’’ واہ رہے سیاست داں ! فقط پانچ سال میں تو کس طرح بدل جا تا ہے ‘‘

0
0

 

 

قیصر محمود عراقی

کہا جا تا ہے کہ مشورہ ہمیشہ بن مانگے نہیں دینا چاہیئے کیونکہ اس طرح مشورہ بے اثر اور بے فائدہ ثابت ہو تا ہے جبکہ مانگے کا مشورہ ثمر آور ہو تا ہے ، مگر میں خاکسار چونکہ وکیل نہیں ( جو مشورے کا بھی فیس لیتا ہے )، دوسری بات کالم نویس ہو نے کے ناتے بغیر فیس کے مفت مشورے دینا اور تجا ویز آرا پیش کر نا اپنی تو ایک عادت سی بن گئی ہے ، پس اسی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر آج ایک مشورہ سیاست دانوں کو دینے لگا ہوں مجھے یقین ہے کہ سیاست دانوں کو یہ مشورہ پسند آئے نہ آئے قارئین حضرات اور عوام کو ضرور پسند آئے گا ۔ مشورہ یہ ہے کہ ’’ اے سیاست دانوں ہو نے والے الیکشن میں دل بدلونہ بنو‘‘، پچھلے دو دہائیوں سے یہ رواج رہا ہے کہ جب کبھی نئے چنائو کے ایام قریب آتے ہیں تو سیاست داں ادھر اُدھر منہ مارنا شرو ع کر دیتے ہیں ، سیاسی منڈی میں ان کی خرید و فروخت شروع ہو جا تی ہے،جیسے ہی کوئی حکومت بدل جا تی ہے ویسے ہی وفادار یاں تبدیل کر نے کا آغاز ہو جا تا ہے ۔ مذہبی پارٹی ہو یا سیاسی پارٹی جس بھی پارٹی سے کوئی تعلق رکھتا ہو کچھ حضرات پہلی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جا نے کے لئے حیلے بہانے ڈھونڈنے لگ جا تے ہیں ۔ جب کسی نئی پارٹی میں جا نا ہو تا ہے تب یہ سیاست داں اپنی پرانی پارٹی میں ہزار خامیاں ہو نے کا ثبوت پیش کر تے ہو ئے نئی پارٹی کی خوبیاں بیان کر نے لگ جا تے ہیں ۔
قارئین محترم ! سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ یہ اتنی ساری برائیاں اور خامیاں انہیں پہلے نظر کیوں نہیں آتی؟ہمیشہ پارٹی چھوڑتے وقت کیوں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان دنوں ملک میں بھاجپا سرکار کی حکومت چل رہی ہے اور کانگریس جن کی حکومت چل رہی تھی اب پیا گھر سدھار چکی ہے ۔ اگلا چنائو کہیں ہو چکا ہے، کہیں ہو رہا ہے اور کہیں کہیں ابھی ہو نے والا ہے ، آثار ایسے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ دیگر چھوٹی جماعتوں کی مخلوط حکومت بننے والی ہے جس کا سر براہ راہل گاندھی ہو سکتے ہیں ، اسی امکان بات کے پیش نظر ہمارے ہاں ابھی سے لوگ پارٹی بدلنے کا کھیل کھیلنے لگے ہیں ۔ خبر کے مطابق کئی ایک سیاست داں پرانے عہدے داروں سے میل ملاقات کر رہے ہیں ، ماضی کے واقعات اور حال و مستقبل کے کے ان حالات کو دیکھکر ہم مجیسے ووٹر ز یہ سوچ سوچ کر پریشان اور متفکر ہیں کہ ہمارے یہ کر وٹ پہ کر وٹ بدلنے والے سیاست داں آخر اقتدار کے لئے کس حد تک کیوں گر جا تے ہیں ؟ اپنی قیمت کیوں گھٹاتے ہیں ؟ اقتدار ایسی قیمتی تو نہیں جس کے لئے بندہ خود بے قیمت ہو جا ئے ، کر سی اس قدر عزیز تو نہیں جس کے لئے آدمی خود ذلیل ہو جا ئے ، جو چیز انسان کی عزت و تو قیر میں اضافہ کر نے کی بجائے اسے گھٹائے وہ کسی بھی انسان کے لئے زیبا نہیں ، اس راز کو آخر ہمارے سیاست داں سمجھتے کیوں نہیں ؟ بے وفائی خواہ محبوب سے ہو ، خواہ رشتہ دار سے ہو یا خواہ پارٹی سے ہو نہایت ہی مذموم اور قابل نفرت عمل ہے ۔ صرف پانچ فیصد بھی اگر کسی کے پاس عقل ہے تو شخص کسی کے ساتھ بھی بے وفائی نہیں کریگا ۔ یہ کیا بات ہو ئی کہ آج یہاں کل وہاں ، کبھی کالے کے ساتھ کبھی گورے کے ساتھ ، کیا ان لوگوں کے پاس کوئی میرٹ نہیں ، کوئی معیار نہیں ، کوئی شعور اور کوئی ضمیر نہیں کہ بھنورے کی طرح کلی کلی منڈلاتے پھرتے جا رہے ہیں ۔ حالانکہ ہر آنے والی حکومتی پارٹی شمولیت اختیار کر کے اقتدار کا چسکا اور مزہ لینے والے سیاست دانوں کو یہ معلوم ہو نا چاہیئے کہ اس طرح وزارت تو مل سکتی ہے ، مراعات اور اختیارات تو مل سکتی ہیں مگر عزت نہیں ملے گی ، احترام نہیں ملے گا بلکہ عزت خاک میں مل جا تی ہے ۔
آخر میں یہ مشورہ دیتا چلوں کہ بندہ وہ قابل تعریف ہے جو اقتدار کو ٹھوکروں میں رکھے خود اقتدار کے ٹھوکروںمیں نہ رہے ، حکومت میں رہنے کے لئے خود فٹ بال نہ بنے، بازار سیاست میں عجیب تماشہ لگا ہوا ہے ، دین ، دھرم ، ایمان ، ضمیر ، وفا جیسی چیزیں سیاست دانوں کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی ہے ۔ حیران اس بات پہ ہوں کہ آج جس مخالف پارٹی کو گالیاں دے رہا ہے کل اسی پارٹی کے لئے تالیاں کیسے بجا تا ہے ، واہ رے سیاست داں! فقط پانچ سال میں تو کس طرح بدل جا تا ہے ۔ تیری وفا داری بھی تبدیل ، تیرا ضمیر بھی تبدیل ، تیرا معیار بھی تبدیل ، تیرا خیال بھی تبدیل اس تبدیلی کے نتیجے میں علاقہ بدنام ، حلقہ رسوا، شہر شرمندہ اور ووٹر پشیماں ۔ ہم نے آض تک زندگی میں یہی دیکھا کہ جس سیاست داں نے بھی پارتی سے وفاداری نبھائی ،، برے وقتوں میں ساتھ دیا اسے اس کا پھل ضرور مل گیا ، دیر سویر کی بات الگ ، مگر پارٹی میں اور پارٹی سے ہٹ کر بھی ایسوں کی عزت ضرور قائم رہی ۔ اصل سیاست داں اور نمائندہ وہ ہے جو گاڑٖی ، جھنڈا ، کر سی ، وزارت عہدہ اور دھن دولت کی دیوی کے چرنوں میں سجدہ ریز نہ ہو جا ئے ، چند روزہ زندگی کے دو روزہ اقتدار کے لئے خود کو سستا نہ کرے، بس یہ مشورہ ہے اپنے پیارے سیاست دانوں سے ۔ایک بات آخر میں کہ روئے سخن کسی ایک کی طرف نہیں ، ایک عوامی معاملہ تھا جسے پیش کیا ۔
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا