جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں آج کی تاریخ میں ٹریفک پولیس نے ٹریفک نظام کو کافی سدھارا ہے ،اور عام لوگوںسے بھاری رقم میں چالان کاٹے جا رہے ہیں اور لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ ٹریفک نظام میں کافی بدلاوآچکا ہے لیکن اصل میں کیا ہو رہا ہے اس بارے میں جاننا ضروری ہے چونکہ ایک عام انسان کو چالان کے نام پہ لوٹا جا رہا ہے ابھی تک بہت سے قصے ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ ٹریفک پولیس نے چالان کی دھمکی دے کر لوگوں سے رشوت وصول کی ہے اور اگر کوئی رشوت نہ دے تو اسے بھاری رقم میں چالان کاٹا جاتا ہے۔نہ جانے اس ر شوت خوری کی وجہ سے ابھی تک کتنے معصوم لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔آئے دن ہم یہ خبریں سنتے ہیں کہ آوور لوڈنگ کی وجہ سے گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی اور اس میں کافی تعداد میں لوگ مارے گئے تو اس کاذمہ دار کون ہے؟ کچھ ایسے ہی ٹریفک پولیس والے ہونگے جو رشوت لے کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ معصوم لوگوں کو اپنی جان دے کر اسکی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جسے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ چالان نہیں بلکہ چالان کے نام پر پیسہ کمانے کا ایک زریعہ ہے جسے رشوت کہتے ہیں۔اسے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کہ ٹریفک پولیس چالان کے نام پر عام لوگوں کو لوٹ رہی ہے۔اگر عام لوگوں کی بات کی جائے تو ایسے کتنے ہی قصے دن میں سامنے آتے ہیںایسا ہی ایک واقعہ آج بھی سامنے آیا جب کچھ صحافی حضرات نے ٹریفک کے ایک اہلکار کو رنگے ہاتھوں رشوت لے کے پکڑا ہے جبکہ صحافی لوگوں نے اْ ڑیسہ کے ایک ٹرک ڈرائیور سے بات کی تو اس نے کہا کہ سرینگر سے جموں تک ٹریفک والوں نے مجھ سے پانچ ہزار روپیئے وصول کیا۔انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ پیسے وصولنے کے باوجود بھی میرا چالان کاٹا گیا حالانکہ میرے پاس گاڑی کے تمام کاغذات بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ لکھن پور سے لے کر کشمیر تک ہمیں طرح طرح کی دھمکیا دے کر ہم سے پیسہ وصول کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ اگر گاڑی کسی جگہ پر رکی ہو تو تب بھی ہمیں چالان کٹوانا پڑتا ہے تا ہم چلتی ہوئی گاڑیوں کو بھی بخشا نہیں جاتا ہے ان کو بھی روک کر چالان کاٹے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑی برہمنا ناکے پر بھی ایک ٹریک ڈرائیور سے پانچ سو روپیئے وصول کئے گئے ٹرک ڈرائیو ر کا کہنا ہے میرے پاس صرف اتنے ہی پیسے بچے تھے اب میرے پاس کھانا کھانے کے لئے بھی پیسہ نہیں بچا ہے۔جب ان صحافیوں نے ٹریفک پولیس سے بات کی اور اس ڈرائیور کو پیسے واپس دلانا چاہے ، تو انہوں نے طرح طرح کے بہانے بنانا شروع کئے۔اور آخر کار وہ اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس دوران کافی تعداد میں ٹرک ڈرائیور وہاں پر اکھٹے ہوئے اور انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ہمارا تو ہر روز کا یہی رونا دھونا ہے اور ہماری بات کوئی نہیں سنتا ہر روز ہمیںچالان کی دھمکی دے کر ہماری جیبیں کھالی کی جاتی ہیں۔جب سے ٹریفک کی نئی ایڈوائزی لاگوں کی گئی ہے تب سے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں بارے نیارے شروع ہو گئے اس ایڈوائزی سے گورنمنٹ کے کھاتے میں کم اور ٹریفک اہلکاروں کی جیبوںمیںزیادہ جمع ہو جاتا ہے اور اس طرح سے ٹریفک پولیس قانون کی نظروں میں خود کو آچھا ثابت کرکے اپنی جیبیں بھر رہی ہے اور عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے ،ریاست جموں و کشمیر کے اکثر حصوں میں جہاں جہاں بھی ٹریفک پولیس تعینات ہے وہاں یہی دھندے چل رہے ہیں اور عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔نروال چوک جموں کی بات کریں تو چلتی ہوئی گاڑیوں کو روک کر انہیں چالان کی دھمکی دی جاتی ہے اور بیچارے ڈرائیور لوگ مجبور ہو کر انہیں نقدی دے جاتے ہیں، آخر ان چیزوں کو سدھارے گا کون ؟ایسی پولیس کے خلاف آواز اْٹھانے والاکوئی نہیں چونکہ اگر کسی نے آواز اْٹھانے کی کوشش کی تو اسے دبوچ لیا جائے گا چونکہ ہماری ریاست میں کسی مظلوم کی آواز نہیں سنی جاتی۔اگر یہ لوگ ٹریفک نظام کو سدھارانا چاہتے تو عوام کو دھمکی دے کر ان سے رشوت نہیں لیتے بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ٹریفک نظام کو سدھارتے ، آج کی تاریخ میں ٹریفک پولیس جس طرح سے کام کر رہی ہے اسے ٹریفک نظام سدھرنے کے بجائے بگڑتا جا رہا ہے اور معصوم لوگ اپنی قیمتی جانیں گوا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈرائیوروں کو دھمکی دے کر لوٹا جا رہا ہے۔پہلے بھی یہاں پر لوگ گاڑیا چلاتے تھے ڈی۔جی۔پی ٹریفک پولیس بسنت رتھ کے وقت میں بھی یہاں کا ٹریفک نظام کافی سدھرا ہوا تھا لیکن اس طرح سے چالان کے نام پہ پیسہ نہیں وصولا جا رہا تھا اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ انہیں یہاں سے کیوں تبدیل کیا گیا چونکہ وہ رشوت خوری کے خلاف تھے اور انہیں ایسے آفیسران کے ساتھ نفرت تھی اگر انہوں نے بھی اس طرح سے ٹریفک نظام کو سدھارا ہوتا جس طرح آج کی ٹریفک پولیس رشوت لے رہی ہے تو شائید وہ آج بھی یہیں ہوتے۔لہذا عوام کو چاہیے کہ وہ خود بھی قانون کے ضابطے میں رہ کرگاڑیاں چلائیں اور اسکے باوجود بھی اگر انہیں کوئی پریشان کرتا ہے تو وہ کرائم برانچ سے شکائت درج کریں تاکہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے،جو چالان کی دھمکی دے کر لوگوں سے پیسہ وصول کر رہے ہیں تاکہ عام انسان اس نقصان سے بچ سکیں۔اورلیفٹینٹ گورنر سے بھی یہ اپیل کی جاتی ہے کہ ایسے معاملات پر خوصوصی توجہ دیں۔