5اگست2019کی آئینی تبدیلیوں کوکھلے دِل سے قبولنے اوران پرجشن منانے والاجموں ہی تھاجس نے یہاں جشن کاسماں باندھاجبکہ370اور35اے کوختم کیاگیا،کیونکہ سیاسی قائدین نے ٹنل کے آرپار کی سیاست کھیلتے کھیلتے ایک ایساتاثرقائم کیاہواتھاکہ جموں تعمیروترقی کے معاملے میں نظراندازہے جبکہ ایک طبقہ یہی پلٹ الزام عائدکرتاتھاکہ کشمیرکیساتھ امتیازی سلوک برتاجارہاہے جبکہ حقیقی امتیازی سلوک کاشکار ذیلی خطے چاہے جتنی مرضی چیخ پکار کرتے اُن کی کہیں شنوائی نہ ہوتی اور جموں بمقابلہ کشمیرکی سیاست یوں ہی دہائیوں سے چلتی رہی، کسی نے کہادفعہ370ہماری شان ہے، ہمارے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے توکسی نے کہاتمام تربیماریوں کی جڑ یہی 370اور35اے ہے،اپنے اپنے اندازمیں ہرسیاسی جماعت نے اپنے نظریات کی تکمیل کی اوربلآخربھاجپانے مرکزمیں مکمل اقتدار میں آتے ہی موقع پایااور 370کاباب ہمیشہ کیلئے بندکرنے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی اس کیلئے اُسے جموں وکشمیرکودویونین ٹیریٹریزمیں تقسیم کرناپڑا،ایک شاہی ریاست کے دوچھوٹے چھوٹے یعنی یوٹی سطح کے ٹکڑے کئے گئے تاکہ سنبھالنے میں کوئی دقت نہ آئے اوریہاں کسی کوپنکھ مارنے کی مہلت وموقع بھی نہ ملے،4سال مکمل ہونے کے بعد اس آئینی تبدیلی نے زمین پربہت کچھ بدل دیاہے،تعمیروترقی کامعاملہ ہویا پھر امن وامان کاہرمحاذپرنمایاں تبدیلی دیکھنے کومل رہی ہے جس کے دعوے بھی ایل جی سنہا،بھاجپاکی یوٹی قیادت سے لیکر مرکزی وزرأ سے وزیراعظم تک سبھی کرتے ہیں اوراپنے اپنے اندازوالفاظ میں اس تبدیلی کاسہرااپنے اپنے سرباندھتے ہیں، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے،کشمیرمیں یقیناپتھرائو،ہڑتالیں،تشددکاخاتمہ ہوگیاہے،دہشت گردی کے اِکادُکاواقعات ہوتے ہیں لیکن جہاں بھی دراندازی کی کوشش ہوتی ہے چوکس سیکورٹی فوسز کی عقابی نگاہوں سے وہ بچ نہیں پاتے اور گھیرے میں آتے ہیں ،مارے جاتے ہیں،کشمیرمیں سیاحت عروج پر ہے جوجموںوکشمیرکے اقتصادیات کی ریڑھ ہی ہڈی کی مانند ہے۔ ہرخبرخوشنماہے، ہرمنظردلکش ہے لیکن جموںجس نے آئینی تبدیلیوں کو نہ صرف گلے لگایابلکہ ان تبدیلیوں کیلئے برسوں انتظار کیااوران تبدیلیوں کولانے کے وعدے کیساتھ ان کے پاس ووٹ مانگنے آنے والی جماعت کو اقتدار تگک پہنچایاجو ناقابل یقین سمجھاجاتاتھا۔ لیکن کل جب دفعہ370اور35اے کے خاتمے کے چاربرس مکمل ہوئے توجموں دردمیں تھا، مرکزکے برسراقتدارجماعت بھاجپانے بلاشبہ ان تبدیلیوں کی برسی کے جشن منائے جواُن کا فرضِ اولین تھالیکن جموں میں دیگرجماعتوں نے اپناااحتجاج درج کرتے ہوئے اپنے اپنے دردبیان کئے،نہ صرف سیاسی جماعتوں نے اپنے گلے شکوے سانجھاکئے بلکہ جموں میں تاجروں کی سب سے بڑی انجمن چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹریز نے بھی اس موقع پرکسی جشن کے بجائے ایک پریس کانفرنس کاانعقادکیااورجموں میں عام لوگوں ،تاجروں کو درپیش مسائل اُجاگر کئے، ان میں مرکزیت سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے تنازعے کوحاصل رہی جس کیخلاف جموں میں مسلسل احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ان میٹروں کی تنصیب کی مخالفت کی ہے۔جموں آج یہ سوچنے پرمجبورہے کہ کیاوہ370کے وقت میں بااختیارتھایاآج بااختیاروخوشحال ہے کیونکہ اس کے مسائل ویسے ہی نہیں بلکہ بڑھ گئے ہیں، یہاں روزگارکے مواقع دوسری ریاستوں سے آنے والے ہنرمندوغیرہنرمندلوگ ہتھیارہے ہیں،یہاں زمینوں کی خریدوفروخت کاسلسلہ بھی تیزہے ،ہرطرح سے اہلیانِ جموں کی شناخت،مستقبل سب کچھ دائوپرلگادکھائی دیتاہے جس پرحکومت اورجموں کی سیاسی قیادت کو سوچناہوگا۔