پریم چند کا تخلیقی عمل

0
0

حمیدسہروردی
پریم چند نے فکشن کو طلسماتی ماحول سے الگ کرکے حقیقی دنیا کے مرقعیکو جس خوش اسلوبی اور فطری انداز میں پیش کرکے آنے والی نسلوں کے لیے افسانوی فن کا راستہ ہموار کردیا۔ پریم چند نے زندگی کے معاملات سے اپنے آپ کو پابند کرلیا تھا۔ وہ ایسے ماحول کی تصویر کشی کرتے رہے جو ان کے مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں۔ انھوں نے خیالی اور تخیلی زندگی سے یکسر منہ نہیں موڑا بلکہ تخلیق کے منصب کو اس کے حقیقی خدوخال میں واضح کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ ان کا افسانوی فن زمانے کے نشیب و فراز کی افسانوی ہی نہیں بلکہ ہندوستانی زندگی کی تاریخ کو رقم کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فنکار تاریخ بیان نہیں کرتا مگر مورخ سے زیادہ کھلے ذہن اور کشادہ قلب سے معاشرتی و تہذیبی، سیاسی اور معاشی حالات کو دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔ اور وہ اپنے فن کے ذریعہ ذہنی تحدیدات اور گھٹن زدہ فضا و ماحول کو کشادہ کرنے لگتا ہے، جس سے اُس کے فن پارہ میں تخلیقی تاثرات سامنے ابھر کر آتے ہیں اور انہیں وہ افسانوی رنگ و روغن کے باوجود ایک ایسی حقیقت نمایاں کرتا ہے جس میں افسانوی رنگ بھی ہوتا ہے اور حقیقت و صداقت کی تصویریں بھی۔ جہاں یہ تصویریں زمانے کے حالات و کوائف کو ظاہر کرتی ہیں، اس طرح سے فنکار کا فن عیاں اور روشن ہوتا ہے۔ پریم چند کے تخلیقی فن میں بظاہر واقعات اور حادثات کا ایک سلسلہ زندگی اور ماحول سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ ان کا تخیل، واقعات و حادثات کو پولیس کی ڈائری یا صحافتی بیان کے بجائے فن کی صورت گری اختیار کرلیتا ہے?
آنندی نے لال بہاری سنگھ کی شکایت تو شوہر سے کی مگر اب دل میں پچھتا رہی تھی۔ وہ طبعاً نیک عورت تھی اور اس کے خیال میں بھی نہ تھا کہ معاملہ اس قدر طول کھینچے گا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کے اوپر جھنجھلا رہی تھی کہ یہ اس قدر گرم کیوں ہو رہے ہیں۔ یہ خوف کہ کہیں یہ مجھے الٰہ آباد چلنے کو نہ کہنے لگیں تو پھر میں کیا کروں گی۔ یہ خیال اس کے چہرے کو زرد کیے ہوئے تھا۔ اسی حالت میں جب اس نے لال بہاری کو دروازے پر کھڑے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اب میں جاتا ہوں، مجھ سے خطا ہوئی ہے معاف کرنا، تو اس کا رہا سہا غصہ بھی پانی ہوگیا۔ وہ رونے لگی۔ دلوں کا میل دھونے کے لیے آنسو سے زیادہ کارگر کوئی چیز نہیں۔
(افسانہ? بڑے گھر کی بیٹی)
محولہ بالا اقتباس میں پریم چند نے واقعہ پر بھی اظہار کیا ہے اور کسی قدر ڈرامائی انداز میں سچویشن کو پُر اثر بناکر انسانی دردمندی اور رشتے کی اہمیت کو اُجاگر کردیا ہے۔ پریم چند نے افسانہ دوبیل میں دو جانور کو فطری اور جبلی جذبوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دونوں بیل، انسانوں کی طرح ایک علامت کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔
جھوری دروازے پر بیٹھا دھوپ کھا رہا تھا۔ بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا اور انہیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا اور دوسرا اس کا پیر۔ اس آدمی نے آکر بیلوں کی رسیاں پکڑ لیں۔ جھوری نے کہا۔ یہ بیل میرے ہیں۔
تمہارے کیسے ہیں؟ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔
جھوری? میرا خیال ہے چراکر لائے ہو۔ چپکے سے چلے جائو۔
میرے بیل ہیں۔ میں بیچوں گا تو بلکیں گے۔ کسی کو میرے بیل بیچنے کا کیا حق حاصل ہے؟
میں نے خریدے ہیں۔
خریدے ہوں گے۔ (افسانہ? دو بیل)
پریم چند نے جہاں انسانوں کو خود غرض بتایا ہے مگر جانور اپنے مالک سے ایمانداری کا ثبوت دیتے ہیں۔ پریم چند نے مقصد اور فن کے بارے میں اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے?
مقصد فن کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ فن مقصد کے لیے۔ اگر فن مقصد کے تابع ہوجائے تو افادی یا مقصدی ادب کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے گویا فن پر حاوی نہ ہو فن مقصد پر حاوی ہو۔
اسی نظریے کو پریم چند، ونود شنکر ویاس کے نام ایک خط میں بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں?
میرے خیال سے۔ اور ہم سب کے خیال سے۔ ادب کے تین مقاصد ہیں یعنی جذبات کی تطہیر (Catharsis)، تفریح اور کشف (Revelation) لیکن ایک طرح سے تفریح اور کشف تطہیر کے عمل ہی میں شامل ہیں کیونکہ ادیب جس طرح کی مہیا کرتا ہے وہ قلابازوں اور نقادوں یا بھانڈوں کی تفریح سے مختلف ہوتی ہے۔ (ادب سے حاصل ہونے والی) تفریح میں جذبتا کی تطہیر کی کیفیت موجود ہوتی ہے۔ اگر تطہیر کا مقصد سامنے رکھا جائے تو کشف بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم داخلی ذہنی کیفیت دکھاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ہمیں کوئی فلسفہ پیش کرنا ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ ہم خوبصورت کو اور خوبصورت اور بدصورت کو اور بدصورت بناسکیں۔
دراصل پریم چند کا ذریعہ اظہار فکشن ہے اور وہ مقصد کی اہمیت سے واقف ہیں مگر وہ مقصد کو فن پر ترجیح نہیں دیتے۔ درج بالا اقتباس میں بھی پریم چند نے کہانی فارم میں ہی واقعات، حادثات، کردار وغیرہ کو فن کے ذریعہ پیش کر رہے ہیں۔
پریم چند افسانہ کے واقعاتی اور نفسیاتی عنصر کے بارے میں اپنے خطوط اور مضامین میں اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ ان کے خیالات اور افکار فکشن کے تئیںاہم تصور کیے جاتے ہیں۔ دراصل پریم چند نے جہاں کہانیاں تخلیق کی ہیں وہیں انھوں نے افسانے کے فن کے بارے میں اور اس پر انھوں نے غیر محسوس طور پر تنقید بھی کی ہے۔ افسانے کے بارے میں چند خیالات ملاحظہ فرمائیے?
میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدہ یا تجربہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر محض واقعہ کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں کسی فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک اس قسم کی کوئی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم ہی نہیں اُٹھتا… کوئی واقعہ افسانہ نہیں تاوقتیکہ وہ کسی نفسیاتی حقیقت کا اظہار نہ کرے۔
پریم چند اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے نفسیاتی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں?
اعلیٰ ترین مختصر افسانہ وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد کسی نفسیاتی حقیقت پر رکھی جائے۔ نیک باپ کا نالائق اولاد کی زبوں حالی میں رنجیدہ ہونا ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس جذبہ میں باپ کی ذہنی ہیجانی کیفیات اور اس کے مطابق اس کے ردعمل کی مصوری بھی افسانہ کو موثر اور پرکشش بناسکتی ہے۔ بُرا شخص بالکل ہی بُرا نہیں ہوتا۔ اس میں کہیں فرشتہ ضرور چھپا ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس پوشیدہ یا خوابیدہ فرشتہ کو اُبھارنا اور اس کا سامنے لانا ایک کامیاب افسانہ نگار کا شیوہ ہے۔ پے در پے مشکلات پیش آنے پر انسان کتنا دلیر ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بڑے سے بڑے خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اس کے دل کے کسی گوشہ میں پوشیدہ جوہر نمایاںہو جاتے ہیں اور ہمیں متعجب کردیتے ہیں۔ یہ ایک انسانی حقیقت ہے۔ (مضامین پریم چند)
پریم چند نے اپنے افسانوں میں جگہ جگہ نفسیاتی حقیقت سے کام لیا ہے اور افسانے کو پُر تاثر بناکر، اس سے اپنے مقصد تک رسائی حاصل کی ہے۔
ٹھاکر صاحب کے گھر پہنچ کر اس نے آہستہ سے ویراندر کا کمرہ کھلا اور اندر جاکر ٹھاکر صاحب کے پلنگ کے نیچے ڈبہ رکھا، پھر فوراً باہر آکر آہستہ سے دروازہ بند کیا اور گھر لوٹ پڑا۔ ہنومان جی سنجیوتی چوٹی والا پہاڑ کا ٹکڑا اُٹھائے جس روحانی سرور کا لطف اٹھا رہے تھے ویسی ہی خوشی پرکاش کو بھی ہو رہی تھی۔ زیوروں کو اپنے گھر لے جاتے ہوئے اس کی جان سوکھی ہوئی تھی۔ گویا کہ کسی گہرائی، اتھاہ گہرائی میں گرا جارہا ہو۔ آج ڈبہ کو لوٹاکر اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ایروپلین پر بیٹھا ہوا فضا میں اڑا جارہا ہے۔ اوپر، اوپر اور اوپر (افسانہ? زیور کا ڈبہ)
ایسے جلسے میں جہاں علم و تہذیب کی نمود تھی۔ اور جہاں طلائی عینکوں کے روشنی اور گوناگوں لباسوں سے فکر تاباں کی شعاعیں نکل رہی تھیں، جہاں وضع کی فناست سے رعب اور فربہی و دبازت سے وقار کی جھلک آتی تھی۔ وہاں ایک دہقانی کسان کو زبان کھولنے کا حوصلہ ہوتا ٹھاکر نے اس نظارے کو غور سے اور دلچسپی سے دیکھا اس کے پہلو میں گدگدی سی ہوئی زندہ دلی کا جوش رگوں میںد وڑا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور مردانہ لہجہ میں للکار کر بولا۔ میں یہ پرتگیا کرتا ہوں اور مرتے دم تک اس پر قائم رہوں گا۔ (افسانہ? صرف ایک آواز)
اقتباس اول میں چندرپرکاش کا ضمیر جاگتا ہے اور وہ چوری کے زیورات کا ڈبہ لے کر ٹھاکر کے مکان میں رکھتا ہے۔ چندرپرکاش کی نفسیاتی حقیقت کو پریم چند نے جس انداز سے اُبھارا ہے، اُن کے نزدیک یہی فن کا مقصد ہے۔ اور یہ فن، افسانوی فن ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاعری اور فکشن کے طریق کار کے تبدیلی کے لیے، ہماری تنقید کا محاورہ الگ ہونا چاہیے۔
دوسرے اقتباس میں صرف ایک آواز و مرکزی کردار ٹھاکر درشن سنگھ ایک فوجی ہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہوکر اپنے گھر آیا ہوا۔ ایک مذہبی جلسے میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہاں پریم چند نے چند باوضع اور بااخلاق اور مذہب پر مکمل اعتماد اور یقین رکھنے کی باتیں تو کرتے ہیں مگر مشکل وقت میں ہمت ہارتے ہیں۔ مگر ایسا ایک ایسا شخص، ان افراد و اشخاص کے مقابلے میں کم پڑھا لکھا مگر وہ مذہب کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
پریم چند کی نظر انسانی کردار کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوئوں پر رہتی ہے۔ وہ کردار کے اندر جاکر اس کی سوچ اور اُس کے جذبات کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ خود ایک کردار ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے?
جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھایا اور اس کے سر کو تھپ تھپاکر اسے اپنی گود میں سلالیا۔ کتّے کے جسم سے معلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئے ایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا۔ جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتّے سے بالکل نفرت نہ تھی۔ وہ اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔ ایسی انوکھی دوستی نے اس کی روح کے سب دروازے کھول دیے تھے اور اس کا ایک ایک ذرّہ حقیقی روشنی سے منور ہوگیا تھا۔
اب ہلکو سے نہ رہا گیا وہ پکا ارادہ کرکے اُٹھا اور دو تین قدم چلا۔ پھر یکایک ہوا کا ایسا ٹھنڈا چبھنے والا، بچھو کے ڈنک کا سا جھونکا لگا وہ پھر بجھتے ہوئے الائو کے پاس آبیٹھا اور راکھ کو کرید کرید کر اپنے ٹھنڈے جسم کو گرمانے لگا۔ آخر وہیں چادر اوڑھ کر سوگیا۔
پریم چند نے پوس کی سردی اور غریبی سے مجبوری۔ نہ انسان قدرت کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی حالات کا مقابلہ، ایک مجبوری کا احساس انسان کو مجہول بناکر چھوڑ دیتا۔ تنہائی میں انسان جانور کو بھی دوست بنالیتا ہے اور اس سے اس کے احساس کو اطمینان ہوتا ہے۔
پریم چند کسی بھی کہانی میں معاشرتی مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے، انسانی زندگی اور ماحول اور کردار کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ وہ حقیقی روپ اختیار کرلیتا ہے۔ یہی ان کے تخلیقی عمل کا بہترین اظہار ہوتا ہے۔
منشی پریم چند نے ترقی پسند تحریک کے اوّلین جلسہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا?
جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت و حرکت پیدا نہ ہو۔ جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال پیدا نہ کرے وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔
پریم ایک بالغ نظر فنکار ہونے کی وجہ سے وہ انسان اور معاشرے کے تمام معاملات سے واقف تھے۔ اُن کی حقیقت نگاری ہو کہ عینیت پسندی اور آدرش وادی، وہ انسان اور اس کے معاشرے میں پیدا شدہ مسائل کو ہی اپنے فکر و فن میں سمویا ہے۔ ان کے کردار افسانوی ہوتے ہوئے بھی حقیقی نظر آتے ہیں۔ ان کے تخلیقی جواہر کا کمال ہے کہ وہ ہر کردار میں زندگی کی سچائیوں اور صداقتوں کی طاقت عطا کرتے ہیں۔ مادھو ہو کہ گھیسو بظاہر نفرت کا قابل ہوتے ہوئے بھی پورے ہندوستانی سماج میں وہ احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب انسان کو بھوک ستاتی ہے تو وہ اقدار کو بے معنی سمجھتا ہے۔ پریم چند کے کرداروں پر انسانیت دوستی بھی ہے اور معاشرے سے سرکشی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
پریم چند نے دیہاتی زندگی کو اس قدر سچے اور کھرے انداز میں دکھایا ہے کہ ان کا پیش کردہ دیہاتی ماحول نامانوس نہیں لگتا۔ وہاں کے رسم و رواج،د یہاتیوں کا رہن سہن، ان کی اوہام پرستی، ان کا مذہب غرض کہ تمام معاشرہ زندہ نظر آنے لگتا ہے۔ پریم چند کے تخلیقی و فکری رویوں میں جن رویوں اور جن اہم امور کو اولیت اور اہمیت حاصل ہے صداقت، مساوات اور سماجی خوش حالی۔ ان کا تخلیقی عمل، کہانی کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ کردار کی ظاہری اور باطنی دنیا نظر آتی ہے اور کردار کی انفرادیت برقرار رہتی ہے۔
پریم چند کے بارے میں شبلی ہوں کہ وارث علوی یہ اتفاق رکھتے ہیں کہ پریم چند نے اپنے افسانوں میں جو زبان استعمال کی ہے وہ افسانے کے بین السطور اور تہہ نشین میں گزرنے والی تمام لہریں واضح ہونے لگتی ہے۔ پریم چند اپنی زبان سے طنز کا کام ہر وقت لیتے ہیں۔ پریم چند حقیقت پسند تو ہیں ہی مگر ان کی یہ حقیقت کفن ہو کہ دیگر افسانے وہ ادبی حقیقت جس میں تخیل کارفرما کر اسی طرح ان کی زبان کا جادو تخیل کی کارفرمائی کی وجہ سے ہی دلکش ہوجاتا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ عام بول چال کی زبان کو بھی انھوں نے اس قدر تخلیقی زبان بنایا اور ایک ایسا افسانوی اسلوب آنے والی نسلوں کے لیے پیش کیا ہے کہ وہ صداقت اور سچائی کو خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے فکرو خیال کو واضح کریں۔
(زمانہ تحریر2007)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا