حسن رضا
” 2024کے پارلیمانی انتخاب کا اعلان ہوچکا ہے۔ اب انتخابی دنگل جمہوری ہنگامے، اور ہجومی تماشے روز بروز تیز تر، شور انگیز اور ہنگامہ خیز ہوتے جائیں گے۔ جن میں پہلی اور دوسر ی پولنگ کا دن یعنی 19اپریل اور 26اپریل جمعہ کا دن ہے۔ 13اور 20اپریل اتوار ہے اسی طرح 25مئی اور ایک جون سنچر البتہ 7مئی منگل ہے۔ اس طرح یہ انتخابی فیسٹیول 7 قسطوں میں مکمل ہوجایے گا۔ اور 4 جون کو نتایج سامنے آجائیں گے۔
کون پارٹی جیتے گی اور کون لیڈر ہاریں گے۔ کون امیدوار کہاں بڑھے گا اور کون کہاں شکست کھائے گا۔ نتایج آنے تک ساری گرما گرم بحثیں ، اندیشے اندازے سامنے آتے رہیں گے۔ اس الکشنی تہوار میں طرح طرح کے کھیل اور تماشے بھی حسب دستور جاری رہیں گے۔ سیاسی کھیل کرنے والے اپنے کھلونے بیچنے ، ناچنے گانے پکوڑے بیچنے والے طرح طرح کے پکوان کے ساتھ اپنی سیاسی دوکان سجاییں گے اور ان کے ساتھ تماشہ بیں حضرات پاکٹ مار لوگ ، مختلف زبان کے ادیب وشاعر، اور بھوشن وانی وقسمت بتانے والے پنڈت مولوی دھارمک ادھارمک لوگ، بیوقوف بنانے والے ، ہنسانے رولانے والے، سب اپنا اپنا سیاسی کرتب دکھا کر جمہوری تہوار کی رونق بڑھائیں گے۔ اسی طرح آنیوالے ڈھائی مہینے انہی تماشوں کی نذر ہوجاییں گے۔
اس کے بعد جیتنے کی رنگ رلیاں منائی جاییں گی اور کچھ لیڈروں کے حصے میں شکست و نامرادی کا ماتم و مرثیہ ہوگا۔ یقین کے ساتھ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کون ہندوستان کے تخت پر آیندہ پانچ برسوں کے لئے براجمان ہوگا اور کس کے لئے اپوزیشن کی کانٹوں بھری کرسی آئیگی۔ البتہ گمان غالب یہی ہے کہ "اچھے دن” ابھی اور رہیں گے۔ ویسے اللہ بہتر جانتا ہے ماحول ابھی پوری طرح گرمایا نہیں ہے۔ فیصلہ تو آسمان ہی پر ہوگا۔
بہرحال جیسے دن بھی آئیں اور "اچھے لوگ” جتنی تعداد میں بھی آییں۔ ہم سب کو ہندوستان کی انسان دوست آبادی کے ساتھ مل کر اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ الیکشنی فتح وشکست ،الٹے سیدھے سیاسی داؤ پیچ اور پارٹیوں کی وفاداریوں اور بیوفائیوں کے تمغے و طعنے سے بے پروا ہوکر یا کسی کے نعرے اور مکر وفریب کے چکر میں پڑنے کے بجایے سیدھے سادے سچے مسلمان اور بھلے ہندوستانی شہری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ اس کام میں اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا چاہئے۔ سارے فیصلے گراس روٹ لیول پر عام آبادی کے ساتھ مل کر کرناعوامی رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔ ہم مقامی آبادی سے نہ کنارہ کش ہوں نہ بہت پرجوش ہوں ایک مشہور کہاوت ہے کہ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ ویسے بھی نہ بن جائیں۔ تاریخ نے جو کروٹ لی ہے اس کو سمجھنا چاہئے۔ ہم اس پوزیشن میں اب نہیں ہیں کہ اس الیکشن میں بڑا فیصلہ کن رول ادا کرسکیں۔ لھذا جوش تقریر میں آکر بلند بانگ دعوے بھی نہ کریں۔ جچی تلی زبان اور ہوش گوش کے سیاسی بیانیہ پر قناعت کریں البتہ اچھے برادران وطن کی کمی نہیں ہے ان کے ساتھ مل کر ایک اچھا تعمیری اور مثبت رول ادا کرسکتے ہیں وہ ہمیں ضرور ادا کرنا چاہئے۔
دوسرا بڑا رول جو اہم ادا کرسکتے ہیں وہ ہے روحانی واخلاقی محاذپر چنانچہ اس انتخابی سیاست، دستوری جمہوریت، ملک کی مشترکہ قومیت ،اور ہندوستان کی مخلوط وطنیت کی جو معروف اخلاقیات ہے اور اجتماعی زندگی میں اجتماعی تقوی کی جو برکات ہیں ان کے علمبردار بن جائیں اور یہ سیاسی خدمت ہمیں ضرور انجام دینا چاہئے۔ کسی پارٹی کو ہرانے اور جتانے کا ایجنڈا 15% آبادی کا علی الاعلان خم ٹھوکر سیاسی ایجنڈا نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہونا چاہئے۔ جب کہ وہ خود تقسیم در تقسیم ہو اور اس گروہ کے اندر متحدہ مجلس مشاورت کو قایم کرنے اور چلانے کی اجتماعی اخلاقی قوت نہ ہو۔ اس وقت ہمارے اندر بنیان مرصوص تو کیا دیوار یتیم بنے رہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ مسلک، مشرب برادری کون سی درار ہے جو اس ملت میں نہیں ہے۔بہرحال اس وقت مسدس حالی پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ بس اب وقت کم ہے اور میدان عمل سامنے ہے ایک اجتماعی روئیے کو گراس روٹ سطح پر رو بعمل لانے کے لئے ہمیں کمر کس لینا چاہیے۔ اس طرح پارلیمانی انتخاب میں سیاسی فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ اخلاقی محاذ کو بھی ہم خاص طور سے سنبھال لیں تو بہت بڑا کام ہوجائے گا۔
2024 کے اس الیکشن میں ہم اجتماعی اور شعوری طورپر ایک ذمہ داری کے ساتھ گواہی دیں کہ ہمارا ووٹ خریدا نہیں جاسکتا۔ ہم الکشن میں قوم کے نام پر بیوپار نہیں کرتے۔ ڈر خوف نفرت ہنگامہ، بوتھ پر قبضہ، بوگس ووٹنگ، جھوٹے وعدے، قومی کشمکش، امیدواروں کے بارے میں قومی عصبیت، اور سیاسی حماقت کے شکار نہیں ہوتے۔ جہاں پر مسلم آبادی اکثریت میں ہے وہاں پر ہمارے نوجوان ہجومیت نہیں کرتے۔ اسلام اور مسلمان کی اجتماعی اخلاقیات اور سیاسیات کیسی ہوتی ہے اس کی شہادت اس موقع پرہم مسلمان آبادی کے لوگ نمایاں طور پر دیں۔ اختلاف کے باوجود انسانیت کا احترام۔ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک قرانی تعلیمات میں نمایاں ہے۔ اس کو برت کر دیکھاییں فرقہ پرستی اور کسی خاص گروہ انسانی گروہ کے لئے بیجا عصبیت اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے یہ لوگ کو ہم سمجھا سکیں تو عمل کرکے دیکھادیں اور عملاً سمجھا دیں۔ اس موقع پر ہم کوشش کریں کہ مسلم آبادیوں میں اخلاقی پولوشن نہ ہو۔ ان کے نوجوان، جوش میں ہوش نہیں کھوئیں۔ سب کے مذہبی جذبات کے احترام کی فضا اپنے حلقے میں بھی بناییں دنیا دیکھے کہ اس کے سیاسی لیڈران تفریق نہیں وحدت انسانیت کے ایجنڈے پہ کام کرتے ہیں۔مسلم آبادیوں کی سیاست امن و عدل و مساوات اور شرافت کی سیاست ہے۔ اللہ کا شکر ہے الیکشنی ہنگامے کے ابتدایی تین ہفتے رمضان المبارک کے ہوں گے۔ یہ مہینہ اجتماعی تقوی ،صبر، مواسات ،اور رحمت وبرکت کا مہینہ ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی روحانی و اخلاقی قوت کا اثر اگر حالیہ انتخابی سیاست پر ظاہر ہوجائے تو پھر تو اس ملک میں ایک نیا باب شروع ہوجائے گا۔ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے پیشہ ور سیاست دان اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈران کے نزدیک ذاتی امنگ اور پارٹی کا مفاد ملت اور مذہب سے زیادہ عزیز ہے۔ بات تلخ ہے معذرت کے ساتھ لیکن حقیقت ہے۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ الکشنی حمام میں سب ننگے ہوجائے ہیں۔الا ماشاء اللہ
بہرحال 2024 کے انتخابی سیاست پر اثرانداز ہونے کی یہی دو اہم راہیں ہیں ایک اخلاقی محاذ پر اپنے عمل وکردار سے امن مساوات وانصاف کی گواہی دیں دوسرا قومی کشمکش سے بلند ہوکر انصاف پسند برداران وطن کے ساتھ مل کر ملک کے لئے جمہوریت امن اور انصاف پسند لوگوں کی حکومت کے قیام کرنے کی پر حکمت کوشش کریں۔ اس انتخاب میں زبان وبیان میں کویی ڈر خوف بے جا جوش اور سیاسی رومانیت نہ ہو۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
والسلام
سرپرست، یو ایم ایف جھارکھنڈ