پسماندہ مسلمانوں کی فکر،مگر حکومت میں نمائندگی صفر!

0
0

 

 

محمد اعظم شاہد

اٹھار دیں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو لے کر ا یگزٹ پول کی پول 4 /جون کے نتائج کے اعلان کے ساتھ کھل گئی۔ مودی کا غرورٹوٹا اور” چار سو پار” کا دعویٰ بے وقعت ہو کر رہ گیا۔ کل ملا کر اِنتخابات کے نتائج سے ثابت ہوا کہ جمہوریت کی جیت ہوئی۔ آمریت اور جانب دارانہ سیاست کی شکست ہوئی۔ مودی نے خود کو بھاجپا کا واحد تسلیم شدہ چہرہ بنا کر اس طرح پیش کیا کہ ”مودی ہے تو ممکن ہے” مگر یہ نشہ جاتا رہا۔ بھاجپا کو 240 سیٹوں پر اِکتفا کرنا پڑا۔ 272 کاوہ مطلوبہ نمبر حکومت کی تشکیل کے لیے کافی دور رہ گیا۔ این ڈی اے 292 سیٹ حاصل کر سکا۔ اپوزیشن کا متحدہ محاذ اِنڈیا الائنس 232 سیٹوں پر کامیاب ہو سکا۔ اس بار بھاجپا کو 63 سیٹوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کانگریس جو 2019 انتخابات میں 44 سیٹ پر کامیاب تھی اِس بار اس کی تعداد 99 کو پہونچ پائی۔ کہیں نہ کہیں کانگریس کے لیڈروں میں آپسی اختلافات اور رنجشوں کے باعث یہ تعداد آگے بڑھ نہ سکی۔ بہر حال گزشتہ میعاد کے مقابلے میں اپوزیشن کی صورتحال اِس بار بہتر ہوگئی ہے، اب جب کہ تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یو کی بیساکھیوں کے سہارے مودی تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ اس بار لوک سبھا میں اِنڈیا الائنس ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار نبھائے گا۔ کسی بھی طرح کی من مانی، ہٹ دھرمی اور عوام مخالف پالیسیوں پر حکومت پر اپنی گرفت مضبوط رکھ پائے گا۔ اِقتدار میں اپنی شراکت داری پر نتیش کمار اور چندربا بونائیڈو نے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے حالیہ انتخابات سے قبل ہی این۔ڈی۔اے میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اپنی پہلی دو میعادوں میں دس سالہ اپنے اقتدار کے دوران مودی نے جس طرح ایک طرفہ فیصلہ لیااور اپنے ایجنڈے کو ملک کے عوام پر مسلط کرتے رہے۔ اب کی بار شاید ایسی آمریت (ڈکٹیٹر شپ) کا مودی کی جانب سے ایسا رویہ نہیں رہے گا۔ این ڈی اے میں شامل بھاجپا کی ہمنواپارٹیوں کی مدا خلت کو بھی یکسر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جس طرح سے نئی تشکیل شدہ حکومت کے لیے وزرا میں اہم قلمدان حسب سابق بھاجپاہی کے حصہ میں آئے ہیں۔ یعنی یہ اشارے ملے ہیں کہ فیصلہ سازی میں بھاجپا کو فوقیت حاصل رہے گی۔ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے، جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت کی سلامتی کے لیے بھا جپاکو منصوبہ بند حکمت عملی سے آگے بڑھنا پڑے گا۔ مخلوط حکومتیں اپنی الگ کی روش پر چلتی ہیں، جہاں اقتدار میں شراکت داری کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہے۔ مودی کسی بھی طرح سے اپنی پارٹی کے کسی اور اُمیدوار کو وزیر اعظم کا عہدہ سو پنے تیار ہی نہیں تھے۔ مودی کے آگے تمام سر کردہ بھاجپا کے قائدین نے خاموشی اور مصلحت پسندی سے مودی کو این ڈی اے کا لیڈر تسلیم کر لیا ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو،جو مسلسل تین مرتبہ ملک کے اس اعلیٰ منصب پر فائزر ہے۔ اب مودی کے تیسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد اس سابقہ ریکارڈ کے ساتھ انہیں جوڑا جا رہا ہے۔ پنڈت نہرو اور مودی کا موازنہ محض اس Hat trickکے باعث ہی کیا جانا چاہئے۔ ورنہ اِن دونوں (نہرو اور مودی) کے درمیان بصیرت اور طرزِ حکومت کے حوالے سے بہت نمایاں فرق واقع ہوتا ہے۔
حکومت سازی کے ضابطہ کے مطابق لوک سبھا کی کل سیٹوں کی تعداد کے حوالے سے 15 فی صد ارکان کو وزیر بنایا جاسکتا ہے۔ چونکہ اب نو تشکیل شدہ حکومت میں وزرا کی تعداد 81 ہونی چاہئے تھی۔ 72 وزرا نے حلف اُٹھایا ہے، جب کہ ابھی 9 وزرا کی شمولیت کا امکان باقی ہے۔ سب کا ساتھ سب کاوکاس اور سب کا وشواس کی باتیں کرنے والے مودی نے اپنی تو تشکیل شدہ کابینہ میں ایک بھی مسلمان کو وزیر نہیں بنایاہے۔ جب کہ یہ پہلی بار ایساہوا ہے کہ مرکزی کابینہ میں کوئی ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔ 2014 میں مودی کی پہلی میعاد میں تین مسلم وزرا نجمہ ہبت اللہ(کا بینی وزیر) ایم۔جے اکبر اور مختارعباس نقوی (وزیر مملکت) کو شامل کیا گیا تھا۔ 2019 میں دوبارہ مختار عباس نقوی کو وزیر بنایا گیا تھا، جنہوں نے 2022 میں راجیہ سبھا کی دوبارہ مختار نقوی رکنیت ختم ہونے پر وزارت سے استعفیٰ دیا تھا۔ تب سے اب تک کا بینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی ہو نہیں پائی ہے۔ وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالتے حلف لیتے ہوئے قرار کرتے ہیں کہ میں پورے ملک کی نمائندگی کروں گا اور کسی کے ساتھ بھی کوئی بھید بھاونہیں کروں گا۔ حلف نامے میں یہ عنصر elementدستور کی پاسداری کی روشنی میں شامل کیا گیا ہے، مگر وزیر اعظم مودی اور سیاست دان مودی میں واضح فرق نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کی اپنی پسند سے کسی بھی مسلمان کو،جوان کی پارٹی کا ہو، اس کوکابینہ میں شامل کیا جاتا۔ کابینہ میں اس بار دس د لت ارکان پارلیمان کو اور پانچ مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اقلیتوں میں دو ارکان سکھ برادری کے ہیں اور دو کا تعلق بدھ مت سے ہے اور ایک عیسائی شامل ہے۔ 20 کروڑ مسلمان جو آبادی کا 14 فی صد ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، انہیں کا بینہ میں یکسر فراموش کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی حکومت میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نو وزرا کی شمولیت کا امکان باقی ہے۔ ممکن ہے کہ مودی اپنی پسند سے ان کے کسی ہم نوا مسلمان کو کا بینہ میں شامل کریں گے۔ بھاجپا کے حلقوں میں یہ بات سنی جارہی ہے اور سوشیل میڈیا میں دیکھا جا رہا ہے کہ مسلمان بھاجپا سے دوری بنائے ہوئے تھے، اس لیے حکومت میں ان کی شمولیت کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دستور (آئین) کے رہنما اصولوں سے آنکھیں چرانے والوں کا جواز بالکل بے معنی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے 2019 کے انتخابات میں 27 مسلمان لوک سبھا میں شامل رہے، اب کی بار 2024 میں یہ تعداد 24 ارکان پرسمٹ کر رہ گئی ہے۔ ممکن تھا کہ کئی ریاستوں سے مزید اور مسلم اُمیدوار کامیاب ہوتے مگر مختلف مقامی وجوہات کی بنیاد پر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مودی کی تیسری میعاد دیکھتے ہیں کیا رنگ دکھائے گی۔ بڑی بڑی باتیں اور اعلانات ہی ہوں گے یا پھر عوام کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔
[email protected] CELL: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا