وقف پر ادھو ٹھاکرے کے مثبت بیان کا مسلمانوں نےخیر مقدم کیا،تحریک اوقاف کا جے پی سی اراکین سے ملاقات کا فیصلہ

0
0

ممبئی،18اگست(یواین آئی) مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل ایک اہم سیاسی پیش رفت میں، مسلمانوں نے وقف (ترمیمی) بل پر سابق وزیر اعلیٰ اور شیوسینا (یو بی ٹی) کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کے مثبت بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور اُن کے بیان کی حمایت کی ہے،جبکہ اس سلسلہ میں تحریک اوقاف نے مطالبہ کیاہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اس معاملے میں اپنے موقف کا اظہار کریں۔گزشتہ شب جنوبی ممبئی کے مرین لائنس علاقہ میں واقع اسلام جمخانہ میں تنظیم کے ذریعہ ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔
مذکورہ اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیاہے کہ مسلم رہنماؤں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور ذمہ داروں کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی ( جے پی سی) سے ملاقات کرکے وقف بل کے تعلق سے اپنے اعتراض پیش کرنے چاہئیے۔
واضح رہے کہ حزب اختلاف اور این ڈی اے کی چند پارٹیوں کے اعتراض پر وقف بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی( جے پے سی) کوسونپ دیا گیا ہے ،تحریک اوقاف کی میٹنگ نے محسوس کیا کہ اگر وقف بل پارلیمنٹ میں منظور ہوتا ہے تو ہندوستان میں صدیوں تک اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
تحریک اوقاف اور آل انڈیا علماء بورڈ کے زیر اہتمام اسلام جمخانہ میں ایک مباحثے میں، مسلمانوں نے اس بل پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ اس سے وقف بورڈ کے اختیارات کو نمایاں طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
اجلاس کی صدارت تحریک اوقاف کے صدر شبیر انصاری نے کی جبکہ مہمان خصوصی سابق ایم ایل اے بابا صدیقی ، سابق کانگریس وزیر اور اب این سی پی لیڈر، کانگریس ایم ایل اےامین پٹیل، ایڈوکیٹ وارث پٹھان، سابق ایم ایل اے اور اے آئی ایم آئی ایم لیڈر، سنئیر صحافی اور روزنامہ ہندوستان کے مدیرسرفراز آرزو ، نظام الدین راعین، ایڈوکیٹ فرحانہ شاہ، سینئر وکیل، مولانا نوشاد احمد صدیقی، علامہ بونئی حسنی، مولانا مرزا عبدالقوم ندوی، اورنگ آباد، سہیل صوبیدار، این سی پی رہنما، مولانا محمد لقمان ندوی، بھیونڈی سے سماجی رہنماء اور تاجر فاضل انصاری شامل رہے۔ان مہمانوں نے بھی اظہار خیال کیا۔
تحریک اوقاف کے صدر شبیر احمد انصاری نے وقف بل کے تعلق سے خدشات کاا ظہار کیا اور کہاکہ اس کا مقابلہ ہمیں متحد رہ کرکرنا چاہئیے ۔انہوں نے کہاکہ وقف کی جائیدادیں اللّہ کی ملکیت ہوتی ہیں اور اس معاملے میں حکومت کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔اس لیے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
سابق ایم ایل اے ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وقف بل کی ترمیم آئین کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں سراسر مداخلت کہی جائے گی۔انہقں نے کہاکہ حکومت کو اس قسم اقدام سے باز رہنا چاہئیے اور اس معاملے میں مداخلت نہیں کی جائے۔ مذکورہ مباحثے کی نظامت سلیم الوارے نے کی۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وقف بل کی مخالفت کی ضرورت ہے کیونکہ اسے پیش کرنے کی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وقف بل کو سوچی سمجھی سیاست کے ایک حصے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ "جب انتخابات کے لیے جمہوری عمل ہے تو لوگوں کو کیوں نامزد کیا جائے؟ کمیونٹی سے باہر کا کوئی فرد دوسرے مذہبی اداروں کا حصہ نہیں ہے۔ وقف اداروں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ مذہب اور مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت کے مترادف ہے، ”
ایک بار منظور ہونے کے بعد، "یونائیٹڈ وقف ایکٹ مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ،” کے طور پر جانا جائے گا۔
مقررین کے مطابق آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل 15 مذہب، نسل، ذات یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکتا ہے۔ آرٹیکل 25 اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے اور آخر میں، آرٹیکل 30 اقلیتوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی برادریوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان کا انتظام کریں – اور اس لیے یہ بل امتیازی نوعیت کا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا