راج محمد آفریدی پشاور پاکستان
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں ایک چھوٹا سا پرندہ رہتا تھا۔ وہ نہایت محنتی اور دلیر تھا ۔ اس نے اپنی محنت سے درخت کی مضبوط شاخ پر خوب صورت اور پائیدار گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنے لیے کیڑے مکوڑوں کا خود شکار کرتا ۔
ایک دن پرندہ انڈوں پر بیٹھ کر گنگنا رہا تھا کہ اسے شور سنائی دیا۔ اس نے نیچے دیکھا تو اسے بھاگتی بلی نظر آئی جو ایک چھوٹے سے چوہے کا پیچھا کر رہی تھی۔ پرندے نے چوہے پر غور کیا ۔ وہ بہت ڈرا ہوا تھا۔ بلی اس کے بہت قریب تھی۔ پرندہ جانتا تھا کہ اسے اس وقت کیا کرنا چاہیے ۔ وہ تیزی سے نیچے اڑا اور بلی پر جھپٹ پڑا ۔ چونکہ بلی کی نظریں اور پوری توجہ چوہے پر تھی اس لیے وہ اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھی ۔ پرندے کے جھپٹنے سے بلی کے حواس خطا ہوگئے ۔ اس نے ڈر کے مارے چوہے کا پیچھا چھوڑ دیا اور خود جھاڑیوں میں چھپ گئی ۔ چوہا اسی طرح دوڑتا رہا ۔ پرندے نے اڑتے اڑتے اسے آواز دی ۔
"خطرہ ٹل گیا ہے ۔ اب تمھیں دوڑنے کی ضرورت نہیں ۔”
چوہے نے سنا تو مسکرانے لگا ۔ اس نے رک کر اپنی سانسیں بحال کیں اور کہنے لگا: "آپ نے میری جان بچائی! میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔”
پرندے نے سن کر کہا: ” ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ ، تم یہاں کیا کر رہے تھے ؟”
"میں کھانے کے لیے کیڑے مکوڑے ڈھونڈ رہا تھا کہ غلطی سے بلی کے علاقے میں چلا آیا۔ تب اس نے مجھ پر حملہ کیا ۔ میں بھوکا پیاسا دور تک بھاگنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ، یہ تو اچھا ہوا آپ آ گئے ورنہ آج میری حالت میرے خاندان والوں کی طرح ہوتی ۔ "
چوہا یہ کہتے ہوئے باقاعدہ رونے لگا ۔ پرندے کو اس پر افسوس ہوا ۔ چوہے نے روتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ۔ "میں اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہوں کیونکہ ہفتہ قبل چند بلیوں نے مل کر میرا پورا خاندان کھا لیا تھا ۔”
پرندے کو چوہے پر بڑا ترس آیا ۔ اس نے چوہے سے ہاتھ ملایا اور کہا: "تم میرے ساتھ گھونسلے میں رہ سکتے ہو ، وہ محفوظ ہے ۔ تمھیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ۔ وہاں تمھیں وقت پر کھانا بھی ملے گا کیونکہ میں دن میں دو مرتبہ کیڑوں کا شکار کرکے لاتا ہوں ۔”
چوہا خوشی خوشی اس کے ساتھ چل دیا ۔ جب وہ گھونسلے پہنچے تو چوہے کی نظر پرندے کے انڈوں پر پڑی ۔ وہ انڈہ توڑنے ہی والا تھا کہ پرندے نے جھٹ سے کہا۔
"خبردار! اسے کبھی ہاتھ نہ لگانا ۔” پھر اس نے چوہے کے سامنے کیڑے رکھے اور کہا۔ ”تمھاری پسندیدہ غذا تمھارے سامنے ہے ۔ کھاؤ اور اپنی بھوک مٹاؤ ۔”
چوہا جلدی جلدی کیڑے کھانے لگا۔ اس دوران وہ پرندے کے انڈوں کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا ۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس چیز سے کسی کو منع کرو ، وہ وہی چیز کھانا چاہے گا ۔ پس چوہا انڈہ کھانے کے لیے مچلنے لگا۔ پرندے نے اس کے لیے بستر لگایا اور کہا: "اب تم آرام کرو ۔ تب تک میں شام کے کھانے کا بندوبست کرتا ہوں۔”
چونکہ چوہا بہت تھکا ہوا تھا اس لیے فوراً سو گیا۔ پرندہ اسے سوتا چھوڑ کر اڑا۔ اس کے اڑتے ہی چوہا جاگ اٹھا ۔ اصل میں وہ سویا نہیں تھا بلکہ سونے کی اداکاری کر رہا تھا۔ پرندہ کیڑوں کی تلاش میں اڑ رہا تھا کہ اچانک اسے وہی بلی نظر آئی جس سے چوہے کو چھڑایا گیا تھا۔ پرندے کو لگا کہ بلی اس کے گھونسلے کی طرف جارہی ہے ۔ پرندہ بلی کے قریب آ کر اس پر جھپٹنے ہی والا تھا کہ بلی نے چیختے ہوئے کہا۔
"میں یہاں کسی کو نقصان پہنچانے نہیں آئی ہوں بلکہ تم سے ایک بات کرنے آئی ہوں۔” پرندہ قریبی شاخ پر بیٹھ گیا۔ اس نے بلی سے پوچھا۔
"کہو کیا کہنا چاہتی ہو ؟”
"میں تمھیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ایک ہی ملاقات میں کسی کو دوست بنانا اور اسے اپنے گھر میں ٹھہرانا بے وقوفوں کی نشانی ہے ۔” بلی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئی ۔ وہ پرندے کا جائزہ لے رہی تھی ۔ پرندے کو بلی کی بات پر یقین آنے لگا۔ بلی نے مزید کہا ۔
"اس چوہے پر بھروسہ کرکے تم نے اچھا نہیں کیا۔ وہ اس جنگل کا جھوٹا اور مکار چوہا ہے ۔ وہ ہر کسی سے جھوٹ کہتا ہے اس لیے خاندان والوں نے اسے بستی سے نکال دیا ہے ۔ اس کے ساتھ وہ ہر کسی کی امانت میں خیانت کرتا ہے ۔”
یہ سنتے ہی پرندے کی آنکھیں حیرت سے نکل آئیں ۔ اسے اپنے انڈے یاد آئے ۔ وہ تیزی سے اڑا اور گھونسلے پہنچ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ چوہے نے دو انڈوں میں سوراخ کرکے سارا مائع چوس لیا تھا۔ پرندے نے غصے سے چوہے کو پکڑ کر نیچے پھینک دیا۔ وہاں بلی پہلے سے تیار کھڑی تھی ۔ پرندے نے نیچے دیکھا تو بلی چوہے کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔ چوہے نے پرندے سے التجا کی۔
"پیارے پرندے ! مجھے بچا لیجیے ۔ آئندہ میں کسی سے جھوٹ نہیں بولوں گا اور نہ ہی کسی کی امانت میں خیانت کروں گا ۔”
پرندے پر چوہے کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا اور یوں بلی نے چوہے کو پکڑ لیا۔