پروفیسر طرزیؔ کی منظوم سیرت نگاری اورڈاکٹر احسان عالم کا تنقیدی رویہ

0
0

ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ،دربھنگہ

ڈاکٹر احسان عالم کا اشہب قلم تیز گام ہے ۔ ان کی پہلی کتاب ’’متفرقات طرزی‘‘(ترتیب) ۲۰۱۵ء میں منظر عام پر آئی اور اسے بعد انہوں نے لگاتار شعر و نثر سے شغف رکھا ۔ اب تک ان کی شائع شدہ ۲۲کتابوں(ترتیب و تالیف)سے ان کی ادبی فعالیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اول الذکر کتاب کے بعد ’’مکتوبات‘‘(ترتیب)، ’’مولانا ابوالکلام آزاد:افکار و نظریات ‘‘ (تصنیف)،’’طبیب طب اور صحت‘‘(ترتیب)،’’آئینۂ تحریر‘‘ (تنقیدی مضامین کامجموعہ )،’’مولانا ابوالکلام آزاد اور نظریہ تعلیم‘‘،’’منصور خوشتر ہمہ جہت فنکار‘‘ (تصنیف)،’’تعلیم اور تعلیمی تصورات‘‘ (تصنیف)،’’مناظر عاشق ہرگانوی :فکرو نظر کی چند جہتیں‘‘ (تصنیف)،’’پروفیسر طرزی :ذات سے شعری کائنات تک‘‘(ترتیب)، ’’ حسن رہبر ایک منفرد افسانہ نگار ‘‘،’’مناظر عاشق ہرگانوی کے مختلف تخلیقی رنگ‘‘،’’ بچوں کے سنگ‘‘،’’ پروفیسر ظفر حبیب: شخصیت اور افسانہ نگاری‘‘،’’ متفرقات طرزی ‘‘جلد سوم ، ’’اوراق غزل‘‘(شعری مجموعہ)،’’مطالعۂ کتب‘‘(کتابوں پر تاثراتی مضامین)،’’پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی :چند یادیں‘‘، ’’ آئینہ تنقید‘‘(تنقیدی مضامین کا مجموعہ )’’سید محمود احمد کریمی:فکر ونظر کے آئینے میں‘‘،’’رام پرکاش کے خطوط بنام اظہر نیر‘‘ (ترتیب)،’’ آئو بچو! تمہیں بتائیں‘‘ ان کی تصنیفات و تالیفات کی فہرست میں شامل ہیں ۔ اس فہرست کو باغور دیکھا جائے تویہ واضح ہوگا کہ انہوں نے عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبد المنان طرزی کے تعلق سے کئی کتابیں ترتیب دی ہیں اور زیر مطالعہ عنوان کو اپنی تصنیف کا حصہ بنایا ہے ۔’متفرقات طرزی‘‘(ترتیب)،’’مکتوبات‘‘(ترتیب) ،’’پروفیسر طرزی :ذات سے شعری کائنات تک‘‘(ترتیب) ،’’متفرقات طرزی‘‘ جلد سوم (ترتیب )اور’’ پروفیسر طرزیؔ اور اُن کی منظوم سیرت نگاری‘‘ کا مطالعہ پروفیسر طرزی روشن و منور خدمات کی تمثال ہے۔
’’پروفیسر طرزیؔ اور اُن کی منظوم سیرت نگاری‘‘کی گفتگو کو ’اردو منظوم سیرت نگاری ‘،‘پروفیسر طرزی کی منظوم سیرت نگار ی‘ ،’پروفیسر طززی کے چند ہمعصر سیرت نگار‘،’پروفیسر طرزی سے متعلق چند اہم گوشے‘اور ’پروفیسر طرزی کے کتابوں کی فہرست(نامکمل)‘ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔مذکورہ تمام ابواب کے مرکز میں پروفیسر طرزی کے ادبی فتوحات کی تحسین ہے ۔بلاشبہہ سیرت نگاری بالخصوص منظوم سیرت رسول ﷺ کا بیان آسان نہیں ۔طرزی صاحب کو اللہ نے یہ توفیق دی کی منظوم گفتگو کا ہنر عطا کر دیا ۔حافظ قرآن ہیں اور دینداری ان کا شعار ہے ۔تاریخ اسلام اور سیرت طیبہ کا مطالعہ ان کا پسندیدہ عمل رہا ہے ۔انہوں نے منظوم اظہاریہ کو امتیاز بخشا اور ہر وہ کام انجام دیا جو صرف نثر کے حصے میں آتا تھا ۔ان کے منظوم کمالات میں سر فہرست تخلیق ’’منظوم سیرت رسول ﷺ ‘‘ہے ۔ اس قابل رشک کاوش پہ مشاہیر ادب نے خوب خامہ فرسائی کی ۔طرزی صاحب پہ لکھتے ہوئے اس کتاب کا ذکر ناگزیر ہے ۔ڈاکٹر احسان عالم ںے بھی اس کڑی کو آگے بڑھایا اور ان کی اس مستحسن تخلیق کو اپنے مطالعے کاموضوع بنایا ۔اس کی کتابی صورت ہمارے سامنے ہے ۔
انہوں نے ’’ اپنی بات‘‘ میں طرزی کے احوال اور ان شعری کمالات ،مقبولیت اور مشاہیر کی آرا ء کو پیش کیا ہے ۔ پروفیسر طرزی سے مصنف کے تعلقات اور ان کی عالمگیر مقبولیت کا ذکر یہاں موجود ہے ۔ان کی فن کاری پہ وہ رقم طراز ہیں ۔
’’طرزی صاحب کو شعر گوئی پر اس قدر دسترس حاصل ہے گویا ان کے ذہن دماغ میں اشعار ابلتے ہیں اور ایک سیل رواں کی طرح صفحہ قرطاس پر پھیل جاتے ہیں۔ ان کی زود گوئی اور کثرت شعری اظہار حیران کن ہے۔ ان کی بعض منظوم کتاب محض چند دنوں کی تخلیقی شاہکار ہے۔ طرزی صاحب سراپا شعری پیکر ہیں۔ ان کا وجود اور ان کا خمیر شعری عناصر سے گوندھا گیا ہے ۔ اس طرح طرزی صاحب اردو دنیا کے ایک عظیم فنکار ، بلند پایہ شاعر ،تاریخ ،تنقید،تذکرے اور تبصرے کے شعری طرز بیان کے موجد ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر احسان عالم نے دوسرے باب میں ’’اردو منظوم سیرت نگاری ‘ ‘پہ اختصار کے ساتھ ان کوششوں کا ذکر ہے جن میں حیات طیبہ کو منظوم کیا گیا ہے ۔اس میں ایک فہرست بھی موجود ہے جس میں اہم نام شامل ہو گئے ہیںساتھ ہی مصنف نے حوالوں سے ان کی سیرت نگاری کے امتیازات کو پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔یہاں انہوں نے ’’منظوم سیرت رسول ‘‘(پرفیسر طرزی ) کی خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فن سیرت نگاری ایک قلم کار کے لئے مشکل ترین فن ہو جاتاہے اور اگر سیرت نثر کی بجائے نظم کے پیرائے میں لکھنا ہو تو یہ فن مشکل ترین ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آنے لگتاہے ۔ مگر نا ممکن کو اپنی صلاحیت و استطاعت کی حد تک ممکن بنانا ہی ایک سچے فنکار کی پہچان ہے ۔ وہ سچا فنکار اگر ایک سچامسلمان بھی ہے تو اپنے فن کو اپنی نجات کا ذریعہ بھی بنا لیتا ہے ۔ جناب طرزیؔ نے اپنی نجات کا سامان تو ’’سیرۃ الرسول‘‘ لکھ کر اپنے لئے مغفرت کا مزید سامان توفراہم کرہی لیا ساتھ ہی ساتھ اکثر مقامات پر تمام عالمِ انسانی کے نام نبی کریم ﷺ کا آفاقی پیغام پہنچانے کی کوشش بھی کی ہے ۔
پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ کی ’’سیرۃ الرسول‘‘ کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ کسی بھی عنوان کے تحت غیر ضروری پر تکلف ، پر تصنع اور محض تزئین اور تفنن طبع کے لئے اشعار پیش کرنے سے احتراز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت ہی مناسب ضخامت میں یہ اہم کام منصۂ شہود پر آگیا ہے۔ طرزیؔ شاعری کے ایک ایسے رواں دواں دریا کا دوسرا نام ہے جس کا بہائو برسات کا مرہونِ منت نہیں ہے۔‘‘
’’پروفیسر طرزی کی منظوم سیرت نگاری‘‘ کتاب کا مرکزی باب ۔اس کو مزین کرنے میں مصنف نے کافی محنت کی ہے ۔ اس کتاب کے منتخب ابواب سے اشعار بھی پیش کئے ہیں ۔بلا شبہہ پروفیسر طرزی کے شعری حوالے انہیں بلند مرتبہ عطاکرتے ہیں ۔وہیں ان کی کتاب ’’منظوم سیرت رسول ‘‘ ایک ایسا کارنامہ جس پہ جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے ۔ اہہل انہیں یہ موقع عنایت کیا کہ اپنے پیارے نبی کی سیرت اور مدح بیان کر سکے ۔شاعر نے بھی اپنی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہم کارنامہ انجامدے دیا جو دنیا اور آخرت میں ان کے کے لئے سرخروئی کا سبب ہے ۔اس کتاب کی خصوصیات کاذکر مصنف اس طرح کرتے ہیں ۔
’’زیرِ نظر سیرت میں پروفیسرطرزیؔ نے تاریخ کی متداولہ کتب ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن واحادیث سے بھی استفادہ حاصل کیا ہے اور کئی آیاتِ قرآنی یا ان کے حصول کو اپنے اشعار میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان آیات کو اشعار میں باندھتے وقت آپ نے ان کی شانِ نزول کابھی خیال رکھا ہے تو دوسری طرف نفسِ واقعہ کی وضاحت کے لئے بھی قرآنی آیات کا استعمال کیا ہے۔اس سے طرزیؔ کی قرآن فہمی سمجھ میں آتی ہے۔ واقعاتِ سیرت کی صحت کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے آپ نے مختلف تفاسیر کا بھی سہارا لیا ہے ۔ ان ماخذات کے علاوہ پروفیسر طرزیؔ نے عربی ادب سے بھی استفادہ کیا ہے۔‘‘
’’پروفیسر طززی کے چند ہمعصر سیرت نگار‘‘ میں مصنف نے چند اہم شعرا اور ان کے سیرت نبوی نگاری سے بحث کی ہے ۔ بدیع الزماں سحر او رفیع الدین راز کے علاوہ بھی یہاں چند اور ہمعصر کی گنجائش تھی ۔’’پروفیسر طرزی سے متعلق چند اہم گوشے‘‘بزرگ شاعر کے تئیں خراج ہے ۔انہوں نے مشہور ادبا ء کی آراء اور طرزی صاحب کے انفرادیت کو یہاں خوبصورتی سے پرویا ہے ۔ ’’پروفیسر طرزی کے کتابوں کی فہرست(نامکمل) ‘‘کی شمولیت سے ان کی تصنیفات و تالیفات کو ترتیب وار جاننے کا موقع ملتا ہے۔
یہاں ایک قابل ذکر پہلو پہ گفتگو ضروری جا ن پڑتا ہے ۔جیسا کہ ڈاکٹر احسان عالم نے پروفیسر طرزی کے ادبی مرتبہ کا تعین اور ان کی شاعری پہ گفتگو کے ضمن جو سوالات قائم کئے ہیں وہ اہم ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ ان کے فکر و فن پہ جس انداز کی گفتگو ہونی چاہئے وہ نہ کے برابر ہو سکی ہے ۔مصنف کے اس نکتہ سے اتفاق کیا جا سکتا ہے ۔وہ ایمانداری سے لکھتے ہیں۔
’’کسی فنکار کو ایک ساتھ اتنی بڑی بڑی شخصیتوں نے موضوع بنایا ہو اور اس کے فکر وفن کو نظر استحسان سے دیکھا ہو۔ان سب کے باوجود طرزی کے فن پر لکھی گئی تحریروں کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کا حق ادا نہیں ہوپایا ہے۔ چند کو چھوڑ کر لوگوں نے ان کے فن پر گفتگو کرنے کے بجائے ان کی شخصیت کو زیادہ اہمیت دی ہے اور ان کے فن پر تاثراتی یا تبصراتی انداز میں گفتگو کی ہے۔‘‘
مذکورہ رائے کے باوجود یہ کتاب طرزی کی سیرت نگاری پہ لکھی گئی الگ نوعیت کی تصنیف ہے ۔اس میں مصنف کے خیالات بھی ہیں ،مشاہیر ادبا کے مضامین ؍ شعری تخلیقات سے حوالے اور طرزی صاحب کی مذکورہ کتاب سے حسب ضرورت انتخاب شامل ہیں ۔جب بھی پروفیسر طرزی کی سیرت رسول ﷺ پہ گفتگو کی جائے گی ڈاکٹر احسان عالم کی یہ کتاب استفادہ کیلئے سود مند ہوگی ساتھ ہی ساتھ استاد محترم عبد المنان طرزی صاحب کی ادبی خدمات کے روشن پہلو سیرت نگاری کے حوالے سے اہم ثابت ہوگی ۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا