ڈاکٹر جی ۔ایم ۔پٹیل : 9822031031
ماہ لقا چندا ؔ مقتدر طبقہ و ایک عقیدت مند صوفیانہ خاتون تھیں
چاند سا سا روشن چہرہ ، بے انتہا خوبصورت ، انسانیت دوست ، درباری رقاصہ ، اُردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ماہ لقا کی پیدائش کے بارے میں کافی غلط فہمیاںہیں
راحت عزمی نے انکا ازالہ کیا اورصحیح تاریخ کا تعین کیا ہے۔۱۷ ،اپریل ۱۷۶۸، اورنگ آباد میں ’’چندا بی بی‘‘ اس نام سے راج کنور بائی اور مغل بادشاہ محمد شاہ کے دربار میں ایک منصب دار نواب بسالت بہادر خان کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ماہ لقا کا نام انکی نانی جان کے نام پر’ چندا بی بی‘ رکھا گیا تھا۔یہی نام ان کے مقبرے کے کتبہ پر کندہ ہے۔ اسی چند ا کو اپنا تخلص منتخب کیں۔
ماہ لقا کی والدہ میدا بی بی گجرات کے ایک مرشد گھرانے کی صاحبزادی تھیں۔ان کے والد بہادر خان ترک النسل بلخ کے معزز گھرانے سے تھے جن کے، دادا محمد یار بلخ سے ہندوستان آئے اور شاہ جہاںکے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ماہ لقا کے دادا مرزا سلطان نظر عالمگیر کے دربار میں شہزادہ معظم کے وکیل تھے۔خاندانی روایت کے مطابق ماہ لقا کی تعلیم و تربیت نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر ہوئی۔ماہ لقا کی والدہ راج کنور بائی راجپوتانہ سے نظام کی راجدھانی اورنگ آباد چلی گئیں۔ خان سے ملاقات اور ان سے شادی کے بعد دونوں دہلی سے حیدر آباد ہجرت کر گئے تھے۔چندا بی بی کو کنور کی
لا اولاد بہن مہتاب نے گود لیا تھا جو نظام حیدرآباد کے وزیر اعظم نواب رکن الدولہ کی ہمشیرہ تھیں۔ وہاں آپ کو نواب رکن الدولہ کی سر پرستی حاصل ہوئی جنہوں نے اسے بہترین اساتذہ اور تربیت فراہم کئے۔ ماہ لقا کہ لائبریری میں فنون لطیفہ اور سائنسی مجموعوں کے ساتھ ساتھ شاعری پر مخطوطات اور تصانیف بھی موجود ہیں۔ اس بیش بہا ادبی ،ثقافتی اور موسیقی کی قیمتی کتابوں سے آراستہ لائبریری سے ماہ لقا حیدرآباد کی متحرک ثقافت سے روشناس ہوئیں۔
۱۴ سال کی عمر میں ماہ لقا ایک بہادر شہسوار اور ماہر تیر انداز تھیں۔ اپنی مہارت کی وجہ سے آپ نے تین جنگوں میں نظام ثانی میر نظام علی خان کا ساتھ دیا۔ ماہ لقا بائی مردانہ غلبہ والی عدالت میں ایک غیر شادی شدہ خاتون تھیں ۔ ۱۷۸۱ میں’ کولار‘ کی جنگ ، ۱۷۸۲ میں’ نرمل جنگ ‘اور ۱۷۸۹ میں ’پنگل کی جنگ ‘ میں فتح حاصل کی۔ ۔ نظام علی خان آصف جاہ ثانی نے ۱۸۱۵ میں ’’ ماہ لقا ‘‘ خطاب عطا کیا تھا۔فارسی زبان و ادب پر گہری نظر تھی۔شاعری کے میدان میں اپنے جوہر منوا چکی تھیں۔فن ِ موسیقی میں انہیں کمال حاصل تھا۔وقت کے مشہور موسیقار ’ خوشحال خان کی شاگردہ تھیںجو ایک اچھے قوال بھی تھے۔یہ وہی خوشحال خان ہین جنہوں نے کوہ مولا علی پر کمان ،مقبرہ ،عاشور خانہ اور آب وار خانہ بنوایا تھا۔ ماہ لقا کو ’ دھرپد ‘ خیال ‘ اور ٹپّا ‘ مین بڑا کمال حاصل تھا،ان میں انہوں نے کئی اضافے بھی کئے ۔ماہ لقا کی شہرت ، امر اء اور دربار آصفی تک پہنچ چکی تھی جب ماہ لقا چندؔا اور اس کا خاندان ناسازگار حالات کا شکار ہو چلا تھا۔ چار و ناچار شاہی دربار او امرا کی کی مہذب محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیں ،اس طرح کچھ دولت حاصل ہوئی۔اس زمانے میں خواتین کا گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا،یہی وجہ ہے کہ چنداؔ کے ساتھ طوائف کا تمغہ ،لگ گیا حالانکہ وہ شوقین تھیں اور باکمال فنکارہ تھیں نہ کہ پیشہ ور طوائف !
آپ کی شراکت کی وجہ سے نظام نے مختلف مواقع پر بہادری اور دلیری کے لئے جاگیروں سے نوازہ ،جن میں حیدر گوڈ ، چندا نگر، سید پلی اور اڈیکیٹ کے محلے شامل ہیں۔درباری تقریب میں بہادری ،مقبولیت اور بے انتہا خوبصورتی کے لئے ’’ ماہ لقا ‘‘ کے لقب سے نوازہ گیا۔سب سے اہم ریاست کے حکمرانوں کی طرف سے حکمت عملی معاملات پر ماہ لقا سے مشورہ لیا جاتاتھا۔علاوہ ازایں ’عمرہ ‘ اس اعلیٰ ترین نجابت کے لئے تعینات کی گئیں تھیں۔ کسی اہلکار سے ملاقت کے لئے روانہ ہوتیںقریب ۵۰۰ سپاہیوں کی بٹالین مارچ کے لئے مخصوص مقرر کی جاتی تھی۔ نظام کے دربار میں ایک با اثر اور اس وقت وہ واحد خاتوں تھیں اورریاست حید رآباد میںعوامی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا ۔
ماہ لقا بائی چنداؔ کا اصل نام چندا بی بی اور خطاب ’ ماہ لقا ‘ تھا ، چنداؔ‘ تخلص کا استعمال شاعری میں کیا ۔ ماہ لقا چندہ ایک غیر معمالی خاتون تھیں آپ کا شمار حیدرآباد کے اردو زبان کے اولین شعرا میں کیا جاتا ہے،ا ٹھارہویں صدی میں ماہ لقا کی شاعری کے دبستان دکنی کو نیا فروغ دیا۔ ’’۱۸۲۴ میں اُردو دیون کی اشاعت کے بعد آپ کو پہلی صاحب دیوان شاعرہ کا مقام حاصل ہوا ۔ جنوبی ہند میں اردو زبان کے فروغ میں ماہ لقا کی شاعری سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ ایک پرہیز گار خاتون تھیں جن کی نظمیں ان کی زندگی پر صوفی اثرات کی عکاسی صاف ظاہر ہوتی ہے ۔ کیوں کہ آپ صوفی بزرگ ’حضرت علی‘ کا بے انتہا احترام کرتی تھیں۔ صوفیانہ شاعر سراج اورنگ آبادی کے کام سے بے حد متاثر تھیں اور نواب میر عالم جو بعد میں ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم بنے ،ان سے شاعری کے آداب ،سلیقہ ، ردیف ،قافیہ ، غزل ، نظم اور رباعیات کی تعلیم حاصل کی ۔کافی جدو جہت اور محنت سے اُردو عربی ،فارسی اور بھوجپوری زبانوں پر عبور حاصل کر لیا ۔ماہ لقا وہ پہلی خاتون شاعرہ تھیں جن کی غزلوں کا ایک مکمل دیوان ’’ گلزار محلہ ‘‘ جس میں کل ۳۹ غزلیں شامل ہیں اور ہر غزل ۵ مصرعوں پر مشتمل ہے۔دیون انکی وفات کے بعد ۱۸۲۴ میں شائع ہوا۔ ماہ لقا کی ۱۲۵ مخطوطہ مجموعہ ہے جسے آپ نے ۱۷۹۸ میں مرتب کیا جس کی خطاطی خود نے ہی کی تھی۔ اس مجموعے کو میر عالم کی رہائش گاہ پر رقص و گیتوں کی محفل میں کیپٹن میلکم نے ’’ ماہ لقا ‘‘ بطور تحفہ عطا کیا۔یہ مجموعہ ’’ برطانوی میوزیم ‘‘ میں محفوظ ہے۔ ان کی غزلوں میں ’ بلبل ‘ گُل ‘ اور ساقی کا کثیر استعمال ہوا ہے۔ ماہ لقا وہ پہلی خاتون تھیں جن کی شاعری، انداز اور خوبصورت طرز کی ادئیگی نے اس قدر شہرت دلائی ، کہ قلیل عرصہ میں مشاعروں کی زینت بن گئیں ۔
’’حیات ماہ لقا ‘‘ پہلی مستند مختصر سوانح عمری ہے۔اس میں معروف شاعرہ کی زندگی اور اور ان کے جشن کے اوقات کا ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چنداؔ اپنی نظمون اور غزلوں پر میر عالم معروف شاعر کی شاگردی قبول کی تھی۔ عالم ،چنداؔ کی محبت میں دیوانے تھے۔اس سلسلے میں انکی فارسی نظم ’ مثنوی سراپا‘ میں ماہ لقا سے محبت کے ثبوت کی طور پر پیش کی جاتی ہے۔اس مثنوی میں کل ۲۲۳ ،اشعار ہیں ۔ دیگر شاعروں میں غلام حسین جوہری ، شیر محمد خان ایمان ؔ اور ضیائی نے انکی بے شمار خوبیوں کو بے حد سراہا ہے ۔ ماہ لقا کی خوبصورتی کے حوالے سے بہت سے قصہ ،کہانیاں اور افسانے مشہور ہیں ، اسی لئے ماہ لقا کو ’’کلیو پیٹر ‘‘ کہا جاتا تھا۔علاوہ از ایں اپنے کلام کے ساتھ ساتھ موقعہ در موقعہ مغل شہنشاہ ’ محمد شاہ ‘ اور بیجاپور کے’ سلطان ابراہیم عادل شاہ دوّم‘ کے کلام کو نغمہ کی صورت پیش کرتی تھیں۔ دیوان سے منتخب ایک کے غزل ’’گل ہونے کی توقعہ‘‘ کے کچھ اشعارپیش ہیں۔
کبھی صیاد کا کھٹکا کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ
سینکڑوں عاشق کا خون کیے بیٹھی ہے
تشنہ لب کیوں رہے اے ساقی کوثر چنداؔ
یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے
عبدالحلیم شرر ارود ادب کے معروف ناول نگار نے اپنی ناول’ حسین ڈاکو‘ میں ماہ لقا بائی کو ایک با خبر خاتون کے طور پر پیش کیا،جس نے جدید تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھایا ،حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک عالم ’’سجاد شاہد ‘‘ جو ’ٹایمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضامین کی سیریز میں لکھا تھا ’’ ماہ لقا بائی ’مرزا آبادی روسوا‘ کی مشہور ناول
’’ عمراؤ جان ادا‘ کی تحریک کی تھیں جو ۱۸۹۹ میں شائع ہوئی تھی۔ عمراؤ و جان ادا کو اُردو ادب کا پہلا سچا ناول کہا جاتا ہے۔حیدرباد کی تاریخ کے ماہر ’’ نریندر لوتھر‘‘ کا کہنا ہے کہ ماہ لقا بائی ہندوستان کی پہلی خاتون شاعرہ ہیں جن کے ادبی اقتباسات یا قطعات کا مجموعہ با لعموم کسی ایک موزوں سے متعلق ( منتخبات ‘) ادبی کشکول اشعار کا مجموعہ الاشعار ‘ منتخب کلام کا دیوا ن شا ئع ہوا تھاجس سے حیدرآباد کاادبی حلقہ با فخر ہے۔ پلّا بی چکر ورتی ،مشہور کتھک رقاصہ اور سوارتھ کالیج میں شعبۂ موسیقی اور رقص کی پروفیسر تھیں انہوں نے ماہ لقا کو
’’ ایک جنونی خاتون تھی ‘‘ کہا ، ’ ’ ۲۰۱۳ میں حیدر آباد ہیریٹیج فیسٹول‘‘جسے آندھر پردیش ریاستی سیاحت محکمہ کی جانب سے ’ونئے ورمہ‘ کی ہدایت کاری میں پیش کئے گئے ڈرامہ ’’ ماہ لقا با ئی چنداؔ ‘‘ کا اسٹیج کیاگیا ، ماہ لقا چنداؔ کا اہم اور مرکزی کردار کو مشہور اسٹیج اداکارہ ’ ر تیکا سنت کیس وانی ‘ نے بہترین انداز میںپیش کیا۔
جب ماہ لقا نے موسیقی اور شاعری میں دلچسپی ظاہرکی تو اسے اکبر کے دربار کے نو جواہرات میں سے موسیقار تانسین کے پوتے کشال خان کلاونت کی سر پرستی حاصل ہوئی۔ کشال خان نے سے متعدد راگوں اور تال میں غزل گانے کی مہارت حاصل کی۔یمن راگ اور خیال ٹپا میں ماہر تھیں جسے وہ خاص مواقع پر گاتی تھیں۔ماہ لقا نے رومانوی غزلوں میں بھیم پالسی راگ کو جو بہت ہی میٹھا و مدھور ہے جس میں تمام سات راگ نوٹ کے نزول میں استعمال ہوتے ہیں، اسے ترجیح دی۔صوفی گیت گاتے وقت وہ ’ تال چوٹالہ ‘ اور ’ راگ بھیروی‘ کے ساتھ ملاکر ’دھروپد‘ راگ استعمال کرتی تھیں۔کتھک رقص کے دکنی انداز کے ساتھ محبت کے نغموں میں مہارت حاصل کی۔انہوں نے ایک ثقافتی مرکز قائم کیا جس میں قریب ۳۳۰ لڑکیوں کو اپنے دیگر اساتذہ کے ہمراہ تربیت دیں۔ ریاست حیدرآ ّباد کے احیا ء کے دور کی تفصیلات ایک تاریخی کتاب ’ ماہنامہ ‘ کی اشاعت کی سر پرستی اور نگرانی کی۔اگرچہ مہ لقا نے اسلام پر عمل کیا ،لیکن وہ ہندو کتابوں اور فلسفے کی سمجھ سے متاثر تھیں۔
در گاہ مولا علی‘ حیدرآباد میں گنبد نماچھوٹی اور اونچی پہاڑی پر اپنا سر اونچا کئے کھڑی ہے ۔ علی ابن طالب پیغمبر کے چچا زاد بھائی اور داماد کے لئے وقف ہے ۔ تیسرے قطب شاہی بادشاہ ابراہیم شاہ نے ۱۵۷۸ میں تعمیر کیا جو اس خطے قریب دیہی علاقوں اور ضلعوں ہندو مسلمان دونوں کے لئے ایک مقبول زیارت گاہ ہے۔ جب ماہ لقا کی والدہ زیارت کے وہاں پہنچیں تو درگاہ سے قریب وہ گر گئیں اور مارے خوفِ اسقاط حمل کے دعا گو رہیں ۔ بعد ازاں اس واقعہ سے ماہ لقا اسقدر متاثر تھیں کی اپنے زیادہ تر اشعار ان پر وقف تھے،ساری عمر علی کو اپنا سرپرست محسن سمجھا۔ماہ لقا نے اسی احاطے میں ۱۷۹۲ میں اپنی حیاتیاتی والدہ کے لئے ایک مقبرہ کی تعمیر کروائیں ۔ مقبرے کی تعمیر مغل اور راجستھانی طرز تعمیر میں
’ چار باغ ‘ کی طرز پر کی گئی ہے۔مقبرے کے ساتھ ساتھ اس احاطے کے مرکز میں ایک’ احاطی ڈیرا( Pavilion ) ہے سنگ مر مر کی استراکاری کی ایک عاشور خانہ ، سیڑھیوں والے دو کنویں اور ایک مسافر خانہ ، عاشور خانہ ، مولا علی کا نقار خانہ ،ایک منڈپ عارضہ تقریب، خانہ جہاں ڈھول ، گانے و بجانے کی محفلیں سجتی تھیں ان کی تعمیر کر وائیں ۔ ’ Scott kugle‘ ایک محقق اور ایموری یونیورسٹی کے پروفیسر نے ماہ لقا کی زندگی اور انکی ثقافت کا مطالعہ میں اس یادگار عمارت کی خستہ حالی کا ذکر کیا۔ ۲۰۱۰ میں حیدرآباد کی ثقافتی قو می کونسل جنرل حیدرآباد نے امریکی سفیرکے فنڈ سے مالی اعانت فراہم کی گئی اور اسے عوام کے لئے عام کر دیا گیا۔ مسلم تعلیمی سماجی اور ثقافتی تنظیم نے بھی اس منصوبے میں تعاون کیا ،
اس تزئین و آرائش کے منصوبہ کی تحت سارہ ملبہ صاف کیا ۔واٹر چینلز دوبارہ تعمیر کی گئیں ،درخت ، جھاڑیاں ،بیل بوٹوں سے عمارتوں کی شاندار سجاوٹ کو بحال کیا گیا۔
ماہ لقا چندا ؔ ۱۸۲۴ میں ماہ لقا کا انتقال ہو ا ، اور اپنی والدہ کی آغوش میں دفن کی گئیں ، اور رہائش گاہ جو نامپلی حیدرآباد میں واقع تھی ،وہاں ‘‘ وصیت کے مطابق آپکی تمام ملکیت، جائیداد ،سونا ،چاندی، ہیرے جواہرت وغیرہ یتیم اور بے گھر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کروڑ وں کا عطیہ دیا تھا۔ جاگیر کا کچھ حصہ موجودہ عثمانیہ یونیورسٹی کوعطا کیا ۔
دکنی ادبی دنیا میں شاعرہ ماہ لقا ایک معروف ہستی کی طور اپنے عظیم ترین مقام پر قائم رہیں ۔آپ ’’ میر تقی میرؔ ‘ مرزا محمد رفیع سودا ؔ اور خواجہ میر دردؔ جیسے معروف شعراء کی ہم عصر تھیں۔
ماہ لقا چندا ؔ نے اپنی ذہانت، ثابت قدمی ، جرأت مندی ، ہمت و جدو جہد اور خصوصی طور سے مرد کے زیر تسلط دنیا میں خود متحرک رکھا ۔ مداحوں میں عام و خاص، ادنیٰ و اعلیٰ، اشرافیہ اور برطانوی افسران تک شامل تھے۔اپنی شہرت اور اقبال مندی، واجب وجائز و مثبت استعمال کیا اور ایک بے مثال میراث ساری انسانیت کیلئے چھوڑ گئیں۔