پونچھ: تاریخ بھی، سیاحت بھی

0
0
نثار گنائی
 پونچھ منڈی
سیاحت قدرت کے نظاروں کا ایساحسین عکس ہوتا ہے جو طبیعت خوشگوار کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔خدا نے یہ دنیا بہت خوبصورت بنائی ہے اور اسے تسخیر کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے۔ سیاحت کسی علاقے کی نہ صرف معشیت بہتر کرتی ہے بلکہ سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ جہاں قدرتی حسن سے مالا مال جموں و کشمیر کے سیاحتی مقامات ملک کے دیگر علاقاجات میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں وہیں پیر پنچال کے مختلف علاقے خصوصاً ضلع پونچھ کو خوبصورتی میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے 3218 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔یہ جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر سے صرف140 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ علاقہ پیر پنجال کے دامن میں واقع ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔پونچھ شہر تاریخی اعتبار سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے 17ویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہوں نے گرمیوں کے موسم میں دربار لگانا شروع کیا تھا۔ پونچھ کی تاریخی عمارت پونچھ کا قلعہ قدیم فن تعمیر کی یاد دلاتا ہے۔ اس قلعے کا سنگ بنیاد راجہ عبدالرزاق خان نے 1713ء میں رکھا تھا جبکہ ان کے بیٹے راجہ رستم خان نے 1760 سے 1787 کے درمیانی مدت میں مکمل کیا۔ 7535 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلے اس عظیم الشان تاریخی عمارت میں اس کی لمبی دیواروں کے اندر ڈوگروں، سکھوں اور مسلمانوں کے راج کی داستانیں چھپی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جھٹی صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح ہیوئن سانگ اس علاقے سے گزرا تھا ان کے مشاہدے کے مطابق یہ خطہ کشمیر کا حصہ تھا جسے منی کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔
پونچھ جموں وکشمیر کا ایسا علاقہ ہے جہاں قدرتی مقامات کی نہ تو کمی ہے اور نہ ہی اس کی خوبصورتی کی مثال دنیا میں کئی ملتی ہے۔ مگر یہاں سرکار کی جانب سے اس خوبصورتی کو نکھارنے میں کمی ضرور محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہاں کی تازہ ہوائیں، ٹھنڈے پانی کے چشمے، ہرے بھرے پھول اور سرسبز پودے انسانی قدم کو روک کر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے تحصیل منڈی کے مشہور دانشور و عوامی ڈویلپمنٹ فرنٹ کے چیئرمین مولوی محمد فرید ملک کہتے ہیں کہ اگرچہ پیر بنچال کے متعدد علاقاجات قدرت کے دلکش نظاروں اور خوبصورتی سے مالامال ہیں تاہم بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے ان علاقوں کی ترقی پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا ضلع پونچھ کے کئی سیاحی مقامات ہیں جو کشمیر کے علاقے گلمرگ سے کم نہیں ہیں جیسے جبی طوطی مرگ، لورن، ساوجیاں، سنکھ ڈوڈہ، سلطان پتھری، نوری چھم، پیر کی گلی، جموں شہید، دہرہ گلی، تھان پیر، سائیں میراں بخش، بٹل کوٹ، ڈیرہ ننگالی صاحب، بڈھا امرناتھ، چکاندا باغ وغیرہ شامل ہیں۔ پونچھ کے یہی سیاحتی مقامات موسم سرما میں برف کی سفید چادر اوڑھ لیتے ہیں جس سے علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ضلع پونچھ کے تحصیل منڈی کا ایک خوبصورت گاؤں ہے جو اڑائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر منڈی (تحصیلدار آفس) سے 5 کلومیٹر اور ضلع ہیڈ کوارٹر پونچھ سے 30 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اڑائی سے تقریباً 8 کلومیٹر دور جبی توتی اور راہ والا قدرت کے نظاروں کا حسین کریشمہ ہے۔ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ 3 گھنٹے کا پیدل سفر کر کے قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں۔
 ماضی میں تحصیل منڈی و تحصیل سرنکوٹ کے علاوہ دیگر علاقوں سے لوگ جبی مرگ کی خوبصورتی اور جنگل کے نظاروں کا معائینہ کرنے کے لئے آرہے تھے، وہیں امسال موسم کی بدحالی کے باوجود بھی سیاحوں کی آواجائی میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن نہ جانے محکمہ سیاحت اور انتظامیہ اسے سیاحتی طور پر ترقی دینے کے لئے کس گھڑی کا انتظار کر رہی ہے۔ تحصیل منڈی کے دامن میں واقع بڈھا امرناتھ مندر ہے جہاں یوٹی جموں کشمیر و ملک کی دوسری ریاستوں سے ہر سال کثیر تعداد میں یاتری آتے ہیں مگر قیام کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مندر سے 30 کلو میٹر دور صدر مقام پونچھ کی ہوٹلوں میں ٹھہرنا پڑتاہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح راکیش کمار جو اپنے دوستوں کے ہمراہ خطہ پیر پنجال کے چند علاقوں کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں کے بلند وبالا پہاڑ اور حسین وادیاں بے مثال ہیں۔ قدرتی آبشار اور اپنی روانی میں بہتے ہوئے دریا قابلِ دید ہیں۔ راکیش کمار اور ان کے ساتھیوں کا مزید کہنا ہے کہ یہ علاقہ خوبصورتی کسی بھی اعتبار سے کم نہیں ہے مگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ رات کے قیام کے لیے کوئی انتظام نہیں جب کہ گیسٹ ہاؤس کا ہونا ضروری تھا۔ رابطہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو آمدورفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شعبہ سیاسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ذوالفقار احمد تانترے نے بتایا کہ ضلع پونچھ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ایسی جگہ ہے جو کسی کے بھی دل کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ برف پوش پہاڑ، سرسبز و شاداب وادیاں، حسین وادیوں کے بیچ بہتے ہوئے دریا اور خوشگوار آب وہوا پونچھ کے حُسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع پونچھ کے بلاک لورن میں واقع ایک صحت افزا مقام ہے جس سے نندی چول کہتے ہیں۔ یہ بلاک ہیڈ کواٹر لورن سے 12 کلو میٹر اور سلطان پتھری سے 6 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ لفظ نندی چول دو مختلف الفاظ پر مشتمل ہے جو دو مختلف زبانوں ہندی اور سنسکرت سے ماخوذ ہے۔
 سنسکرت میں ”نندی“ کا مطلب خوشی اور پہاڑی زبان میں ”چول“ کا مطلب آبشار ہے۔پانی کی ایک بڑی مقدار گلیشیر سے نکلتی ہے اور 150 فٹ کی بلندی سے گرتی ہے۔ یہ ان آبشاروں کی طرح ہے جو ہم فلموں میں دیکھتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ یوٹی بھر سے پونچھ کا سفر کرتے ہیں مگر اُن میں سے چند لوگ ہی نندی چول جاپاتے ہیں۔ سیاحت کے بنیادی ڈھانچے جیسے سڑک، قیام کی سہولیات کا فقدان، جائے وقوع کی طرف جانے والے راستے میں کھانے پینے کی اشیاء کی عدم دستیابی سیاحوں کے لئے موقع پر پہنچنا مشکل بنا دیتا ہے۔ محکمہ سیاحت کو اس سیاحتی مقام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور کچھ بنیادی انتظامات کو یقینی بنایا جائے جیسے سڑک کے رابطے، قیام کی سہولیات خصوصاً راستے میں مختلف جگہوں پر شیڈ بنائے جائیں۔تحصیل سرنکوٹ میں تاریخی حیثیت کا حامل نوری چھم و پیر گلی میں مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی کافی تعداد قدرت کے حسین وجمیل مقام کو دیکھنے کے لئے آتی ہے۔ سرنکوٹ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن شبیر احمد کا کہنا ہے کہ نوری چھم بہرام گلہ کے گاؤں کے قریب واقع ایک آبشار ہے جو پونچھ کے صدر مقام سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نوری چھم کا تعلق مغل بادشاہوں کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا یہ نام مغلیہ سلطنت کے بادشاہ جہانگیر کی بیوی نورجہاں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ مقامی تاریخ دانوں کے مطابق ملکہ نورجہاں کشمیر جاتے ہوئے اسی آبشار میں نہایا کرتی تھی اسی وجہ سے اس کا نام نوری چھم پڑا۔ وہیں 30 سالہ نوجوان مظفر حسین کہتے ہیں کہ پیر کی گلی ایک پرکشش جگہ ہے۔
پونچھ اور شوپیان کی سرحد پر سطح سمندر سے 3,490 میٹر (11,450 فٹ) پرسب سے اونچا مقام ہے اور وادی کشمیر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقے کی جغرافیائی حالات پر نظر دوڑائیں تو آس پاس پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اور ان خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں یہ قدرت کے حسین مناظر علاقے کی خوبصورتی کو مزید دوبالا کرتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے آئے روز بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں کہ خطہ پیر پنجال کو سیاحتی نقشے پر لایا جائے گا مگر وہ وعدے صرف کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ سیاحت و ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور یوٹی سرکارکو دیگر اضلاع کے سیاحتی مقامات کے ساتھ پونچھ کے متذکرہ بالا خوبصورت اور صحت افزا مقامات کو سیاحتی نقشے پر لاکر مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اور سیاحوں کے لئے بہتر سہولیات کا انتظامات کرے۔(چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا