جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا میری ترجیح ہے: انجینئر رشید
یواین آئی
سری نگر؍؍عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور رکن پارلیمان انجینئر شیخ عبدالرشید نے ان سیاسی جماعتوں اور آزاد امید واروں جو منگل کے روز کامیاب ہوں گے، کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ تب تک حکومت نہ بنائیں جب تک نہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کو بحال کرے گی۔انہوں نے کہا:’ ’عوامی اتحاد پارٹی مکمل سپورٹ فراہم کرے گی اگر اس تجویز پر سب متحد ہوں گے‘‘۔
http://www.uniurdu.com/
موصوف رکن پارلیمان نے ان باتوں کا اظہار پیر کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہا: ’’میرے ان تمام سیاسی جماعتوں اور آزاد امید واروں جو کل کامیاب ہوں گے، سے ایک تجویز ہے کہ وہ تب تک حکومت نہ بنائیں جب تک نہ مرکزی حکومت ریاستی درجے کو بحال کرے گی‘‘۔ان کا کہنا تھا: ’’اگر تمام اس تجویز کے ساتھ اتفاق کریں گے تو عوامی اتحاد پارٹی اپنا بھر پور سپورٹ فراہم کرے گی‘‘۔ انجینئررشید نے کہا کہ قدیم دربار مو کی روایت کو بحال کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا: ’’انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ دربار مو کی روایت ختم کرکے انہوں نے خزانہ عامرہ کو ایک بھاری بوجھ سے بچایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدم سے دونوں علاقوں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس روایت کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہئے۔رکن پارلیمان نے کہا: ’’میں کھ روز قبل دہلی میں تھا جہاں میں نے دیکھا کہ جموں و کشمیر ہائوس کو لداخ کے لوگوں کے لئے مخصوص رکھا گیا ہے، کیا یہ انصاف ہے، جموں وکشمیر کی آبادی دو کروڑ ہے جبکہ لداخ کی آبادی زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ لاکھ ہے‘‘۔انہوں نے کہا: ’’اگر جموں وکشمیر کے لوگوں کو علاج، نوکری یا کسی دوسرے کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑے گا تو وہ کہاں جائیں گے‘‘۔بی جے پی کے ممکنہ اکثریت حاصل کرنے کے متعلق پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: حکومت سازی میری ترجیح نہیں ہے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا میری ترجیح ہے‘‘۔
ایل جی کو پانچ سیٹوں کی نامزدگی کا اختیار ہونے کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’اپنی مرضی سے اراکین نامزد کرنے سے جموں و کشمیر انتظامیہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک ودھان، ایک نشان، ایک پردھان کے آئیڈیا کو چلینج کر رہی ہے‘‘۔انجینئر رشید نے کہا: ’’دلی کے لوگ جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے کیسے اراکین نامزد کر سکتے ہیں جب نتائج ابھی سامنے نہیں آئے ہیں‘‘۔