نظر آتا ہے ۔ اور غزل کا مزاج منتشر نہیں بلکہ ایک نکتے پر غزل کی نئی تہذیب کو سمیٹ لیا گیا ہے۔
اپنی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر منصور خوشتر اپنے پیش لفظ بعنوان ’’نام قارئین کے، باتیں اپنی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میری غزل گوئی یا غزل سرائی بھی کچھ ایسے ہی حالات کی عطائے بے بہا ہے۔ پہلا مرحلہ تو صرف گنگانے تک رہا لیکن رفتہ رفتہ عروسِ سخن کی قربت حاصل ہوتی گئی اور ریت پر مشقِ نام لیلیٰ کے عمل نے ایوان غزل کی دائمی رکنیت حاصل کرلی۔ اپنی علمی بساط، زور نگارش ، توانائی اظہار اور فنی استعداد کی بنیاد پر مصارع اور اشعار وجود پذیر ہوتے رہے اور بتدریج نقش اول سے نقش ثانی بہتر کے مراحل طے کرتا ہوا منزل تک پہنچا ہوں اور وہی سرمایۂ منزل پیش قارئین ہے۔‘‘(ص:35)
غزل ہر زمانے میں اردو ادب کی محبوب ترین صنف سخن رہی ہے۔ اس صنف پر کڑے وقت بھی آئے تاہم ان سے اپنے وجود کو صحیح و سالم گزارتے ہوئے اس نے اپنی مقبولیت ، ہر دلعزیزی کو برقرار رکھا۔ ہر د و رمیں غزل کا لہجہ ، رنگ اور آہنگ پہلے سے مختلف رہا ہے۔ اس طرح مختلف ادوار میں غزل کا مطالعہ ایک اہم او ر دلچسپ موضوع رہا ہے۔ ہر دور کے شعرا نے غزلوں کے ذریعہ اپنے دلی احساسات و جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فی الحال ڈاکٹر منصور خوشتر کی غزلیہ شاعری سے بحث کرنی ہے۔
حمد اور نعت پاک کے بعد ڈاکٹر منصور خوشتر نے غزلیات کا طویل سلسلہ پیش کیا ہے۔ ان کے غزلیہ اشعار گنگنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں موجوں کی روانی ، جواں دلوں میں ترنگیں پیدا کرنے والی کیفیت ، موسیقی کی مانند نغمگی پائی جاتی ہے۔ شاعر چونکہ نوجوان ہے اس لئے اس کے دل کی دھڑکنیں اور مختلف انگوں کی انگڑائیاں ان کے اشعار میں محسوس کی جاسکتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں اور محظوظ ہوں:
وفا جب سے تری، دل میں بسی ہے
کسی شے کی نہیں مجھ کو کمی ہے
کسی کی یاد آئی جو اچانک
تو دل کی بے قراری بڑھ گئی ہے
٭٭
کس قدر رسوا ہوئے تیرے لئے
بھیڑ میں تنہا ہوئے تیرے لئے
٭٭
کوچۂ محبوب میں جاتے ہو کیوں
دل کے بہکانے میں تم آتے ہو کیوں
کیا بھروسہ آتی جاتی چھائوں کا
تم وفا پہ اُس کی اتراتے ہو کیوں
غزل کا شاعر بنیادی طورپر داخلی محسوسات کو اپنی شاعری کاموضوع بناتا ہے اور اسے اپنے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر ایسے ہی شاعر ہیں جو زندگی سے خارجی معلومات تو حاصل کرتے ہیں لیکن اپنے اشعا رکی انفرادی قوتوں سے قارئین کے خیالات میں ایک خاص قسم کی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں فکر کی گہرائی اور وسعت نمایاں ہے۔ ان کی فکر اور ان کے جذبوں میں تازگی ہے۔ فکر کی گہرائی کے ساتھ اس میں جمالیاتی رنگ و آہنگ بھی موجود ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
جہالت کا فروغ ایسا ہوا کہ
بہت ارزاں لیاقت ہوگئی ہے
کسی کی بے وفائی کو بھی سہہ لوں
یہ خوشترؔ اپنی عادت ہوگئی ہے
٭٭
مقدر ہی سمجھ لیں گے ترے جور و جفا کو ہم
مگر تیرے لئے ہر شادمانی چھوڑ جائیں گے
جسے سن کر زمانہ بھی کچھ ہوجائے گا نم دیدہ
اک ایسی زندگی بھر کی کہانی چھوڑ جائیں گے
٭٭
وہ تعلق جس کا ہو سکتا نہیں کچھ نام بھی
تو میری حاجت تو میں تیری ضرورت یاد ہے
٭٭
ہم محبت میں تو کچھ وہم و گماں تک پہنچے
وہ دل آزاری میں بتلائیں کہاں تک پہنچے
اس سے کردار کی عظمت کا پتہ چلتا ہے
دل میں ہو جیسی وہی بات زباں تک پہ
غزل بہت حد تک زندگی کا عکس ہے۔اس میں انسانی محبت، عداوت، مسرت، الفت، نفرت، دوستی، دشمنی، امید ، ناامیدی، کامیابی، ناکامی سبھی کچھ موجود رہتی ہیں۔ یہ جذبے کبھی ایک دوسرے کے اشتراک سے اور کبھی ایک دوسرے کے مخالف بن کر اشعار میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جس طرح زندگی ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور اپنے بدلتے ہوئے انداز کے اظہار کے لئے نئے نئے سانچے بناتی ہے اسی طرح غزلوں میں فکری تبدیلی آتی ہے۔ڈاکٹر منصور خوشتر کلاسیکی انداز بیان کے ساتھ نئے تلازمات اور نئے پیمانے کو اپنے اشعار میںاپناتے ہیں۔ ذات اور کائنات کو مخصوص معیار پر پرکھنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں ۔وہ اپنے احساسات اور جذبات کی وضاحت اپنی غزلوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ان کا اظہار اس طرح رونماہوتا ہے:
تیری شہرت کا سبب ٹھہری مری دیوانگی
کام اتنا تو کسی کے آگئی دیوانگی
اس کے عزم و حوصلے کی حدکوئی ہوتی نہیں
حاوی ہوتی ہے کسی پر جب کبھی دیوانگی
٭٭
درد کو تیرے سنبھالا ہے امانت کی طرح
یاد ہے شام و سحر تیری عبادت کی طرح
اپنے اسلاف سے خودداری کی دولت پائی ہے
اس کو سینے سے لگائے ہوں وراثت کی طرح
منصور خوشترکی غزلیں ان کی زندگی کے آئینہ دار ہیں، زندگی او ر عمل دونوں کو ایک دوسرے کا آئینہ بناکر پیش کیا ہے۔ ان کا تخلیقی جوہر روایات کے جمالیاتی سرچشمے سے ابھرتا ہے جس میں عصریت کی لہریں موج زن ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری انفرادیت کی خوشبو بھی رکھتی ہے اور عصری آفاقی دھنک کی کیفیت بھی۔ انہوں نے تشبیہہ، استعارہ اور علامت کو تخلیقی سطح پر بڑی سادگی اور پرکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے خیالات کی ترجمان ان اشعار میں تلاش کریں:
اے مری جانِ وفا، جانِ غزل، جانِ سخن
تیرے دم سے ہے کھِلا میری نگارش کا چمن
تیرے قدموں کے زمیں لیتی ہے بوسے کیا کیا
جھک کے پیشانی تری چومتا ہے نیل گگن
٭٭
یہاں تو بھائی کی جاں کا ہے دشمن بھائی خود ہی
بسائی تھی جو آدم نے یہ وہ دنیا نہیں ہے
نئی تہذیب ہی نے کی ہے ’نیورو سرجری‘ جو
ہمارا خود ، ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے
ڈاکٹر منصور خوشتر غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی لکھتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل ان کی پہلی نظم ’’ماں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ماں ایک مقدس رشتہ ہے جس نام ذہن میں آتے ہیں انسان اپنے سارے غموں کو بھول جاتا ہے اور ماں کے پاس چند لمحہ گزارنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ جس کے قدموں تلے جنت ہو اس عظیم شخصیت کا کیا کہنا ۔ شاعر اپنی ماں کے حوالے سے لکھتا ہے:
ماں کسی انسان کی دنیا میں ہے دولت بڑی
وہ ہے راضی گر تو راضی ہے خدائے پاک بھی
وہ اٹھاتی بال بچوں کے لیے ہر رنج و غم
چاہتی اللہ سے ان کے لئے فضل و کرام
منصور خوشتر کی نظمیں بے ساختہ شروع ہوتی ہیں اور پھر پوری فنی چابکدستی کے ساتھ اپنی ترسیل کو تکمیل تک لے جاتی ہیں۔’’عید کی خوشی‘‘کے عنوان سے ایک نظم ’’کاسۂ دل ‘‘ میں شامل ہے۔ عید مسلمانوں کا ایک مشہور تہوار ہے۔ سال بھر لوگ اس تہوار کے منتظر رہتے ہیں۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب عید کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں ۔ خاص طو ر سے اس موقع پربچوں کی خوشی کا کیا کہنا۔ اس کے خوشی کی ایک اور وجہ یہ ہے یہ تیس روزہ رکھنے کے بعد آتی ہے۔ تیسوں روزہ ایک تہوار کی شکل میں گزرتا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سال میں آیا کرتی ہے اک بار ہی
آئو مل کر منائیں خوشی عید کی
ہم نے رب کی رضا میں جو روزے رکھے
ہے اسی کا سلہ یہ خوشی عید کی
آج ہم جھکتے ہیں بھی جو پیشِ خدا
اس میں پوشیدہ ہے عظمت اسلام کی
بیٹی اللہ کی جانب سے عطا کردہ رحمت ہوتی ہے۔ ہمارے نبی سرکار دو عالم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک ، دو یا تین بیٹی کی اچھی پرورش کی وہ جنتی ہے۔ دنیا نے کچھ وجوہات کی بناپر بیٹی کو زحمت تصور کرلیاہے لیکن وہ حضرات جو خوف خدااور رسولﷺ کا پیغام ذہن میں رکھتے ہیں وہ اسے رحمت گردانتے ہیں ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر بھی اپنی بیٹی ثنا کی پیدائش پر کافی خوش و خرم نظر آتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں:
گھر ہمارے آئی اک ننھی پری
جیسے خوابوں کی ہو شہزادی کوئی
یہ محبت کا ہماری اعتبار
اس کو ہی کہتے ہیں فصلِ بہار
یہ شگفتہؔ کے چمن کی ہے کلی
آرزو کہئے دلِ منصورؔ کی
پروفیسر مناظر عاشق ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔ان کی شخصیت او ر فن پر ڈاکٹر منصور خوشتر نے منظوم تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اس نظم سے چند اشعار ملاحظہ کریں:
کچھ ایسی ہستیوں میں مناظر کا ہے شمار
اردوکے گلستاں میں سدا جن سے ہے بہار
ناقد، ادیب اردو کے شاعر ہیں باوقار
موصوف ایک ایسے ہیں دانائے روزگار
ڈاکٹر منصور خوشتر نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ یہ نظمیں ادب اطفال میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کرونا کے دوران بچوں کے لئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہوئی کہ وہ اسکول سے محروم ہوگئے۔ کچھ اسکولوں نے آن لائن کلاس کانظم کیا ۔ اس آن لائن اسکول سے متاثر ہوکر بچے کے دلی احساسات کو منصور خوشتر نے اس طرح بیان کیا ہے:
اسکول اب ہمارا
ہے آج لائن چلتا
آئی وبا کرونا
جس نے ہے سب بگاڑا
اسکول کی پڑھائی
کچھ اور بات رکھتی
یارب تو اس بلا سے
ہم سب کو اب بچالے
بچے آپس میں بہت جلد ایک دوسرے کے دوست ہوجاتے ہیں۔ ساتھ مل کر پڑھنا، کھانا اور کھیلنا بڑوں کے لئے ایک پیغام ہے۔ بچوں کی اس خوبی کو منصور خوشتر نے ’’میرا دوست‘‘ عنوان سے اپنی نظم میں بیان کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
راشد اک نادار ہے ساتھی
خوب کریں گے اس کی مدد بھی
پاپا سے ہی دلواوں گا
ساری کتابیں اور کاپی بھی
پڑھنے میں وہ تیز بہت ہے
سب ٹیچر کی رائے ہے ایسی
اس سے کروں گا ایسی محبت
مجھ کو دنیا داد بھی دے گی
اکثر اسکولوں میں سالانہ تقریب کا انعقاد ہوتاہے ۔ اس تقریب کے موقع پر بچوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ تقریب میں شرکت کے لئے وہ لمبے عرصے سے تیاری کرتے ہیں۔ جب وقت قریب آتا ہے تب وہ مزید خوشی محسوس کرتے ہیں۔ تقریب کے دن وہ صبح سویرے تیار ہوکر اسکول جاتے ہیں اور وہاں جانے والے جشن میں شرکت کرتے ہیں۔ بچوں کے ان احساسات و جذبات کو نظمیہ پیکر میں ڈھالتے ہوئے منصور خوشتر نے لکھا ہے:
اسکول میں ہمارے تقریب اک ہوگی
آئیں گے جس میں اپنے وہ شکچھا منتری بھی
تیاری بھی اس کی زوروں پہ چل رہی ہے
اسکول کی عمارت دلہن بنی ہوئی ہے
اس طرح ڈاکٹر منصور خوشتر کے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی یہ کتاب ’’کاسۂ دل‘‘ مطالعہ طلب ہے۔ اس میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جو دل کی دھڑکنوں کو بڑھا دیتے ہیں اور گنگنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں کے دو اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرتاہوں:
تیرگی حاوی نئی تہذیب پر ہے اس طرح
اب تو گھبرانے لگا ہے روشنی سے آدمی
کون کہتا کہ بہت دشوار ہے اس کا حصول
عزم ہو تو پائے منزل گمرہی سے آدمی

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا