پی ایم انٹرن شپ اسکیم: ’عمل کے ذریعہ سیکھنے کے نظریے کو جمہوری شکل عطا کرنا‘

0
0

 

وی اننت ناگیشورن
ر دیکشا سپریال بشٹ

بھارت میں ایک تیسرے درجے کے شہر میں واقع ریاست کے یونیورسٹی کالج سے ایک کامرس گریجویٹ رینا کا

تصور کریں۔ ان کے کالج میں پلیسمنٹ کا کوئی سیل نہیں ہے اور ان کی غیر معمولی تعلیمی کارکردگی کے باوجود فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کے پاس محض ایک سرکاری نوکری کے امتحان کو پاس کرنے کے لیے تیاریاں کرنے، قریب میں واقع ایک اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دینے (جس کے لیے ہو سکتا ہے کہ ان کا رجحان نہ ہو) یا شادی کرکے گھر بسا لینے کے ازحد محدود متبادل دستیاب ہیں۔ مجموعی سطح پر بھارت کی نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد (جس کی عمر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہے)اور اس میں نصف سے زائد خواتین

https://pminternship.mca.gov.in/

ہوتی ہیں۔ یہ نہ تو تعلیم میں ہوتے ہیں یا نہ روزگار میں، اور نہ ہی تربیت کے حامل (https://tinyurl.com/yd675u5j) مزید برآں، بھارت کے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ان پرائیویٹ کمپنیوں سے بہت دور ہوتا ہے جو ان کی خدمات حاصل کر سکیں۔ اس پس منظر میں حال ہی میں شروع کی گئی پی ایم انٹرنشپ اسکیم (پی ایم آئی ایس) حکومت کی جانب سے نوجوانوں کی اختیار دہی کے سلسلے میں کی گئی عہد بندگی کے طفیل منڈی کی قیادت والی اور نوجوانوں کے غلبے والا حل فراہم کرتی ہے۔
پی ایم آئی ایس اس طرح وضع کی گئی ہے جس کے تحت سرکردہ 500 کمپنیوں میں مخصوص نوجوانوں کے گروپ کو 12 مہینوں پر مشتمل انٹرنشپ مواقع حاصل ہو سکیں۔ ایسے نوجوان جن کی عمر 21-24 برسوں کے درمیان ہو، جن کا تعلق نسبتاً کم آمدنی والے کنبوں سے ہو، اور جن کی تعلیمی استعداد دسویں سے لے کر گریجویٹ (آئی آئی ٹی گریجویٹ، سی اے، وغیرہ کے علاوہ) تک ہو، مستحق ہوتے ہیں۔ یہ اسکیم پانچ ہزار روپئے کے ماہانہ بھتے کی حامل ہے جس کے لیے مشترکہ طور پر حکومت (4500 روپئے) اور کمپنی (500 روپئے ) کا سرمایہ فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اضافی طور پر 6000 روپئے ضمنی طور پر فراہم کیے جاتے ہیں۔ اسکیم کا پائلٹ مرحلہ ایسا ہے جس کا مقصد 2024 میں 1.25 لاکھ کے بقدر نوجوانوں کو مستفید کرنا ہے۔ پانچ برس کا ہدف ایک کروڑ نوجوانوں کے لیے انٹرنشپ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ کمپنیاں اپنے سی ایس آر فنڈ کا استعمال بھی اس اسکیم کے تحت صرفے کے لیے کر سکتی ہیں۔
انٹرنشپ کو عرصہ دراز سے ایک باہمی طور پر مفید انتظام خیال کیا گیا ہے جو نوجوان متلاشیوں اور آجروں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ تعلیم کے محققین اور تدریس سے متعلق سائنس داں حضرات نے کام پر مبنی تدریس اور سیکھنے سکھانے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ تجربے پر مبنی سیکھنے کے طریقہ کار کی ڈیوڈ کولبس، جان ڈیوی، کرٹ لیوس سمیت دیگر دانشوروں نے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ چیز مختلف النوع بین الاقوامی مطالعات کے معاملے میں افرادی قوت کو فروغ دینے کے معاملے میں اہم ذرائع میں سے ایک ثابت ہوئی ہے۔ انٹرنشپ مواصلات، اشتراک، خلاقیت اور اہم فکر کو نکھارتی ہے۔
نوجوان روزگار کے متلاشی افراد کے لیے پی ایم آئی ایس کے تحت انٹرنشپ محض مواقع نہیں ہیں بلکہ تغیراتی تجربات بھی ہیں۔ یہ کارپوریٹ کام کاج کی دنیا کے کااصل کام سے آگہی فراہم کرتے ہیں جو نسبتاً زیادہ منظم اور مستحکم تعلیمی دنیا سے کہیں زیادہ مختلف ہوتی ہے جو ملک بھر کے بیشتر کالجوں میں تعلیمی ماحول کی شکل میں سامنے ہوتی ہے۔ ان کے بہترین مستقبل کے راستے کی شناخت اور اس پر ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے متلاشی نوجوان ذمہ داریاں سنبھالنے، مسائل کا حل نکالنے، فیصلہ لینے، ٹیم ورک اور وقت کے انتظام کے معاملے میں عملی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ انٹرنشپ ان متعدد داخلہ رکاوٹوں کو بھی ختم کرتی ہے جس کا سامنا ازحد باصلاحیت، ہونہار، ایماندار اور اپنے کام کے تئیں وقف نوجوان، چھوتے قصبات اور گاو?ں سے آنے کے بعد کرتے ہیں اور انہیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہ انٹرنشپ چھوٹی موٹی ہنرمندیوں مثلاً روانی سے انگریزی بولنے، ای میل کے آداب سیکھنے، کمپیوٹر کا استعمال، ایم ایس آفس یا معتبر او رازحد مفید معلومات کے لیے انٹرنیٹ پر جاکر تلاش کرنے جیسی بنیادی باتیں سیکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جہاں ایک جانب انٹرنشپ بھارت کے مقتدر تعلیمی اداروں میں اور پیشہ وارانہ کورسوں میں ایک اصول کے طور پر داخل ہے، تاہم یہی اصول ریاستی یونیورسٹیوں اور نسبتاً کم مشہور کالجوں میں دستیاب نہیں ہے جس میں بیشتر نوجوان اپنی مستقبل سے متعلق صحیح مشاورت کے فقدان اور روزگار سے متعلق نیٹ ورکنگ کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ عوامی سطح کی انٹرنشپ جو پی ایم آئی ایس کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہے وہ اس جگہ پر ایسے نوجوانوں کے لیے جو غیر میٹرو شہروں سے تعلق رکھتے ہیں اور مضمراتی طور پر تقرری حاصل کرنے والے کے طور پر نوآزمودہ ہوتے ہیں، ان کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ذاتی سطح پر، نو حاصل شدہ مالی آزادی نوجوان اذہان کے اعتماد کو تقویت بہم پہنچاتی ہے اور انہیں حوصلہ دیتی ہے کہ وہ بہتر کارکردگی انجام دے سکیں اور اپنے لیے اعلیٰ مقاصد کا تعین کر سکیں۔ نوجوان خواتین کے لیے، مالی آزادی اور ازخود اپنی قدرو قیمت کی شناخت ان کی زندگی کے فیصلوں کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے، مثلاً شادی کی عمر اور شادی سے قبل کے معاملات میں وہ بہتر فیصلہ لے سکتی ہیں۔
آجر کے لیے انٹرنشپ کے مواقع کسی بھی امیدوار کے طویل المدت روزگار کے سلسلے میں معقولیت کی پرکھ کے لیے کم لاگت کے حامل محض تجربات کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ ہنرمندیوں کے شعبے میں واقع فاصلوں کو پر کرنے اور اس کے سی ایس آر قواعد پر کھرا اترنے کے لیے بھی ایک کلیدی ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 12 مہینوں میں کمپنی معتبر طور پر کسی بھی انٹرن کی آئی کیو اور ای کیو کا مشاہدہ کر سکتی ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ اسے ’’ایک مخصوص مقصد کے لیے کرائے پر خدمات حاصل کرنے اور ہنرمند بنانے کے لیے تربیت فراہم کرنے‘‘ کی ازحد معروف حکمت عملی کے تحت اسے تعینات کر سکتی ہے۔
وسیع پیمانے پر معیشت کے لیے پی ایم آئی ایس قومی تعلیمی پالیسی 2020 سے مربوط ہے اور نوجوانوں کے روزگار کو فروغ دینے اور محروم پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے سلسلے میں روزگار کے امکانات میں مساوات لانے کے لیے ایک فوری قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ نوجوان فارغ التحصیل افراد کے لیے ایک تیاری کے مدرسے کے طور پر انٹرنشپ صلاحیت ہونے کے باوجود روزگار کی استطاعت نہ ہونے کے معاملے میں معیشت کے ازحد بھاری وزن کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ تعلیم سے لے کر روزگار حاصل کرنے تک کسی تعطل کے بغیر سلسلہ قائم رہنا اے آئی کے آنے والے عہد میں ازحد اہم ثابت ہوگا جہاں روزگار کے لیے موزونیت کا تعین تبدیل ہونے ہونے اور زندگی کی ہنرمندیوں کو اختیار کرنے کے مطابق ہوگا۔ طویل المدت عرصے میں یہ مینوفیکچرنگ شعبے میں پونجی سے لے کر مزدوروں کے تناسب تک کے معاملے میں بھی اپنے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
اس سب کے باوجود، بڑی تعداد میں انٹرن افراد کو کمپنیوں میں مادی طور پر گنجائش فراہم کرنے کی چنوتیاں اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں۔ سرکردہ 500 کمپنیوں کو درجہ دوئم اور درجہ سوئم کے شہروں کے انٹرن افراد کو اپنے یہاں کرائے پر خدمات فراہم کرنے کے لیے رکھنے کے لیے راضی کرنے کے بعد اور ماہانہ بھتے کی وافر مقدار بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اور کسی بھی روزگار کے متلاشی نوجوان کو اپنے شہر سے یہاں منتقل بھی ہونا ہوگا۔ یہاں، دور دراز میں کام کرنے کی ذمہ داری، غیر میٹرو دفاتر اور کارخانوں میں کرائے پر خدمات حاصل کرنا، اور کمپنیوں کے ذریعہ اضافی طور پر بھتوں کی فراہمی اس کے متبادل اور ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے پی ایم آئی ایس روزگار کی بہم رسانی کے معاملے میں ایک کسوٹی ہے ، اس کے لیے وسیع پیمانے پر تشہیر درکار ہوگی اور بڑی مہارت سے اس کا نفاذ کرنا ہوگا۔ مسلسل پیمانے پر اسے بھارت کی آبادی کی شکل میں حاصل بالادستی کے ساتھ موزوں بنانا ہوگا۔ کارپوریٹ اداروں نے اسکیم کے سلسلے میں اس کے آغاز کے ساتھ ہی اپنی جانب سے کافی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور یہ پہلو بھارتی نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے اسکیم کے ہدف کی کامیابی کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ اس کے ذریعہ ان نوجوانوں کی روزگار حاصل کرنے کی صلاحیت کو تقویت حاصل ہوگی اور آخر کار ان کے روزی روٹی کے ذرائع میں اضافے کا باعث ثابت ہوگی۔
نوٹ:۔(وی اننت ناگیشورن حکومت ہند میں سرکردہ اقتصادی مشیر ہیں۔ دیکشا سپریال بشٹ انڈین اکنامک سروس میں ایک افسر ہیں۔ ان کے ذریعہ ظاہر کردہ خیالات ان کے ذاتی ہیں)

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا