پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں نہیں، بریکس اعلامیہ مسترد

1
0

لازوال ڈیسک

اسلام آباد؍؍پاکستان نے دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم بریکس کے مشترکہ اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں اور افغانستان میں حکومت کے زیرِ کنٹرول نہ رہنے والے علاقوں میں شدت پسند تنظیموں کی موجودگی خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔انڈیا، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور روس پر مشتمل تنظیم بریکس نے پیر کو پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا تھا۔منگل کو پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کر چکا ہے اور ان کی باقیات کے خلاف بھی کاروائی جاری ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں لیکن ‘ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقے پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔’انھوں نے کہا کہ ‘افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 60 فیصد پر افغان حکومت کا کنٹرول ہے جبکہ باقی پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے تو اس طرح تو 40 فیصد افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔’خیال رہے کہ بریکس نے اپنے اعلامیے میں خطے میں بدامنی اور طالبان، دولتِ اسلامیہ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی تھی۔بریکس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔خرم دستگیر نے کہا کہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقے پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔اس اعلامیے کے جواب میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو جنوبی ایشیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لاحق خطرات کے بارے میں شدید تشویش ہے۔دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ افغانستان سمیت اس خطے میں سرگرم کئی دہشت گرد گروہ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار جیسے اس کے ساتھی گروہ پاکستانی عوام کے خلاف پرتشدد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ایسے علاقوں میں جہاں حکومتی رٹ موجود نہیں، داعش، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ اور ازبکستان اسلامک موومنٹ جیسے گروہوں کی موجودگی پر بھی خدشات ہیں کیونکہ یہ گروہ خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں پاکستان میں سرگرم تحریکِ طالبان کا تو ذکر کیا لیکن ملک میں سرگرم ان دیگر شدت پسند تنظیموں بشمول لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے بارے میں ردعمل نہیں دیا جن کا نام بریکس اعلامیے میں لیا گیا تھا۔نفیس ذکریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں انتہا پسند نظریات اور عدم برداشت میں اضافے کے بارے میں بھی فکرمند ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اقلیتوں کو منظم انداز سے نشانہ بنانے کو بڑھاوا ملتا ہے۔

1 تعليق

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا