وہاب اشرفی ایک منفرد نقاد

0
0

۰۰۰


ڈاکٹر مشاق عالم قادری
(شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی)
9910308146
۰۰۰

 

 

  • تنقید کا لبادہ آج ہر کس و ناکس نے اوڑھ رکھا ہے اور نمبر خود تنقید نگار وں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ تنقید ادب کی دیگر اصناف میں مشکل ترین صنف ہے اور ناقد کا منصب بہت بلند ہے منصب کو وہاب اشرفی اس طرح واضح کرتے ہیں ’’ ادیب و فنکار جس حقیقت کا اظہار کرتا ہے نقاد اسی حق اور سچائی کی تشریح و توضیح نیز محاکمے کے مشکل کام کو انجام دینے کی سعی کرتا ہے گویا تنقید نگار تین الگ الگ فرائض کی تکمیل کرتا ہے ، اس حقیقت کی تشریح کرتاہے جس کا اظہار ہوا ہے اس اظہار کی توضیح کرتا ہے ، پھر محاکمہ کرتا ہے ۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تخلیق سے بڑا کام ہے ۔  تنقید کا لبادہ آج ہر کس و ناکس نے اوڑھ رکھا ہے اور نمبر خود تنقید نگار وں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ تنقید ادب کی دیگر اصناف میں مشکل ترین صنف ہے اور ناقد کا منصب بہت بلند ہے منصب کو وہاب اشرفی اس طرح واضح کرتے ہیں ’’ ادیب و فنکار جس حقیقت کا اظہار کرتا ہے نقاد اسی حق اور سچائی کی تشریح و توضیح نیز محاکمے کے مشکل کام کو انجام دینے کی سعی کرتا ہے گویا تنقید نگار تین الگ الگ فرائض کی تکمیل کرتا ہے ، اس حقیقت کی تشریح کرتاہے جس کا اظہار ہوا ہے اس اظہار کی توضیح کرتا ہے ، پھر محاکمہ کرتا ہے ۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تخلیق سے بڑا کام ہے ۔  ایک صدی پر محیط جدید اردو تنقید نگاری میں مولانا حالی ، مولانا شبلی نعمانی ، مولوی عبدالحق اور مولوی عبدالرحمٰن دہلوی کے نام اولین نقادوں میں ہیں ۔ اس کے بعد آل احمد سرور ، محمد حسن عسکری ، کلیم الدین احمد اور پروفیسر احتشام حسین جیسی شخصیات ہیں جنہوں نے مشرقی شعریات کے قدرے کم اور مغربی اصول و ضوابط کو زیادہ استعمال کیا ہے ۔ ان سر بر آوردہ نقادوں کے بعد جس نسل نے نقد و فکر کی حدوں میں وسعت پیدا کی ان میں بلا شبہ گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی ، وزیر آغا ، وارث علوی وغیرہ کی تنقیدی کاوشوں کا عمل دخل ہے مگر یہ فہرست اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک کہ وہاب اشرفی ، شمیم حنفی اور حامدی کاشمیری وغیرہ کے نام شامل نہ کیے جائیں۔ وہاب اشرفی جس تنقید نگار کا نام ہے ان کا ایک خصوصیت و امتیاز یہ ہے کہ وہ مغرب سے استفادہ کرتے ہوئے بھی مشرقی روایات اور اردو زبان و ادب کے مزاج کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور شعور آفاقیت کے لحاظ سے رو گردانی بھی نہیں کرتے ۔ جیسا کہ لکھتے ہیں ۔ ’’ میں ادب میں آفاقیت کا قائل ہوں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے بہترین ادب کا وسیع مطالعہ ہی کسی نقاد کی نگارشات کو وقیع بنا سکتا ہے ورنہ مقامی روایات کی زنجیر میں جکڑا ہوا پسماندہ ادب اسے ہمیشہ عظیم نظر آئے گا ۔ اور پھر اس کی رائے اور تجزئیے کے نتیجے میں جوادب پیدا ہو گا وہ بھی یقیناََ گھٹیا اور بے وزن ہو گا اسی صورت میں مغربی شعر و ادب اور تنقید کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنا کتنا ضروری ہے ‘‘تنقید نگاری کے حوالے سے وہاب کی فہمی کوشش کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک ادب محض میکانکی عمل نہیں بلکہ اس کی سطح سے بلند ہو کر ان منزلوں سے بھی گذرنا ہے جو کسی فن پارے کی تحریک کے لیے راہیں ہموار کرتی ہیں اس لیے وہ فکر و خیال اور  content سے زیادہ ظاہری ہیت ، خدو خال اور اپیل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ اپنے ادبی نقطہ نظر کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں ۔ ’’ میں ادب کو پروپیگنڈہ نہیں سمجھتا نہ ہی اسے کسی سیاسی منشور کا ترجمان مانتا ہوں نہ ہی یہ جنسات کا پشتارہ ہے ادب کی ایک منطق ہے اور وہ یہ ہے کہ جمالیات کا کوئی موضو ع اپنے آپ میں وقیع نہیں فن کار کا احساس جمال اسے وقیع بنا دیتا ہے اسی لئے میری نگاہ میں کسی ادب پارے میں کیا کہا گیا ہے ‘‘ اتنا اہم نہیں جتنا ’’ کیسے کہا گیا ہے ‘‘ اہم ہے ‘‘  (دیباچہ معنی کی تلاش ) وہاب اشرفی کی تنقیدی تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترقی پسندی کی لاکھ خوبیوں کے باوجود ان کی تشہیری نظریات کو گلے کا ہار بنانے کے قائل نہیں بلکہ پوری ذہنی آزادی اور فکری قوت کو ادب میں برتنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اسی کی دین ہے کہ سنہ ۶۰ ء کے بعد جب اردو ادب میں جدید یت کا زور ہوا اور اردو کے قد آور ادیب و نقاد اس سے متاثر ہو کر اسی رد میں بہنے لگے اس وقت بھی وہ اپنی فکری روش سے بھٹکے نہیں اس طرح بیسویں صدی کے اواخرمیں ما بعد جدیدیت کی خوبیوں نے بھی انہیں متاثر کیا گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاب اشرفی ایک وسیع مطالعہ اور وسیع النظر نقاد کا نام ہے جو عالمی سطح پر ترقی یافتہ زبانوں کے تنقیدی رحجانات کے علم سے اپنے آپ کو آراستہ و مزین کرتے رہتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو کسی تحریک و نظرئیے کی قید میں بندھنے کی پر زور تردید کرتے رہتے ہیں ماہنامہ ایوان اردو دہلی ( شمارہ فروری ۲۰۰۸ء) کے لیے ایک انٹر ویو میں مذکورہ باتوں کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں سوال تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ اردو ادب میں کلاسیکی ، ترقی پسندیء ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تحریکات ، رحجانات اور تھیوریز سے گذرتے وقت متاثر نظر آتے ہیں ۔ اس طرح اپنی تنقید میں کسی سمتوں کے ناقدانہ سفر کے بعد آج آپ اپنے آپ کو کس تنقیدی قافلے کا سپہ سالار تصور کرتے ہیں ؟جواب میں فرماتے ہیں ۔  ’’ ادب ایک بہتا ہوا پانی ہے یعنی آپ یہیں پررک کر یہ سمجھ لیں یہی ساری کا ئنات ہے تو یہ درست نہیں اس لیے اس لیے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو ادبی نظرئیے آئے میں نے ان کا مطالعہ ضرور کیا ہے اور ان کی تحریروں میں کوئی نہ کوئی بات ضروری تھی ۔ جب ترقی پسندی ایک جامد قسم کا تصور ہو گیا تھا تو جدیدیت نے یہ بتایا کہ صاحب ہمارا اندرون بھی کوئی چیز ہئے نفی بھی ایک چیز ہے جو روزی اور روٹی کا مسلہ نہیں ہے اس طرح ادب ہمیشہ آگے کی طرف سوچتا ہے۔ ‘‘  پروفیسر وہاب اشرفی تخلیق کے انفرادی وجود کو تسلیم کرتے ہیں ان کے نزدیک تخلیق کی اپنی مخصوص فضا ہے وہ ہر فن پارے میں ایک خاص عنصر کی تلاش کرتے ہیں اور ان نکات پرعمل کرتے ہیں جو اس خاص عنصر کی دریافت میں معاون ہوں اور معنوی تہہ داری کے ساتھ اسلوب و ہیت کا مطالعہ بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ وہاب صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :  ’’ کسی بھی شاعر یا فنکار یا دوسرے شاعر کی اہمیت واضح کرنے سے پہلے نقاد پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ واضح کرے کہ اس کے پاس پرکھ کے معیار کیا کچھ ہیں ؟ تنقیدی کسوٹی کیا ہے ؟ استدلال کن بنیادوں پر قائم ہے ؟ وغیرہ ہ وغیرہ ۔ یہ ایسے امور ہیں جن سے کسی فن پارے کی بنت میں اترنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے ورنہ رائے محض تو کوئی بھی قائم کر سکتا ہے اس میں تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی کیا ضرورت ہے ہویا سب سے پہلے نقاد کو خود اپنی تنقید کی بوطیقہ سے واقف ہونا چاہئے پھر اسے اس کے نکات کی عمل صورت اجاگر کرنے پر قدرت بھی ، تب ہی تنقیدی وقار حاصل ہو سکے گا ۔ تنقید رائے زنی نہیں ہے نکتہ رسی اور نکتہ شناسی ہے اور یہ مشکل کام ہے اس لیے کہ اس کے مطالبات بہت کچھ ہیں ۔‘‘  اشرفی صاحب نے اردو زبان کی شعری و نثری تخلیقات کا مطالعہ زمانی قیود سے آزاد ہو کر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی دسترس دور قدیم اور دور حاضر کی تمام ادبی تخلیقات تک ہے اور قدیم و جدید کی ہم آمیزی سے ایک مجموعی تاثر پیش کیا ہے انہوں نے نظم و نثر دونوں ہی اصناف کے تخلیقی سرمائے کو کھنگالا یہ الگ بات ہے کہ ان کی تنقید نے اردو نثر کو زیادہ مستفیض کیا ہے اور اس کی وجہ شایدیہ ہو سکتی ہے کہ ایک زمانہ تک وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل رہے اور جب افسانہ نگاروں کی صف میں ایک معتبر جگہ بن رہی تھی تو اس سے مڑ کر تحقیق و تنقید کی طرف مائل ہو گئے ظاہر ہے اس پرانی دلچسپی کا تقاضہ تھا کہ ان کا تنقیدی میلان نثری ادب کی طرف زیادہ ہوا ۔لیکن شاعری کے حوالے سے بھی انہوں نے جو نظریات و تصورات واضح کئے ہیں ان کی قدر و منزلت اور اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ان کے تنقیدی مقالات ہیں کہیں اقبال فہمی کے پہلو پر نکتہ رسی ہے تو کہیں جمیل مظہری کے تخلیقی رویے کا تفصیلی مطالعہ ، کہیں نثری نظم کے جواز پر عالمانہ بحث ہے تو کہیں غالب کو مومن گوئی کی غزل گھوئی کے نئے پہلوئوں سے آشنائی بخشی گئی ہے ان کے علاوہ شاعری کے قدیم و جدید شعراء کے فکر و اسلوب پر سیر حاصل بحثیں بھی ملتی ہیں ۔ اشرفی صاحب شاعری کے اس تخلیقی روئیے سے سروکار رکھتے ہیں جہاں غزل میں تغزل ، نظم میں موضوع اور تسلسل مضمون سے ہٹ کر کوئی فنکار عام مروجہ الفاظ کو نئی ترتیب و ترکیب بخش دیتا ہے اور کلام میں اپنے احساسات کو اسطرح دیر فہم معنوی تہہ داری عطا کر دیتا ہے کہ نیم گفتنی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے جس سے تخلیق کار کی شخصی انفرادیت کا اظہار اور تخلیقی امتیاز کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ جمیل مظہری کے کلام پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔  ’’ مجھے اس کی فکر نہیں کہ جمیل مظہری کی غزلوں میں تغزل کی کیا کیفیت ہے یا اس کی نظموں میں کونسا مظام زندگی منظوم ہوا ہے ۔ مجھے اس کی تلاش  نہیں کہ ان کے خیالات کتنے ارفع واعلیٰ ہیں ۔ مجھے اس کی بھی غرض نہیں مستحسن قدریں کس حد تک ان کی شاعری کا حصہ بنی ہیں یا زندگی کے کیسے کیسے اقدار و معیار کی فکر رسا کا ساتھ دے سکے ہیں ۔ مجھے ان کے تخلیقی رویہ سے بحث ہے الفاظ کے برتائو سے غرض ان کے استعارے کے نظام و پیکر تراشی کے طریقہ کار کی تفہیم مقصود ہے ور ان امور کے پس منظر میں ان کے حساس دل کی کیفیت کو سمجھنا ہے۔‘‘  ( معنی کی تلاش ) شاعری کی روح میں اترنے والا یہی حوصلہ اور رویہ ہے جو پروفیسر وہاب کی نقد سخن اپنے معاصرین میں ہو جاتی ہے وہ سب کو جاننے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مانتے کسی کی نہیں اور تنقید کے عمل میں ایک محض ایک بندھے اصول پر کار بند نہیں رہتے اور کسی رحجان اور نظریہ سے دوسرے رحجان یا تصور کی طرف بغیر تاخیر کے مڑ جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں پروفیسر قمر رئیس صاحب کے مضمون ’’ وہاب اشرفی کی تلاش میں ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔ ’’ ادبی نظروں کے کاروبار میں ان کے سروکار معاصرین سے زیادہ معروضی اور غیر جذباتی نظر آتے ہیں یعنی وہ کسی ادبی نظریہ کو اس کے مطالعہ اور تعبیر کے باوجود شخص اعتقاد convictionکا حصہ نہیں بناتے اس سلسلہ میں وہاب کا رویہ کچھ ایسا ہے ’’ سب کو جانو کچھ کو پہچانو ، کسی کو نہ مانو ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ایک رحجان یا نظریہ سے دوسرے رحجان یا تصور کی سمت قدم بڑھانے میں انہیں کبھی پس و پیش نہیں ہوتا اس میں وہ کسی عبوری وقفہ کے قائل بھی نہیں بس تھوڑا سا دم لے کی طرح پچھلا ٹھا ٹھ چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں اور ان کے معاصر یا ہم چشم دیکھتے رہ جاتے ہیں ‘‘  خلاصہ کالم یہ ہے کہ وہاب اشرفی بہار سے کلیم الدین احمد کے بعد شاہد پہلے تنقید نگار ہیں جو اردو ادب کے عصر حاضر کے نقادوں کی صف اول میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ نہ ان کی تنقید میں کسی خاص نظرئیے کی سختی ہے نہ جاگیردارانہ اسلوب ، استدلال ، ان کے تنقیدی ذہن کی تربیت سازی میں جہاں مغربی علوم و فنون کا دخل ہے وہیں مقامی تہذیب و تمدن کی جھلک بھی ، افہام و تفہیم کی فضا بھی ہے اور انسانی و اخلاقی اقدار کا نور بھی اور سب سے بڑھ کر عالمی ادب کا تصور بھی ۔  اپنی بات قمر رئیس صاحب کے مذکورہ مضمون کے اس اقتباس پر ختم کرناچاہوں گا ۔ ’’ وہاب کی شخصیت کا ایک خاص پہلو جس نے مجھے متاثر کیا یہ ہے وہ ہر طرح کے رواجی توہمات اور ظلمت پسندانہ زولیدہ خیالی سے اپنی ذات کو پاک رکھتے ہیں ۔ دوسرے معنوں میں وہ ایک تعصل پسند جدید انسان ہیں ایسی مصفا اور بالیدہ سیرت مجھے ادیبوں میں کم دکھائی دی ۔‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا