پول کھل گئی ا یگزٹ پول کی!!!

0
0

 

 

 

محمد اعظم شاہد
4؍ جون 2024 کی صبح ہی سے اٹھارویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ ان نتائج نے ایگز ٹ پول کی پول کھول کررکھ دی ہے ۔ ایکزٹ پول کی قیاس آرائیوں سے یہ ثابت کروایا جارہا تھا کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘۔ مگر بھاجپا اوراس کے ساتھ جڑی پارٹیوں کا غرور ٹوٹتا اور اقتدار کا نشہ کچھ کم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ اندازہ لگایا جاتا رہا کہ بھاجپا کو اکثریت حاصل ہوگی اوراین ڈی اے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرلے گی۔ تمام اخبارات اورٹی وی چیانلس نے کم وبیش ایک ہی طرح کے اعدادو شمار پیش کیے کہ این ڈ ی اے آگے رہے گی اور کانگریس کے زیر قیادت قائم کرد ہ انڈیا الائنس کو بہت ہی کم کامیابی نصیب ہوگی ۔ایک طرح سے کانگریس اوراس کی ہم نوا سیاسی پارٹیوں کی وقعت کو بے اثر ہوتے پیش کیا گیا تھا ۔ Exit Pollاور Exact Resultsحتمی نتائج میں جو واضح فرق دیکھا گیا ہے وہ ایگزٹ پول کو غیر منطقی Illogicalثابت کرتا ہے۔ مودی کی اجارہ داری کی پول کھل گئی ہے کہ وہ اپنی مقبولیت اورامیج کے جادو سے بتدریج محروم ہورہے ہیں۔ الگ الگ ریاستوں کی علاقائی سیاسی پارٹیوں اورکانگریس کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کو بھاجپا اپنے برابر کا سمجھتی ہی نہیں تھی۔ تکبر اور خود نمائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاجپا خود کو ملک کی سیاست کا ٹھیکیدار بتلا تی رہی ۔ مگر راہل گاندھی کی قیادت میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا ’’INDIA‘‘ اتحاد اپنا وجود اوراثر دونوں ان نتائج کے ذریعے ثابت کررہا ہے۔ جن کو غیر اہم سمجھا جارہا تھا اور جن قائدین کی قیادت اور ان کی کوششوں پر سوالات اُٹھائے جاتے رہے۔اب انہی پارٹیوں کے قائدین ملک کے سیاسی منظر نامے میںتبدیلی کاذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اُتر پردیش جہاں سے ملک کی دیگرریاستوں کے موازنے میں تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ لوک سبھا (80سیٹیں)آتی ہیں، وہاں انڈیا اتحاد کواکثریت مل رہی ہے۔ وہاںاُتر پردیش کے ووٹروں نے رام مندر اور یوگی راج کے جھانسے سے آگے بڑھ کر کانگریس اور سماج وادی پارٹی کو اپنی حمایت سے نوازا ہے ۔ کرناٹک میں بھی یہی خیال کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں ریاست میں کانگریس حکومت کے قیام اور اس کی کارکردگی کے پیش نظر کانگریس کو لوک سبھا انتخابات میںاکثریت حاصل ہوگی۔ مگر اب تک کہ نتائج سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ یہاں فرقہ پرستی کے کمل ابھی کمہلائے نہیں ہیں۔ کرناٹک کے کئی اضلاع میں ہندو بنیاد پرستی کا رجحان ابھی بھی زوروں پر ہے ،جو یہاں کے نتائج سے ظاہر ہورہا ہے۔
جس طرح ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ جاری ہے نتائج ویسے ہی سامنے آرہے ہیں۔ یہ تجزیہ میں 4؍جون کی دوپہرکو لکھ رہا ہوں۔ این ڈی اے 298سیٹوں پرآگے بتائی جارہی ہے اور 230سیٹوں پرانڈیا اتحاد بشمول کانگریس آگے بڑھ رہی ہے۔ ابھی گنتی کے کئی راؤنڈس باقی ہیں۔ جب گنتی مکمل ہوجائے گی تو پورا منظر نامہ صاف نظر آئے گا ۔ جنتادل (یو) کے نتیش کمار اور تیلگو دیشم پارٹی کے چندرا بابو نائیڈو ان دونوں نے این ڈی اے میںچناؤ سے پہلے ہی شمولیت اختیار کرلی ہے اور دونوںنے بالترتیب بہار اور آندھرا پردیش میںاکثریت حاصل کرلی ہے۔ ان دونوں لیڈروں کے بارے میں بتایا جارہاہے کہ حکومت سازی میںان کا واضح عمل دخل رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مودی کی این ڈی اے کے ساتھ ہی وابستہ رہیں گے یا پھر ممکن ہے کہ یہ وقت کے تقاضوں کے تحت انڈیا اتحاد سے جڑ جائیں گے۔ موقع پرست سیاست کسی بھی نوعیت کا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ جیسے بھی ہو انڈیا اتحاد نے وہ تمام قیاس آرائیوں اور ایکزٹ پول کے اعداد وشمار کو غلط ثابت کیا ہے۔
2019کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے اپنی مایوس کن تعداد پر قابو پانے اور ملک کے عوام کو کانگریس کی افادیت اورموجودگی کا احساس دلانے راہل گاندھی نے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ اور ’ بھارت نیائے یاترا‘ کے ذریعے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ نفرت کے بازار میںمحبت کی دکان کا پیغام عام کرنے کی ممکنہ کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ مگر نفرت کو کامیابی کی ضمانت سمجھنے والوں کی بھی اس عظیم ملک میں کمی نہیں ہے۔اس کے باوجود سابقہ انتخابات کے مقابلے میں کانگریس نے اپنے انڈیا اتحاد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ بہر حال جو خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ ملک میں بھاجپا کی ہٹ دھرمی ، ایک طرفہ فیصلے ، آئین اور سیکولرزم کے ساتھ کھلواڑ یہ سب اب اتنے آسان نظر نہیں آرہے ہیں۔چار سو پار کا دعویٰ کرنے والے مودی جنہوں نے گذشتہ انتخابات کے نتائج سے قبل اپنے تمام میڈیا کے ساتھ کیدار ناتھ غار میں پہاڑی لباس میں دھیان میں بیٹھنے کاسوانگ رچاتے رہے اور اس بار کنیا کماری میں سوامی ویویکا نندا کے راک میموریل کے روبرو زعفرانی سادھوئی پوشاک میں بیٹھے رہے ۔ نہیں معلوم کہ کیمرہ مین کے روبرو وہ کس طرح دھیان میں بھگوان کو یاد کرتے رہے ۔ اب چار سو پار کا دعویٰ محض دعویٰ ثابت ہوکر رہا۔ مگر کئی ایسے اُمیدوار رہے ،جوانڈیا اتحاد سے میدان میں تھے ، ان کی شکست اور ان کے این ڈی اے حریفوں کی جیت بھی کئی پہلوؤں کو آشکار کرتی ہے۔ ایک بات توکھل کر سامنے آئی ہے کہ رائے دہندگان Electorate بہت کم اپنے سوچ بچار کے ساتھ اپنے ووٹ کااستعمال کرتے ہیں اوراکثریت ان ووٹروں کی ہے، جو کسی لہر کے ساتھ آنکھیں بند کرکے اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں۔ 2024 لوک سبھا انتخابات کے حتمی نتائج ہندوستان کے مستقبل سے متعلق کئی پہلوؤں اور اشارات سے ہمیں روبرو کریں گے۔ دیکھتے ہیں کیا کیا ہوتا ہے۔
[email protected] cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا