پروفیسر نسرین بیگم علیگ
پروفیسر محمد مزمل صاحب اپنی قد آور شخصیت اور اپنے تحقیقی کارناموں کے علاوہ ادب ور زندگی کے موضوع پر اتنی دل پزیر ، موئثر اور پر شکوہ تقریر کرنے والے ۔ایک عظیم انسان تھے ۔ اب وہ ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ ۱۴ فروری ۲۰۲۳ ء کو اچانک یہ اطلاع ملی کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔
پروفیسر محمد مزمل صاحب ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر یونیورسٹی ،آگرہ کے ۴۴ ویں شیخ الجامعہ تھے ۔آپ ۲۰ مئی ۲۰۱۳ ء سے ۱۲ دسمبر ۲۰۱۶ ء تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ان چار سال میں کئی باران سے ہماری ملاقات رہی ۔اور کئی اہم پروگرام میں ہماری دعوت پر آپ تشریف لے آئے تھے ۔۲۷ اپریل ۲۰۱۴ءکو بزم میکش ؔکی جانب سے میکش ایوارڈ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی بزم کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے ہم نے آ پ کو مدعو کیا تھا ۔اورآپ تشریف لے آئے تھے ۔اس وقت چوبیسواں میکش ایوارڈ پروفیسر آزر می دخت صفوی پریسیڈنٹ آف انڈیا ایوارڈیافتہ فاونڈر ڈائرکٹر انسٹی ٹیوٹ آف پرشین ریسرچ و سابق صدر شعبئہ فارسی اے ایم یو علی گڑھ کو دیا گیا تھا ۔مزمل صاحب جب بھی علی گڑھ جاتے تھے تو صفوی صاحبہ( ہم لوگ ان کو ناہید آپا کہتے ہیں )سے ملنے ضرور جاتے تھے ۔ان سے لمبی ادبی گفتگو ہوتی تھی ۔
پروفیسر محمد مزمل صاحب اپنی آخری سانس تک اپنے کام میں مشغول رہے ۔یہاں میں انکی چند علمی خدمات کا ذکر کرنا چاہتی ہوں ۔آپ کو ۲۰۰۲ ء میں اتر پردیش سرکار نے پرائیویٹ انوسٹمنت ان ہائر ایجوکیشن کمیٹی کا چیرمین منتخب کیا تھا ۔آپ انڈین کاونسل آف سوشل سائنس ریسرچ ،نئی دہلی کے ایڈوائزری کمیتی کے رکن تھے ۔۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۵ ء تک ڈائرکٹ ٹیکسس ایڈوائزری کمیٹی منسٹری آف ریوینیو بھارت سرکار کے بھی رکن تھے ۔
مزمل صاحب نے لکھنئو یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی اعلی ڈگری حاصل کیا تھا۔آپ کے تحقیقی مقالے کا عنوان : د اسکول آف گورنینس انوائرنمنٹ ان اتر پردیش: انڈیا امپلیکیشنس فار ٹیچر اکاونٹیبیلیٹی اینڈ ایفرٹ ہے ۔آپ نے پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچ آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے حاصل کیا تھا ۔آپکی مشہور تصنیف فائنینسنگ آف ایجوکیشن پالیٹیکل ایکونامی آف ایجوکیشن ،ایکو نامکس آف ہیلتھ ،ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ ایگریکلچرل ایکونامکس خاص ہیں ۔
مزمل صاحب کے ایک سو پچاس سے زیادہ تحقیقی اور تنقیدی مقالے شائع ہو چکے ہیں ۔آپ نے پچیس سے زیادہ اہم ریسرچ پروجیکٹ پر کام کیا تھا ۔علم معاشیات کے میدان میں بہتر کام کے لئے سرسوتی سمان فار ایکسی لینٹ کنٹریبیوشن ان ہائر ایجو کیشن ۲۰۱۱ ء ،اتر ہردیش سرکا ر نے سکشا شری سممان ،کیریر ایوارڈ فا ر ینگ سوشل سائنٹسٹ ۱۹۸۹ ء یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ،نئی دہلی ۔۲۰۰۰ ء میں
آل انڈیا گووند بلبھ پنتھ معاشیات انعا م سے نوازا گیا ۔
ہندوستان کے علاوہ یونیورسٹی آف کیمبرج آکسفورڈ ،سری لنکا اور نیشنل یونیورسٹی آف ایران جیسی معروف یونیورسٹی میں آپ کو لیکچر دینے کے مواقع فراہم ہوئے ۔آپ آل انڈیا ریڈیو ،دور درشن ،بی بی سی آکسفورڈ پر گفتگو اور بحث و مباحثے میں آپ کا اہم کردار رہا ہے ۔
بزم میکش ؔ کی جنرل سیکریٹی کی حیثیت سے میں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ۱۷ اپریل ۲۰۱۶ء کو سرسوتی سمان یافتہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کو چھبیسواں قومی میکش ایوارڈ دیا گیاتھا اور اس ایوارڈ تقریب کے مہمان خصوصی پرو فیسر محمد مزمل صاحب تھے ۔وہ اس ایوارڈ تقریب میں آکر بیحد خوش تھے ۔اس موقع کی بہت سی یادگار تصویریں موجود ہیں ۔
ایک دوسرا موقع ہمیں اس وقت ملا جب بزم میکش کے زیر اہتمام ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو فخر ہندوستان سر سید احمد خاں کے یوم ولادت پر سیمینا ر خانقاہ علامہ میکش اکبرآبادی پر منعقد ہوا ۔پروفیسر مزمل صاحب مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لے آئے تھے۔اس سیمینا ر میں پروفیسر محمد علی جوہر ،پروفیسر شہاب الدین ثاقب شعبہ اردو علی گڑھ مسلم ینیورسٹی ، علی گڑھ تشریف لے آئے تھے ۔سر سید احمد خاں پر مقالے پیش کیے گئے تھے۔سیمینا ر بہت کامیاب تھا ۔مزمل صاحب بعد میں مجھ سے کہنے لگے کہ آج کے دور میں خانقاہی تہزیب جہاں سے امن و آشتی اور محبت کا پیغام دیا جاتا تھا یہاں آکر ہمیں وہ کھوئی ہوئی تہذیب دیکھنے کو ملی ۔۔جس کی مجھے تلاش تھی ۔شاید آج کے دور میں یہاں جیسی مہمان نوازی جو کہیں اب باقی نہیں رہی آکر دیکھا کہ وہ تہذیب اور محبت یہاں موجود ہے ۔میں بہت خوش ہوں کہ سرسید کے حوالے سے اس سیمینار میں آنے کا موقع ملا اور علامہ میکش ؔ اکبرآبادی کے آستانہ پر آسکا ۔ورنہ آگرہ آکر اس قدیم ادبی مرکز تک آنے سے محروم رہ جاتا ۔
پروفیسر محمد مزمل صاحب ہماری دعوت پر کئی باراہم پروگرام میں تشریف لے آئے اور اپنی عالمانہ تقریر سے اہل اکبرآباد کے بیچ اپنی ایک الگ پہچان بنا گئے ۔یہی نہیں بلکہ ہماری دعوت پر مولانا ابوالکلام کے یوم ولادت ’’قومی یوم تعلیم‘‘ کے موقع پر ۱۱ نومبر ۲۰۱۴ ء کو بیکنٹھی دیوی کنیا مہاودیالیہ بھی تشریف لے آئے تھے ۔اس موقع پر پروفیسر آزرمی دخت صفوی (علی گڑھ) نے مولانا ابوالکلام آزاد ؔ پر کلیدی خطبہ پیش کیا تھا ۔مولانا آزاد ؔ کے بارے میں وہ تمام باتیں انہوں نے بتائیں جو لوگ نہیں جانتے تھے ۔اس موقع پر پروفیسر مزمل صاحب وائس چانسر ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر یونیورسٹی ،آگرہ مہمان ذی وقار تھے ۔وہ جس موضوع پر گفتگو کرتے تھے دل کھول کر کرتے تھے ۔ان کے اندر علم کا خزانہ تھا ۔ ؎
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی تو وہ بولے جسے اردو آئے
مولانا آزاد پر انکی تقریر آج بھی کانوں میں محفوظ ہے ۔لوگ انکی تقریر کو کان دھر کر سنتے تھے ۔آگرہ یونیورسٹی سے پہلے مزمل
صاحب مہاتما جیوتبا پھولے روہیل کھنڈ یونیورسٹی ،بریلی کے وائس چانسلر تھے ۔وہ ماہر معاشیات تو تھے ہی ساتھ ہی ادب نواز بھی تھے ۔اردو ادب سے انہیں خاص محبت تھی ۔بے شمار اشعار انہیں یاد تھے ۔ان کی تقریر میں علم بولتا تھا ۔آپ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر یونیورسٹی ،آگرہ کے وائس چانسلر کے عہدے پر رہتے ہوئے ہمت اور حوصلے کے ساتھ بیحد سلجھے ہوئے طریقے سے یہاں کے نظم و ضبط کو سنبھال رکھا تھا ۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ میں مزمل صاحب سے ہماری کئی بار ملاقات رہی انہوں نے ہماری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور یہی کہا کہ آپ لگن اور محنت سے کام کرتی رہیں ۔کام ہی سے انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔آج انکی کہی ہوئی وہ تمام باتیں ہمیں یاد آرہی ہیں ۔ان کا اچانک اس دنیا سے چلے جانا بہت تکلیف دہ ہے ۔جبکہ وہ اپنی آخری سانس تک اپنے کام میں ہی لگے رہے ۔
برسوں کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
پروفیسرمحمد مزمل صاحب دہلی ایر پورٹ پر بینگلور جانے کے لئے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑا اور انہیں ایر لائن کے اسٹاف نے گڑ گائوں کے ہوسپیٹل میں داخل کرایا ۔مگر کوئی دوا کام نہ آئی اور وہیں انہوں نے زندگی کی آخری سانس لی ۔اللہ تعالی انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
ورنہ دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔وہ اپنے پیچھے اپنے کئے ہوئے اتنے کام چھوڑ جاتے ہیں کہ جس سے لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں ۔اور ایسا شخص اپنے خلوص و محبت سے لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے ۔ایسی ہی شخصیت پروفیسر محمد مزمل صاحب کی تھی ۔ان کے جانے سے ہر انسان غمزدہ ہے اور انہیں یاد کر رہا ہے ؎
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے