شاہ تاج خان(پونہ)
’’پروفیسر نائٹرو!میرے منہ میں اگر چھوٹا سا کنکر بھی آجائے تو میں پورا نوالہ تھوک دیتا ہوں۔پھر بھی ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ میرے گردے میں پتھری ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم پتھر تو کھاتے نہیں ہیں پھر یہ گردے میں پتھری کہا ںسے آجاتی ہے؟ہر دوسرا آدمی یہی شکایت کرتا ہے کہ اُس کے گردے میں پتھری ہو گئی ہے۔‘‘اچھے میاں نے چائے پیتے ہوئے پروفیسر نائٹرو سے پوچھا ’’اچھے میاں!گردے کی پتھری (kidney stone)کا تعلق اِن پتھروں سے بالکل نہیں ہے جو یہاں وہاں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور آپ کے نوالے میں آجاتے ہیں۔گردے (kidney) میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے پتھر بہت خاص ہوتے ہیں۔ گردے میں پتھری ہونے کے لیے بہت سی باتیں ذمّہ دار ہوتی ہیں۔گردے کے کاموں کے بارے میں جاننے پر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ پتھر گردے میں بنتے کیسے ہیں۔‘‘ پروفیسر نائٹرو نے سمجھاتے ہوئے کہا تو اچھے میاں نے حیران و پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ’’پروفیسر صاحب! یہ گردے ہمارے جسم میں کوئی خاص کام سنبھالتے ہیںیا صرف پتھر ہی بناتے ہیں؟‘‘پروفیسر نائٹرو نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں نہیں اچھے میاں!گردے کے دو بڑے اور اہم کام ہیں۔پہلا زہریلا اور فاضل مادے کو جسم سے باہر نکالنا اور دوسرا پانی ،سیال مادہ،معدنیات اور کیمیاوی توازن کو جسم میںبرقرار رکھنا۔یہ توازن اضافی پانی کی مقدار کو پیشاب کی صورت میں نکال کر جسم کے لیے پانی کی ضروری مقدار کو برقرار رکھتا ہے۔اِس صفائی ستھرائی میں کچھ مادے گردے میں رہ جاتے ہیں۔جو پتھری کی شکل میں ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔‘‘اچھے میاں نے سر کھجاتے ہوئے کہا ’’ہیںںںں۔میں تو سمجھتا تھا کہ جسم سے پیشاب کی شکل میں اضافی اور زہریلے مادے باہر ہوجاتے ہیں۔میں پانی بھی ٹھیک سے پیتا ہوں ۔پیشاب کو بھی کبھی نہیں روکتا۔پھر جسم میں فاضل مادے کیسے رہ جاتے ہیں؟۔‘‘پروفیسر صاحب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ’’جی اچھے میاں!آپ درست کہہ رہے ہیں۔شاید آپ بھول رہے ہیں کہ پیشاب بنانے کی ذمّہ داری یہی گردے نبھاتے ہیں۔بہت ہی کم یا بہت ہی زیادہ پیشاب کا بننا یہ بتاتا ہے کہ گردے کو توجہ اور علاج کی ضرورت ہے۔‘‘اچھے میاں نے اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے کہا ’’ایک منٹ ایک منٹ!میں اِس طرح کچھ سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔میں کمرے سے وہ ماڈل اُٹھا کر لاتا ہوں۔جس میں گردے دکھائی دے رہے ہیں۔پھر مجھے ٹھیک سے سمجھائیے گا ۔‘‘پروفیسر صاحب بھی اپنی جگہ سے اُٹھے اور باورچی خانہ کی جانب جاتے ہوئے اچھے میاں سے ہنس کر بولے ’’لگتا ہے اب تو کیتلی بھر کر چائے کی ضرورت پڑے گی۔‘‘اچھے میاں نے ماڈل لاکر میز پر رکھتے ہوئے جوشیلے انداز میںبرجستہ جواب دیا ’’جی پروفیسر نائٹرو!چائے کی ضرورت کے بارے میں بھی آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے!‘‘چائے آنے تک اچھے میاں ماڈل کا مشاہدہ کر رہے تھے۔پروفیسر صاحب نے چائے کی کیتلی میز پر رکھتے ہوئے کہا ’’کیوں اچھے میاں!ماڈل نے آپ کے کسی سوال کا جواب دیا؟‘‘اچھے میاں نے پروفیسر نائٹرو کی جانب دیکھ کر کہا ’’میں ایسے ماڈل اپنے اسکول کے وقت سے دیکھتا آرہا ہوں۔انہیں دیکھ کر صرف جسم میں اِن اعضاء کے مقام کو ہی یاد رکھ سکا ہوں۔اور سچ کہوں تو دو چار اعضاء سے زیادہ کی صحیح جگہ بھی میں نہیں بتا سکتا ۔‘‘اچھے میاں نے اعتراف کیاتو پروفیسر صاحب نے ماڈل پر گردے کی جگہ (position)سمجھاتے ہوئے کہا ’’عام طور پر ہمارے جسم میں دو گردے ہوتے ہیں۔دونوں گردے پیٹ کے اوپری حصّے میں پیچھے کی جانب ہوتے ہیں۔یہ دیکھئے اچھے میاں! دونوں گردے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف واقع ہوتے ہیں۔‘‘اچھے میاں اپنے جسم میں ہاتھوں سے ٹٹول کر گردے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ’’اچھے میاں!گردے ملے!‘‘اچھے میاں نے جھینپتے ہوئے کہا ’’کیا پروفیسر صاحب! میں تو بس ایسے ہی۔۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’ہمارے جسم میں ہر روز پانی،نمک اور دیگر مادوں کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ہماری غذا سے توانائی اور طاقت حاصل کرنے کا عمل لگاتار جاری رہتا ہے۔اور اِس عمل سے زہریلا ،نقصان دہ اورفاضل مادہ بھی تیار ہوتا رہتا ہے۔خون کی صفائی کا انتہائی اہم کام گردے سنبھالتے ہیں۔جب خون گردوں کے پاس صفائی کے لیے پہنچتا ہے تو اِس میں سے فاسد اور نقصان دہ مادوں کو پیشاب کی شکل میں جسم سے باہر نکالنے کا کا م گردے کرتے ہیں۔پیشاب میں پانی(water)،سوڈیم(sodium)،کیلشیم(calcium) ,آگزیلیٹ (ترشک کے تیزاب کا ایسڈیا نمک) (oxalate) ، پوٹاشیم (potassium)، فاسفیٹ(فاسفورک تیزاب) (phosphate)،یورک ایسڈ(پیشاب کا تیزاب یا ترشہ) (uric acid)ہوتے ہیں۔جب پیشاب میں ان کی مقدار کسی بھی سبب بڑھنے لگتی ہے توپیشاب میں تیزابیت زیادہ ہو جاتی ہے۔اور پھر یہ آپس میں جڑ کر کرسٹل (crystals) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔دھیرے دھیرے اِن کے سائز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اگر اِن پر دھیان نہ دیا جائے اور درست علاج نہ کیا جائے تو یہ پتھر بن جاتے ہیں۔حالانکہ چھوٹے سائز کے یہ پتھر خود ہی پیشاب کے ذریعے جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔لیکن جب اِن کا سائز زیادہ بڑا ہو جاتا ہے تب یہ مسئلہ بن سکتے ہیں۔گردے کی پتھری(kidney stone) کو renal calculusبھی کہتے ہیں۔‘‘اتنی لمبی بات کے دوران اچھے میاں خاموشی سے پروفیسر نائٹرو کو سُن رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کے رکتے ہی انہوں نے پوچھا ’’پروفیسر صاحب! کیا گردے میں ایک ہی طرح کی پتھری ہوتی ہے؟میرا مطلب ہے کہ کیا یہ اسٹون بھی مختلف رنگ وروپ میں گردے میں پلتے ہیں؟یا سب ایک جیسے ہوتے ہیں؟‘‘اچھے میاں کے سوال پر پروفیسر نائٹرو نے کہاؤ ’’گردے کی پتھری(kidney stone)کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔جیسے کیلشیم آگزیلیٹ(calcium oxalate ) کیلشیم فاسفیٹ calcium phosphate)) سٹریووائٹ(struvite)،سسٹین(cystine) ،یورک ایسڈ(uric acid) ۔لیکن اِس میں سے عام طور پر کیلشیم آگزیلیٹ(calcium oxalate)پتھری گردے میں سب سے زیادہ لوگوں کی تکلیف کا سبب بنتی ہے۔‘‘اچھے میاں کا سوال تیار تھا ’’کیا اِن پتھروں سے راحت کا کوئی آسان طریقہ یا نسخہ ہے؟‘‘پروفیسر صاحب نے کہا ’’خوب پانی پیجئے۔پتھری اپنے آپ ہی پیشاب کے ذریعے باہر نکل جائے گی۔‘‘اچھے میاں نے پتھری کی وجہ سے ہونے والے درد کو یاد کرتے ہوئے کہا ’’پروفیسر نائٹرو!یہ کتنا آسان طریقہ ہے لیکن مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔میں جانتا ہوں کہ پتھری کی وجہ سے کتنا زیادہ درد ہوتا ہے۔لیکن یہ اچانک ہی شروع ہوا۔اگر مجھے پہلے ہی معلوم ہو تا تومیں زیادہ مقدار میں پانی پیتا اور مجھے دوا وغیرہ نہیں کھانا پڑتی۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے تسلّی دیتے ہوئے کہا ’’ابھی بھی کوئی دیر نہیں ہوئی ہے۔ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیجئے۔ڈھیر سارا پانی پیجئے اور اپنی غذا پر دھیان دیجئے۔آپ کے گردے میں تو صرف ایک ہی پتھری ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ دھنراج وڈیلے(Dhanraj Wadile)کے بائیں گردے سے172155پتھر نکالے گئے تھے۔‘‘گنتی سُن کر اچھے میاں کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں ’’اتنے سارے پتھر!‘‘پروفیسر نائٹرو نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جی !گردے میں پتھری کا ہونا بہت عام بات ہے۔لیکن یہ پتھر اگر زیادہ بڑے ہو جائیں تو پیشاب کے اخراج میں مشکل پیدا کر سکتے ہیں۔اور کہیں یہ پیشاب کے اخراج کاراستہ ہی روک لیں تو گردے میں infection)) کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اور ہاں اچھے میاں !اگر ایک بار پتھری ہو جائے تو زیادہ محتاط رہنا چاہئے کیونکہ پتھری کے بار بار ہونے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔سب سے اہم یہ ہے کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔ورزش کیجئے،متوازن غذا لیجئے اور اگر پیٹ میں ہو رہے درد کی کوئی وجہ سمجھ نہ آئے تو ڈاکٹر سے رجوع کیجئے۔‘‘ اچھے میاں نے اچانک پوچھا ’’گردے کا بھی تو کوئی اسپیشل ڈاکٹر ہوتا ہوگا،وہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں۔‘‘پروفیسر نائٹرو نے مسکرا کر کہا ’’آپ جس ڈاکٹر کے پاس اپنا علاج کرا رہے ہیں وہ گردہ اسپیشلسٹ(NEPHROLOGIST)ہی تو ہے۔اگر آگے ضرورت پیش آتی ہے تو ڈاکٹر صاحب آپ کو یورولوجسٹ(UROLOGIST)سے رجوع کرنے کی صلاح دیں گے۔‘‘اچھے میاں نے کہا ’’پروفیسر صاحب !میرے پتھری کے درد نے ڈاکٹر کی ڈگری کہاں دیکھنے دی۔میں تو ہائے ہائے کرتا ہوا اُس کے پاس گیا تھا۔بھلا ہو آپ کا،اگر آپ نے مجھے صحیح ڈاکٹر کے پاس جانے کی صلاح نہ دی ہوتی تو میں ابھی بھی یہاں وہاں دھکے ہی کھا رہا ہوتا۔‘‘پروفیسر نائٹرو صرف مسکرا کر رہ گئے۔اچھے میاں نے بے ساختہ کہا ’’ارے ہاںپروفیسر صاحب!میرے ذہن میں ایک خیال ابھی ابھی آیا ہے۔ہر بار میں ہی آپ سے سوال پوچھتا ہوں۔لیکن کل آپ مجھے وہ بات بتائیے گاجو آپ سمجھتے ہوں کہ مجھے ضرور معلوم ہونا چاہئے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے جواب دیا ’’جی ضرور!کل حساب(علمِ ریاضی) کی بات کریں گے۔‘‘اچھے میاں نے کہا ’’کیا حساب کا بھی سائنس سے کوئی تعلق ہے؟‘‘پروفیسر نائٹرو نے کہا ’’جی اچھے میاں!‘‘اچھے میاں نے صرف اتنا کہا ’’مجھے کل کا بے صبری سے انتظار رہے گا۔‘‘اچھے میاں کو حیران پریشان دیکھ کر پروفیسر نائٹرو دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے۔اچھے میاں نے میز پر رکھے ہوئے ماڈل کو کمرے میں واپس رکھا اور پروفیسر نائٹرو کو الوداع کہا مگر وہ کسی سوچ میں غرق نظر آرہے تھے۔پروفیسر نائٹرو جانتے تھے کہ ریاضی نے اچھے میاں کے دماغ میں ہلچل مچا دی ہے۔کل اچھے میاں ڈھیروں سوالوں کے ساتھ پوری تیاری سے آئیں گے۔اِس لیے پروفیسر صاحب بھی اُٹھے اور اپنی مطالعہ کی میز کی جانب بڑھ گئے۔
9225545354