چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

0
0

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001 | 9906111091

بیٹی نادیہ! سنو آج بعد دوپہر افتخارصاحب اوران کی بیگم اپنے بیٹے کے ساتھ تجھے دیکھنے آرہے ہیں۔
لڑکامحکمہ مال میں تحصیلدار ہونے کے ساتھ ساتھ دیندار اور صوم وصلوٰۃ کابھی پابند ہے ۔ اس لئے پردے کا پورا خیال رکھنا اور اپنی آواز کو پست رکھنا کیونکہ تجھے زور سے بولنے کی عادت ہے ۔ وہ لوگ فیشن اور بناؤ سنگار کے بھی سخت مخالف ہیں۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھنا ۔
آج کل چونکہ کرونا کی وبا ہے اور وہاں ہم سب مل کر قریباً بیس لوگ ہوںگے اس لئے تم گھر کے اندر بھی ماسک کا استعمال جاری رکھنا۔
ان دونوں باتوں سے ان کو پتہ چل جائے گا کہ لڑکی قانون کی بھی پاسدار ہے اوراس کو مغربیت کی ہوا بھی نہیں لگی ہے۔‘‘
اس مقصد کے لئے نادیہ نے پورے وقت ماسک لگا ئے رکھا۔ جس سے اس کا میک اپ بھی چھپا رہا۔
اس نے آواز بھی مدھم رکھکر۔
بڑے سلیقے سے بات چیت کی۔
ادب واحترام کا پورا مظاہرہ کیا۔
لڑکے کے والدین اور خود لڑکے کو نادیہ پسند آگئی۔ اس لئے فوراً ہاں ہوگئی۔
کچھ دنوں کے اندر اندر ہی شادی ہوگئی۔
دونوں گھرانے خوش تھے ۔
نادیہ کی ایک سہیلی جب مبارک دینے آئی۔ تو اس نے نادیہ کو کہاکہ پریشان نہ ہونا یہ ڈھونگ بس چند دنوں تک چلانا پڑے گا بعد میں تو کون تومیں کون۔
سہیلی نے یہ بھی بتایا کہ خود اس کامیاں بھی ایسے ہی خیال کا مالک تھا مگر پھر جلد ہی اس نے اپنے یہ خیالات بدل ڈالے ۔
وہ اب خود ہر دوسرے تیسرے روز باہر ہوٹل میں کھانا کھانے کی ضد کرتاہے اور تو اور وہ اب خود کہتا ہے۔ اچھی طرح تیار ہوکرنکلنا ،کیا پتہ وہاں کون اپنا یار دوست ملے گا ۔
اب تو وہ پورا چرن داس بن گیا ہے۔
تم بس تھوڑے دنوں تک اپنی سادگی ۔ حلیمی اور دینداری کاڈرامہ رچاؤ۔ پھرا پنی مرضی کی زندگی گذارو۔
شادی کے ایک ماہ کے اندر اندر نادیہ نے اپنے تیور بدل دئے ۔
اللہ کو یہ سب منظور نہ تھاکہ فرید کو اوراس کے شریف النفس اوردیندار لوگوں کو کوئی دھوکہ لگے۔
ایک دن جب فرید کسی کام سے دفتر سے ذرا جلدی گھر آیا تواس نے گھرکے آنگن میں ہی نادیہ کی کرخت آوازسن کردم بخود ہوکررہ گیا ۔ اس کے پاؤں تلے زمین کھسکتی نظر آنے لگی۔
اس کو یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ نادیہ جس کواس کے خوش اخلاق، نظم وضبط اور پست آواز کی وجہ سے خوشی خوشی اپنایاتھا وہ اتنی بدتمیز اور بداخلاق ہوسکتی ہے۔
ہوایہ کہ فرید نے دروازے کے پیچھے سے سنا کہ نادیہ اپنی ساس سے کہہ رہی تھی کہ اسے یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ کوئی اس سے سوال کرے کہاں جارہی ہو۔ کیوں جارہی ہو۔ میں اپنی مرضی کی خود مالک ہوں۔ جہاں چاہوں جب چاہوں جاؤں۔ اسے کسی کی مداخلت پسند نہیں ہے ۔آئندہ بالکل نہ پوچھنا۔
’’بہو! میں نے کیا غلط کہا ۔ یہی ناکہ کرونا کی وجہ سے باہر نہ نکلو۔‘‘ ساس نے جواب دیا۔
اگرنکلنا ضروری ہو تو ماسلک لگا کر نکلنا، میں نے کون سی غلط بات کہی ۔ تمہارے بھلے کے لئے ہی تو کہا
ٹھیک ہے اب میں نہیں کہوں گی۔
فریدنے دروازے کی اوٹ سے یہ سب کچھ اپنے کانوںسے سنا۔
جب فرید دروازہ کھول کراندر داخل ہوا۔
تونادیہ اس کو یوں دیکھ کر ہکا بکا ہوکررہ گئی کہ یہ کیا ہوگیا۔ بہت بڑی حماقت ہوگئی۔
اتنے میں فرید نے اندر آکر کہا
’’دیکھو نادیہ بچہ دوسال تک بات کرنا سیکھتا ہے۔ مگر کیا بات کرنی ہے ۔ کس طرح کرنی ہے کس سے کیسے کرنی ہے یہ تمہاری عمر کا انسان سیکھ چکا ہوتاہے۔میں نے تم سے اسی آواز اور اخلاقیات کی وجہ سے شادی کی تھی۔ تمہاری شکل تک نہیں دیکھی تھی۔
مگرتم میری ماں سے اس طرح بات کروگی میں نے سوچا تک نہ تھا۔یہ سب میری بھول تھی
میں اپنی ماں سے تمہاری یہ بدتمیزی ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ میں اپنی جنت نہیں کھوناچاہتا ۔ میں تمہارے چہرے پر ماسک اور اخلاق دیکھ کر متاثر ہواتھا۔
آج اسی ماسک کے نہ لگانے کے باعث اور ماں سے بدسلوکی کی وجہ سے میںنے فیصلہ کیا ہے کہ میں اب تمہارے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
اس لئے میںنے فیصلہ کیاہے کہ ہم دونوں فوراً سے پیشترایکدوسرے سے علاحدگی اختیار کریںگے اور کہیں گے کہ
’’چلو ایک بار پھرسے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘
میں تم کو طلاق دیتاہوں ’’اب تم میری طرف سے آزاد ہو ۔
ڈرائیور تم کو تمہارے والدین کے گھر چھوڑ آئے گا۔‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا